متفرقہ

دہشت گردوں کے ہاتھوں برمی مسلمانوں کی نسل کشی کی ڈائری

barma genosideترجمہ: (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بے شک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔ (القرآ

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق سابق آراکان اور موجودہ راکھین یا راخین کے مسلمانوں کا قتل درندگی کا پست ترین اور وسیع ترین نمونہ ہے عصر مواصلات اور نام نہاد انسانی تمدن کے عروج کے اس دور میں؛ طالبان اور القاعدہ اور وہابیت سے وابستہ ٹولوں نے اب تک جو کچھ پاکستان، افغانستان، عراق، شام، سعودی عرب، یمن اور بعض افریقی ممالک میں کیا یا جو امریکیوں اور برطانویوں نے عراق و افغانستان اور بعض افریقی ممالک میں کیا یا پھر جو کچھ وہاییت کے حلیف یہودی صہیونیوں نے فلسطین وار لبنان میں کیا وہ سب بظاہر پرامن بودھوں کے ہاتھوں برما میں ہونے والی انسانیت کشی سے کم ہی نظر آتا ہے۔ شاید پرتگیزوں، ولندیزوں، انگریزوں اور ہسپانویں نے جو کچھ امریکہ کے اصل باشندوں کے دو یا تین صدی قبل کیا آج وہی کچھ اس نام نہاد مہذب دنیا اور مہذب زمانے میں تمدن و تہذیب کے دعویداروں کی آنکھوں کے سامنے برما میں ہورہا ہے۔ جو کچھ برما میں ہورہا ہے اس کا طالبان اور القاعدہ یا بلیک واٹر یا صہیونی اور وہابی بھی شاید تصور نہیں کرسکیں گے۔
بہرصورت راقم اور قارئین کم از کم اس طرح کے جرائم کا تصور تک نہیں کرسکتے چنانچہ ہمیں یہ حقائق دیکھ کر اس موضوع سے آگہی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؛ ہولناکیوں کے اس دور میں مسلمانان برما کے ساتھ ہولناک ترین رویہ اپنایا گیا ہے لیکن پتہ نہیں کہ کیا واقعی آج کی دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے؟ کیا وہ جو اپنے آپ کو برحق سمجھتے ہیں اور دوسروں کو نہ صرف باطل سمجھتے ہیں بلکہ انہیں واجب القتل قرار دیتے ہيں اور پھر ان کو قتل بھی کرتے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ وہ حکمران جو چیچنیا میں القاعدہ اور آذربائی جان میں صہیونی نواز حکومت کی حمایت کو اسلام کی حمایت سمجھ رہی تھیں اور ازبکستان و دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں میں شدت پسندی پر سرمایہ لگا رہی تھیں، کہاں ہیں اور ان کا موقف ہے؟ کیا انہیں امریکیوں کی خدمت سے فرصت ہے کہ مسلمانوں کی کسمپرسی دور کرنے کے بارے میں ـ زبانی جمع خرچ ہی سہی ـ موقف اختیار کریں؟
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ۔ (سورہ حج آیت 40)
ترجمہ: (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بے شک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔
ویسے تو برما کے مسلمانوں کو گذشتہ دو برسوں سے تعرض اور جارحیت کا سامنا ہے لیکن ان کے خلاف نئے جرائم کا آغاز جون 2012 کے ابتدائی دنوں سے ہوا ہے اور ہم یہاں تاریخ وار بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1- نومسلم خاتون کو بودھوں نے اغوا کرکے قتل کیا اور پھر مسلمانوں پر الزام لگایا کہ مسلمانوں نے اس خاتون کو اغوار اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تین جون کو بودھوں نے ـ گلگت اور چلاس میں اہل تشیع کی گاڑیوں کو روک کر مسافرین کو اتار کر قتل کرنے کی طرز پر ـ ایک بس کو روکا اور اس میں سے "تبلیغی جماعت” کے 10 اراکین کو اتار کر بے دردی سے قتل کیا اور بعض دیہاتوں پر مسلحانہ حملے ہوئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے مسلمان مبلغین کو ذبح کیا اور پھر ان کے سر اور داڑھی کے بال مونڈھ لئے اور ان پر بدھ بھکشؤوں کے نارنجی کپڑے پہنائے گئے اور کہا گیا ہے کہ یہ لوگ بدھ بھکشو ہیں جن کو مسلمانوں نے بے دردی سے ذبح کیا ہے اور یوں بودھوں کو مشتعل کیا گیا۔
