سعودی عرب

قطر اورسعودی عرب کا امریکی غلامی پر جھگڑا

shiitenews obamaایک عرصے سے قطر یہ دعوی کررہا ہے کہ وہابیت کا اصل مرکز سعودی عرب نہیں بلکہ قطر ہے اُسی دن سے سعوی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ سعودی عرب کو وہابیت سے فوائد حاصل کرنے کا علم ہے اس لئے اس کو خوف ہے کہ کہیں قطر کا خواب پورا نہ ہو اور سعودی عرب کے بجائے

قطر ہی وہابیت کا مرکز نہ بن جائے کیونکہ سعودی عرب نے وہابیت کو امریکہ کی خدمت حاصل کرنے کے لئے اوزار کے طور پر استعمال کیا ہے اور آل سعود نے اپنی حکومت مستحکم کرنے اور مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے حوالے سے بھی اور جزیرة العرب کے قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کے حوالے سے بھی، وہابیت سے بے انتہا فوائد حاصل کئے ہیں۔ آل سعود نے مختلف ملکوں میں اپنے ہی پروردہ وہابیوں کے ذریعے اپنی اہمیت کا سکہ جمایا ہے اور اسلام حقیقی کے پیروکاروں کو ان ہی وہابیوں کے ذریعے راستے سے ہٹا کر امریکی مفادات کا راستہ صاف کیا ہےجیسا کہ پاکستان،عراق، شام، مصر، بحرین، آذربائیجان وغیرہ میں ان ہی سعودی ریالات اور امریکی ڈالروں پر پلنے والے وہابیوں اور سلفیوں کو استعمال کیا ہے۔
سعودی عرب نے وہابیت کے ذریعے امریکہ واسرائیل کی جو سب سے بڑی خدمت انجام دی وہ افغانستان میں طالبان / القاعدہ کی حکومت کے قیام سے عبارت تھی جس کے بعد مسلمانان عالم پر غموں اور مصیبتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور جو تاحال جاری وساری ہے۔
ٹھیک ہے کہ وہابیت ایک مسلک کا نام ہے جسے برطانوی جاسوس ہمپرے محمد بن عبدالوہاب نجدی کے ساتھ مل کروجود میں لایا تھا۔ لیکن اصل میں یہ ایک مسلک سے زیادہ طاغوت و استعمارکی خدمت کے لئے ایک تنظیم ہے جس کی سب سے بڑي ذمہ داری اسلامی عقائد کو بگاڑ کر اسلام کو زيادہ سے زيادہ نقصان پہنچانا ہے۔
اس گروہ نے پہلے پہل برطانوی سامراج کی بھرپور خدمت کی اوراب امریکی و صہیونی غلامی میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ امریکہ جب بھی کسی ملک میں اپنے مفادات کے بچاؤ کے لئےکوئی قدم اُٹھانا چاہتا ہے یا کسی ملک میں نا امنی پھیلا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے اس ملک میں آل سعود کے کے آلہ کاروں کے ذریعے قتل وغارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیتا ہے۔ اس کی زندہ مثال پاکستان، عراق اور شام ہیں جہاں ٹارگٹ کلنگ بم دھماکوں کا بازار گرم ہے۔
ان سب حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی و صہیونی و سعودی مفادات کیلئے وہابیت کی کتنی ضرورت ہے اور پھر سعودی عرب کا تو وجود ہی وہابیت پر قائم ہے اور جس دن سعودی عرب میں وہابیت کی جڑیں کمزور ہونگی اور وہابیت کا مرکز یعنی امریکی مفادات کا مرکز سعودی عرب کے بجائے قطر جیسے ملک میں منتقل ہوگا اُسی دن سے سعودی عرب کی بقا خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔
سعودی عرب اور قطر میں وہابیت کی مرکزیت پر ایک سرد جنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جس میں مرکزی کردار امریکہ اداکررہا ہے کیونکہ امریکہ اب گویا اپنے مفادات کے حصول کیلئے سعودی عرب کے بجائے قطر کو استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ سعودی عرب کو اب بیشتر مسلم ممالک کے عوام جان گئے ہیں کہ آل سعود کی حکومت اسلام کی خیرخواہ نہیں ہے بلکہ اسلام کے جڑیں کاٹنے پر مأمور ہے لہذا اس سے پہلے کہ اسلامی ممالک میں سعودی عرب کے خلاف آواز اٹھے امریکہ نے اپنے لئے ایک متبادل ایجنٹ کا انتظام شروع کررکھا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں محمد بن عبدالوہاب کے نام پر بڑی مسجد کی تعمیر، مسجد کے افتتاح کے موقع پر امیر قطر حمد بن خلیفہ کا خطاب اور فروغ وہابیت پر تاکید، امیر قطر اورقطری وزیر خارجہ کی جانب سے سعودی عرب پر قبضہ کرنے کی خواہش کا انکشاف اور پھر قطر میں طالبان کا نمائندہ دفتر کھولنا، امریکہ کی طرف سے قطر کے اس اقدام کی تعریف اور بالآخر قطر ہی میں امریکہ و طالبان کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کا انعقاد اس امریکی خواب کی واضح علامت ہے کہ امریکہ گویا سعودی عرب کو منظر سے ہٹا کر خطے میں قطر کو اپنے پولیس مین کا عہدہ سونپنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