2۔ فوج اور بعض سرکاری حلقوں نے دہشت گردوں کو مختلف قسم کے ہتھیاروں سے لیس کیا اور ساتھ ہی سرکاری اعلان کے مطابق مسلمانوں کے لئے چاقو تک رکھنا بھی ممنوع اور قابل سزا جرم قرار دیا۔
3۔ بائسک نامی گاؤں کے گھروں کو باہر سے بند کیا گیا اور پھر انہیں آگ لگا دی گئی جس کی وجہ سے آٹھ سو افراد شہید ہوئے جن میں سے 500 افراد جل کر شہید ہوئے۔
4۔ زگانگ مولی نامی گاؤں اور اس کی مساجد اور مقدس مقامات کو منہدم اور نذر آتش کیا گیا؛ گھروں کو لوٹ لیا گیا اور اس گاؤں کے 400 افراد کا قتل عام کیا گیا۔
5۔ فلاتانگ نامی گاؤں کا آدھا حصہ نذر آتش کیا گیا اور اس کی مساجد اور اسکولوں کو بھی جلا دیا گیا۔
6۔ نذیروارا نامی گاؤں کا دو تہائی حصہ جلایا گیا۔ یہ مرکزی گاؤں ہے جو اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو شہر کا درجہ پاتا۔ اس گاؤں کے اٹھارہ محلے ہيں اور بودھوں نیز برمی افواج نے 3600 مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
7۔ ہزیمہ فارا نامی گاؤں کو نذر آتش کیا گیا اور 850 افراد کو قتل کرکے آگ میں جلادیا گیا۔ اس حملے میں 50 مسلمان لاپتہ ہوگئے۔
8۔ والیس وارا، فوران وارا اور سان تولی نامی دیہاتوں کو نذرآتش کیا گیا اور 700 افراد کو قتل کیا گیا جبکہ سینکڑوں مکانات کو تباہ کیا گیا۔
9۔ شانگری لین، باؤسورا، کادین روا، دیاتی زو، شوی بیا، کودو بانگا، روئاکوم وارا، ہادی خولا، سامان غارا، خانان شانگ، دیروم وارا، سیدا سومونی، مولوی فارا، میوتوجی، لیسی اور تمبوئے نامی دیہاتوں کو نذر آتش کیا گیا اور ان دیہاتوں کے ہزاروں باشندوں کو زندہ جلادیا گیا اور گھروں اور مساجد کو منہدم کیا گیا۔
10۔ 25 جون کو 700 مسلمان کوئی دلیل بتائے بغیر گرفتار کرکے نامعلوم مقامات کی طرف منتقل کئے گئے۔
11۔ 22 مسلم دیہاتوں پر بودھوں کا قبضہ ہوا جبکہ بودھوں کو برمی فوج اور سیکورٹی فورسز کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں سے اٹھارہ دیہاتوں کو نیست و نابود کیا گیا اور 9000 مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور لوگوں کو جلے ہوئے گھروں میں لوٹنے سے روکنے کے لئے ان دیہاتوں کے گرد خاردار تاریں بچھا دی گئیں۔
12۔ سانشی فارا، ئافوک، رامری، ليسون کوک، سيگاگانگ نامی دیہاتوں کو نذر آتش کی گیا، گھروں اور مسجد اور مدرسے کو ویران کیا گیا اور سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔
13۔ فتری کیلا کے علاقے میں مسلمانوں کے ایک مقبرے کو منہدی کیا گیا اور مورو نامی گاؤں کو نذر آتش کیا گیا۔
14۔ ليسي، تامبوئے، سامیلا، زادی وارنگ، بوسی دانگ، لاوا دانگ اور علی اکبر وارا نامی گاؤں منہدی کئے گئے اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جبکہ مسجد اور مدرسے کو بھی منہدم کیا گیا۔