آل سعود کی حکومت اس امریکی ـ قطری رجحان پر سخت ناراض ہے چنانچہ اس نے عالم کفر و استکبار کی نسبت اپنے خلوص کے اثبات کے لئے اسرائیل اور امریکہ کی خدمت اور عالم اسلام بالخصوص تحریک مزاحمت کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے بڑے بڑے قدم اٹھانے شروع کردیئے ہيں کیونکہ اسے خوف ہے کہ کہیں امریکہ اور اسرائیل کی غلامی کی بازی میں قطر کا آل ثانی خاندان آل سعود خاندان پر سبقت حاصل نہ کرے۔
اس وقت امریکہ قطر کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کرنے کا پروگرام بنارہاہے۔جس سے اس نے افغانستان کی کرزئی حکومت کو بھی آگاہ نہیں کیا تھا جس پر حامد کرزئی بھی خاصا ناراض نظر آیا گو کہ امریکیوں نے انہیں چپ کرایا تاہم حامدکرزئی نے الگ سے سعودی عرب میں طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ قطر میں طالبان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ان مذاکرات میں کرزئی حکومت کو شامل نہیں کررہا کیونکہ مذاکرات کا مقصد افغانستا ن میں قیام امن نہیں بلکہ طالبان کو ایک بار پھر اقتدار میں لانا یا ایک غالب قوت کے عنوان سے اقتدار میں شامل کرنا ہے اور یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ امریکہ افغان طالبان کو مختلف ممالک میں سرگرم عمل دہشت گرد ٹولوں سے ہماہنگ کرکے ان سے ایک بار پھر اپنے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہے یا پھر طالبان کو ایران کے مد مقابل لاکر علاقے کے امن کو زک پہنچانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے طالبان کو علاقے میں شیعیان آل محمد (ص) کے خلاف صف آرا کرنا چاہتا ہے چنانچہ ایسے منصوبوں ميں کرزئی کا امریکہ متفق ہونا مشکل ہے کیونکہ حامد کرزئی امریکی مفادات کے لئے کوشاں ہوتے پوئے بھی علاقائی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلق کے اصول پر قائم ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ فرقہ واریت افغانستان اور ان کی اپنی حکومت کے مفاد میں نہيں ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو اُ س کو اپنے وجود کی پڑی ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ امریکہ کیا کرنا چاہتاہے کس کیخلاف سازش میں مصروف ہے وہ تو بس چاہتا ہے کہ امریکہ ہمیشہ کی طرح اب بھی اسلام ی دنیا کے خلاف ریاض کو ہی استعمال کرتا رہے اور سعودی عرب کے لئے متبادل ڈھونڈنے سے باز رہے۔
بہر حال قطر اور سعودی عرب کے درمیان ارضی اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن یہ دونوں حکومتیں امریکہ کے زیر اثر ہيں لہذا امریکہ نے کبھی بھی ان دو ملکوں پر مسلط دو نجدی خاندانوں کو آپس میں لڑنے نہیں دیا ہے اور اب اگر ان کے درمیان کوئی لفظی لڑائی اور سرد جنگ دیکھنے میں آرہی ہے تو وہ جنگ ہرگز امت کے مفادات کے حصول کے لئے نہیں ہے بلکہ امریکی غلامی کے بیشتر مواقع حاصل کرنے کے لئے ہے اور یہ مسابقت امریکہ کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے پہلے امریکہ کا اہم ترین غلام آل سعود کا خاندان تھا چنانچہ وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے کبھی اپنے ذاتی یا خاندانی مفاد کی بات بھی کیا کرتا تھا جبکہ مسابقت میں دونوں خاندان اپنا سب کچھ لٹا کر اور اپنا دین و ایمان اور حتی کہ خاندانی مفادات کو بھی قربان کرکے اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے دوڑنے لگے ہیں۔ سعودی خاندان امریکہ کو اپنی خدمات یاددلا رہا ہے اور مزيد وعدے دے رہا ہے تو قطر کا حکمران خاندان آل سعود کو تھکا ہارا اور بوڑھا خاندان قرار دے کر امریکیوں کو جتا رہا ہے کہ "اب امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک تازہ دم حکومت کی ضرورت ہے” اور اگر ایک طرف سے یہ مسئلہ عالم اسلام کے لئے افسوسناک ہے تو دوسری طرف سے امریکی، برطانوی اور اسرائیلی بڑے خوش نظر آرہے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ مسلم اقوام کو تو امریکہ کے طویل المدت تسلط سے نجات چاہئے اور امریکہ سے نجات کا واحد راستہ آمروں، بادشاہوں اور غیر منتخب حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جس کے لئے ملتوں میں اسلامی بیداری کی لہر اٹھ چکی ہے اور وہ دن دور نہیں جب امریکی خوشنودی کے لئے مسابقت میں مصروف پناہ ڈھونڈیں گے اور انہیں پناہ نہیں ملے گی حتی کہ ان کے آقا بھی ان کو پناہ دینے کے عمل کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔
تحریر: جاوید طوری و ف۔ح۔مہدوی
مآخذ: ابنا

متعلقہ مضامین

Back to top button