15۔ بوسی دانگ گاؤں کے واقعات، مسلمانوں کے لئے کرفیو کا نفاذ اور انہیں ضرورت کی اشیاء خریدنے تک سے روکا گیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں میں مسلمان بھوکوں مرگئے اور ساتھ ہی بودھوں کے حملے جاری رہے۔
16۔ مسلمان نشین دیہاتوں کے سینکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔
17۔ کئی مشائخ اور علماء کو قتل کیا گیا اور قانون کے متعدد طالبعلموں کا سر قلم کیا گیا۔
18۔ هاجا وارا، ميامانکیا اور ئانتی وارا نامی دیہاتوں کو نذر آتش کیا گیا، سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور گھروں اور مسجد کو منہدم کیا گیا۔
19۔ مانگدو شہر کی جامع مسجد کی دیوار گرا دی گغی اور خاندار وارا، باکونا اور خدیر بیل نامی دیہاتوں کی مساجد کو شہید کیا گیا۔
20۔ 14 جون 2012 بروز جمعرات سیکورٹی فورسز نے "پندرہ مسلم لڑکیوں” کو حراست میں لیا اور انہیں خفیہ مقام پر منتقل کیا گیا اور اطلاعات کے مطابق ان لڑکیوں کے بارے میں کوئی خیر خبر نہیں ہے۔
21۔ ئارشووارا کے دہہاتوں میں مسلمان لڑکیوں کی سر عام بے حرمتی کی گئی اور ان کے سینے کاٹ دیئے گئے اور متعدد لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔
22۔ شہر گانگ کی مسجدوں میں نماز باجماعت ممنوع قرار دی گئی (15 جون 2012)
23۔ ، کونا وارا، لامبا کونا، کيلائے دونگ، خایندا وارا اور میراللہ نامی دیہاتوں کو نذر آتش کیا گیا اور سینکڑوں مسلمانوں کو قتل اور گرفتار کیا گیا۔
24۔ میورٹک نامی گاؤں کے گھروں اور مسجد کو نذر آتش اور منہدم کیا گیا۔ اس گاؤں میں نصب کتبے بھی منہدم کیا گیا۔ 25۔ بوشووارا نامی گاؤں میں عبداللہ اور سعید حسین نامی مشہور مسلمان راہنماؤں کو شہید کیا گیا۔
26۔ ہاتھی بازار خایانری وارا نامی دیہاتوں میں 10 افراد کو قتل اور منگلہ نامی گاؤں کی مسجد کو شہید کیا گیا۔
27۔ حبیب الرحمن، ماسٹر ولی محمد، محمد یونس اور عبدالحکیم نامی مسلم علماء کو یودانگ نامی گاؤں میں کلہاڑیوں سے قتل کیا گیا۔
28۔ بودھوں کی مکارانہ چال، مسلمانوں کو قربان کرنا، ان کے سر جدا کرکے سڑکوں پر پھینکنا، لاشوں کو بھکشؤوں کا لباس پہنانا اور افواہ اڑانا کہ یہ بودھ بھکشو ہیں جن کو مسلمانوں نے قتل کیا ہے۔
29۔ رائے عام کو فریب دینے کے لئے مسلمانوں کو وحشی اور خونخوار متعارف کرایا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تشدد کی تصاویر نشر کرکے کہا جاتا ہے کہ یہ ہیں مسلمانوں کے کارنامے۔
30۔ مسلمانوں کے نامی گرامی قائدین کو گرفتار کرکے انہيں خفیہ مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔
31۔ گھروں پر حملے، لوٹ مار اور مردوں کو گرفتار کرکے عورتوں کی عصمت دری، بودھوں کا معمول بن چکی ہے۔
32۔ آراکان کے علاقے میں باقی ماندہ مساجد کو سرکاری فورسز کے توسط سے بند کیا گیا ہے۔
33۔ بارہ میل نامی علاقے میں ایک نیا اور تنگ و تاریک جیلخانہ تیار کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں کو رکھا جاتا ہے اور وحشیانہ انداز سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
34۔ مسلمانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنی مویشیاں اور کھانے پینے کے وسائل اور اشیاء خورد و نوش فوج اور پولیس کے حوالے کریں اور اس کے بعد انہيں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا جاتا ہے اور پاکدامن عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
35۔ سائندا وارا نامی گاؤں کو گھیرے میں لیا گیا اور مسلمان خوفزدہ ہوکر بھاگنے لگے تو ان کا قتل عام کیا گیا۔
36۔ متاثرین میں سے بعض نے بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن ان کی کوشش ناکام رہی اور بنگلہ دیش کی زمینی اور آبی سرحدوں کو بند کیا گیا۔
37۔ 170 مسلمان مورخہ 21 جون 2012 کو برما سے بھاگنے اور بنگلہ دیش پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو بنگالی فورسز نے انہيں برمی افواج کے حوالے کیا اور ان سب کو اسی دن پھانسی دی گئی۔
38۔ جن شہروں میں اس سے پہلے کبھی تشدد آمیز کاروائیاں نہيں ہوئی تھیں ان میں مساجد پر سنگباری کی گئی۔ آٹھ سے اٹھائیس جون 2012 تک ہزاروں مسلمان شہید، زخمی، لاپتہ اور مہاجر ہوگئے۔
ماہ شعبان المعظم میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم
39۔ کثیر تعداد میں مسلمان کوہ و دشت کی طرف بھاگ گئے اور ان میں اکثر افراد بھوک، پیاس، شدید بارشوں اور موذی حیوانات و حشرات کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
40۔ جیلیں قیدیوں سے بھر گئیں تو 900 قیدیوں کو برہنہ کیا گیا اور ان سے پل کا کام لیا گیا اور جن قیدیوں نے بدھ دہشت گردوں اور برمی افواج کے قدموں تلے آہ و فریاد کی انہیں قتل کیا گیا۔
41۔ مانگدو کے علاقے میں واقع باکونا گاؤں میں بودھوں اور برمی فوجیوں نے ایک گھر میں داخل ہوکر گھر کی لڑکی کی عصمت دری کرنے کے بعد لڑکی سمیت گھر کے تمام افراد کو قتل کیا۔
42۔ مانگدو کے علاقے سے بوسی گاؤں میں لوٹ کر آنے والی ایک ماں اور اس کی نوجوان بیٹی کو چھ روز تک درندگی کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے تمام اموال اور اشیاء کو لوٹ لیا گیا۔
43- بودھوں نے حکومت برما سے درخواست کی ہے کہ انہيں باقیماندہ مسلمانوں کا مکمل صفایا کرنے کی اجازت دے یا انہیں ملک بدر کیا جائے۔
44۔ فوج نے مزید دو مہینوں تک برمی مسلمانوں کے قتل عام کی تجدید کی ہے اور مزید دومہینوں تک دہشت گردوں کو ہر قسم کے ظلم و ستم کی اجازت دی گئی ہے۔
45- 29 جون بمطابق 9 شعبان کو راشنگا نامی گاؤں سے پانچ نوجوانوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔
46- مانگدو کے علاقے میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے کرکے سینکڑوں نوعمر لڑکیوں کو گرفتار کرکے ان کے گلوں میں رسیاں باندھی گئیں اور انہيں ماؤں کے سامنے سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔
47۔ مانگدو اور کیوتو کے گاؤں رامری میں مسلمانوں کے زیر استعمال پانی کے تالابوں اور کنؤوں میں زہر ڈال دی گئی جس کی وجہ سے سینکڑوں مسلمان لقمہ اجل بن گئے۔
48۔ ماگنی وارا گاؤں کے 20 باریش مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کی داڑھیاں جلائی گئیں اور پھر انہیں جانوروں کی طرح قربان کیا گیا۔
مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور تہذیب و تمدن کی دعویدار دنیا خاموش
49۔ مسلمانوں کے گھروں اور دیہاتوں کو جلانے کا سلسلہ جاری ہے، بدھ دہشت گردوں اورفوجیوں نے مسلمان عورتوں کی عصمت دری کے سلسلے کو وسیع تر کردیا ہے، مسلمانوں سے بھاری رقوم وصول کرنے کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے اور ان کے ظلم و درندگی ميں اضافہ ہورہا ہے۔
50۔ ایک لڑکی کو مویشیوں کی چرنی کی طرف لے جایا گیا اور اس کی برسرعام عصمت دری کی گئی اور اس کے سینے کاٹ دیئے گئے اور حاضر لوگوں کو اس کو طبی امداد بہم پہنچانے سے روکا گیا۔
51۔ ملکی ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرتے ہوئے مکارانہ چالیں چلنا اور مسلمانوں کے جلے ہوئے دیہاتوں کو بودھوں کے دیہات ظاہر کرنا اور تشہیر کرانا کہ یہ دیہات مسلمانوں نے نذر آتش کئے ہیں۔
52۔ ہنگامی حالت کے بہانے ذرائع ابلاغ کو برما سے نکال دیا گیا اور اندرونی ذرائع کو دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کی ہدایت کی گئی اور تشدد میں وسعت اور شدت آنے کے بعد اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی چھٹی کردی گئی۔
ارشاد احمد صدیقی کے کالم سے بعض اقتباسات:
"مت رو برما” یہ عالمی غفلت نیا انسانی وطیرہ نہیں انسانی خون کی ارزانی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کئے جاتے ہیں کرہ ارض کے محافظ اس وقت تک خاموش رہتے ہیں جب تک خون کا دریا اپنی سرحدیں توڑ کر نہ بہہ نکلے ،خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کے عظیم دماغ مل کر سوچتے ہیں کہ اس واقعہ پر کیا اقدام کیا جائے؟ وہ سوچتے ہیں اور انسانی خون خدا کی زمین کو لالہ زار کرتا ہے ۔
ایک عام فارمولے کے مطابق ساری دنیا کی نظریں امریکا پر جاکر رک جاتی ہیں کہ امریکا ہی اس قضیہ کا حل نکالے گا۔اور دوسری طرف ہمارے مذہب کے محافظDefender of the faith طاقتور مسلمان ممالک جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے، بحر ظلمات میں دوڑادیئے گھوڑے ہم اپنی اپنی راج دھانیوں میں شانت سے براجمان ہیں اور دشت اور بحر ظلمات سے سراسر یک طرف اس سوچ میں غلطیاں ہیں کہ اپنے ملک میں دنیا کی اونچی عمارت اور دنیا کا سب سے لمبا ائر پورٹ تعمیر کریں ان کی لاتعلقی نئی نہیں اور ان کے ہونٹوں پر ثبت مہر بھی نئی نہیں۔
آج برما کا شمالی صوبہ ارکان مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے آج برما کی مسلمان عورتوں اور بچیوں کی عصمت وعفت درندہ صفت برمی فوج اور پولیس کے ہاتھوں ارزاں ہے اور ان کی بارکوں میں عصمت دری کے اعداد پر بازیاں لگائی جارہی ہیں اور دنیا خاموش ہے برما لہو لہو ہے اور دنیا خاموش ہے تشدد سے مخلوق اپاہج ہوچکی ہے دنیا خاموش ہے دنیا خاموش ہے وہ باہمت جنہوں نے اس جاگتی جہنم سے فرار کی راہ اختیار کی تو ان پر بنگلہ دیش کی سرحدیں بند کردی گئیں بنگلہ دیش بلبلا اٹھا کہ بنگلہ دیش مزید مہاجرین کو پناہ دینے سے معذور ہے اس وقت بنگلہ دیش میں 2لاکھ سے زیادہ برمی مسلمان پناہ گزیں ہیں ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ بنگلہ دیش محدود ذرائع کا ملک ہے ، بنگلہ دیش کو مدد کی ضرورت ہے اور دنیا خاموش ہے اب ذرا سوچئے کہ اگر برمی مسلمان پناہ گزیں انڈیا کا رخ کریں تو کیا انڈیا اپنی سرحدیں کھول دے گا ؟
ایک خبر کے مطابق صرف ایک ہفتہ قبل برمی ملٹری اور پولیس نے مل کر تقریباً ایک سو نوجوان مسلمان برمیوں کو زیر حراست لیا اور ان پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر کا جرم عائد کرکے ان کو پابند سلاسل کردیا اور آج وہ سو کے سو نوجوان لاپتہ ہیں اور دنیا خاموش ہے ایک ریڈیو خبر کے مطابق برما سے بھاگنے والے پچاس برمی مسلمان ایک کشتی میں سوار بنگلہ دیش کے رخ جارہے تھے ، برمی ہیلی کاپٹر کی گولیوں کی بوچھاڑ میں سارے قتل ہوئے اور کشتی ڈوب گئی اور دنیا خاموش ہے ۔ آج برما کے بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی بہت سی تاویلیں کی جاری ہیں ۔ حتیٰ کہ برما کی محبوب اور مقبول حزب اختلاف کی لیڈرانگ سان سوکی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس حقیقت سے آنکھیں پھیر لیں اور کہا کہ انہیں اس معاملے کا مکمل علم نہیں ۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ روہنگ یاس کے بیشتر باشندے برمی شہری نہیں ہیں ۔ غضب خدا کا وہ برمی شہری نہ سہی کیا ہم برمی حکومت سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ انسان بھی نہیں ؟
urdutimes.com کا کالم:
برما: مسلمانوں کا قتل عام اور امت مسلمہ کی خاموشی
برما میں تین جون سے بے گناہ و مظلوم اور نہتے مسلمانوں کا بدترین قتل عام جاری ہے۔ لاکھوں مسلمان جو برما بنگلہ دیش کی سرحد پر ساحلی دلدلی علاقوں میں جانوروں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، کا اچانک قتل عام شروع کر دیا گیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کر لیا تھا جسے بودھوں نے غصہ میں آ کر پہلے قتل کیا اور پھر اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا کہ انہوں نے اغوا کر کے اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کیا۔ یہ واقعہ اٹھائیس مئی کو پیش آیا۔ تین جون کو بودھوں نے ایک بس روک لی اور پھر اس میں سوار تبلیغی جماعت کے دس ارکان کو اتار کر قتل کر دیا۔ ساتھ ہی کئی ایک کے سر اور چہرے مونڈھ کر مشہور کر دیا کہ مسلمانوں نے بودھ رہنماؤں کو شاگردوں سمیت قتل کیا ہے۔ بس پھر کیا تھا، ہر طرف سے بودھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے بے بس و بے کس مسلمانوں کا مار مار کر کچومر نکال دیا۔
دس جون کو جب دنیا تک خبر پہنچی تو افواج کے ساتھ کرفیو نافذ کر کے میڈیا کو بھی علاقہ بدر کر دیا گیا۔ یوں اب فوج، پولیس اور بودھ مل کر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ہزاروں بستیاں جلا دی گئی ہیں۔ لاکھوں مسلمان معمولی جھونپڑیوں میں رہتے تھے اور ان کی جھونپڑیاں بھی خاکستر کر دی گئی ہیں۔ ہزاروں مسلمان جانیں بچانے کے لئے بنگلہ دیش کی طرف بھاگے تو انہیں بنگلہ دیشی بحریہ اور فوج نے واپس دھکیل دیا۔ واپس پہنچے تو وہ بھی قتل ہوگئے۔ مقامی حکومت نے پہلے ہی ان مسلمانوں سے شہریت چھین رکھی ہے۔ برما انہیں بنگالی جبکہ بنگلہ دیش انہیں برمی قرار دیتا ہے۔ یوں ہر طرف موت کے سائے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ساری دنیا ان مظلوموں کا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ کوئی ان کا غمگسار نہیں۔ ستاون بے بس اور لاچار مسلم ممالک میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے ان کے لئے زبان سے کوئی ہمدردی کا لفظ تک نکالا ہو، اور نہ ہی کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے ان کی کوئی بات نہیں کی۔
سارے کا سارا کفر اکٹھا، ایک دوسرے کا حمائتی اور یکجا ہو چکا ہے۔ مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کا قتل ِ عام ہو رہا ہے۔ لیکن بکھری ہوئی امت کے حکمران، راہنما، میڈیا کفر کے ہاتھوں اس قدر بے بس اور مجبور ہوچکے ہیں کہ ہرطرف خاموشی اور بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ نبی کریم کا ارشاد ِ ہے کہ جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے اگر وہ طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے روکے۔ اگر اتنی قدرت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے اور اگر اتنی بھی قدرت نہ ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے۔
برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کا ایک حصہ ہیں، اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے حامل ہی ہوتے تو پوری دنیا کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹو کی افواج امن عالم کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پہنچ جاتیں، امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے، یورپی یونین فوراً سے بیشتر پابندیاں عائد کر دیتی، اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظور کرتا ہو اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا، عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ وہ بے چارے مسلمان تھے۔
برما کے مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے اس دکھ، مصیبت کی گھڑی میں ترقی پسند اور نام نہاد امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پوری دنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے لیکر مذہبی اور سیاسی راہنما تک اس انسانیت سوز واقع پر خاموش اور شرم ناک رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ برما میں ہزاروں عورتوں، بوڑھوں، بچوں کے قتل ِ عام سے دیہات کے دیہات لاشوں اور خون سے بھرے ہیں، ندی نالوں، سڑکوں، جنگلوں میں برما کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ اس درندگی میں مسلمانوں کے شہر، بستیاں اور دیہات جلا کر خاکستر اور صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں۔ اس ظلم اور بربریت کے خلاف مناسب طریقے سے احتجاج تو دور کی بات ہے، مناسب الفاظ میں ان مظالم کی مذمت تک نہیں کی جا رہی۔ خاص کر بے مقصد چیخنے چلانے اور بریکنگ نیوز کے لئے ہر وقت مضطرب، بے چین آزاد میڈیا نے برما کے مسلمانوں کے ساتھ دل دہلا دینے والے مظام پر دانستہ، مصلحتاً خاموشی اور بے حسی کی انتہا کر دی ہے۔
آج تمام اقوام غیر آپس کے اختلافات بھلا کر اسلام کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔ یہود ونصاری اور تمام غیر مسلم بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر جھپٹ رہے ہیں۔ غیر مسلم طاقتیں ایک طرف تمام مسلم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہی ہیں تو دوسری جانب انہیں وسائل کو امت مسلمہ کے چھوٹے اور معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل ِ عام کرنے سمیت امت مسلمہ کے درمیان مزید اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔ ہم ہیں کہ خود فریبی میں مبتلا ہوکر دنیا وآخرت سے بے فکر، جھوٹ، مکر و فریب اور دھوکہ دہی میں لگے ہیں۔ آج دنیا کی محبت اور چاہ نے ہمیں ایسے مواقع پر اپنے اسلاف کا کردار، شاندار ماضی اور آخرت سب کچھ بھلا دیا ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے ، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر

متعلقہ مضامین

Back to top button