مشرق وسطی

بحرین کی شعلہ بیان نو عمر شاعرہ آیات القرمزی کے حالات زندگی اور لازوال نظمیں

ayat alqarmaziاشاعت خاص: آیات القرمزی بحرین کی نو عمر شاعرہ ہے،جو اہل وطن کی جمہوری تحریک کامرکزی کردار بن چکی ہے۔ وہ یکم جنوری 1991 ء میں پیدا ہوئی۔ اس کا پورا نام آیات حسن محمد القرمزی ہے، وہ اپنی گرفتاری اور نظربندی سے قبل یونیورسٹی آف بحرین کے ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کی طالبہ تھی۔اس کی شہرت کا آغاز، دوار اللولو پر ہزاروں مظاہرین کے روبرو نظمییں پڑھنے سے ہوا۔ اس دوار اللولو کو موتی کا چوراہا یا ” پرل راؤنڈ اباؤٹ ” بھی کہا جاتا ہے۔ 2011ء کے تاریخی مظاہروں کے بعد موتی کے چوراہے کو مسمار کر دیا گیا۔قبل ازیں،یہاں ایک دیدہ زیب چوراہا تھا جہاں سفید قوسی مخروطی میناروں کی ہتھیلی بنا کر اس پر ایک سفید خوب صورت موتی رکھ دیا گیا تھا۔موتی کا چوراہا، بحرین سینڑل مارکیٹ، سٹی سینٹر اور پرل ٹاور اپار ٹمنٹس کمپلیکس کے درمیان واقع تھا۔ یہاں واقع بحرین ورلڈٹریڈ سینٹر اور بحڑین مالیاتی ہار بر اب بھی موتی کے چوراہے کی یاد دلاتے ہیں،جو جمہوریت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بائیس فروری ۲۰۱۱ ء کو اس چوراہے پر آیا لقرمزی نے ہزاروں مظاہرین کی موجودگی میں پُر جوش انداز میں ایک نظم پیش کی ۔اس نظم میں بحرین میں بحرین کے وزیر اعظم پر تنقید کی گئی تھی۔اس وقت آیات القرمزی کی عمر محض ۲۰ سال تھی، پورا مجمع دم بخود ہو کر اس کی نظم سن رہا تھا۔اس واقعے کے ۱۱ روز بعد ۶ مارچ ۲۰۱۱ کو آیات القرمزی نے ایک بہت بڑے مجمعے کے سامنے ایک اور نظم پڑھی۔ اس نظم میں براہ راست ریاست کے حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی روز یہ نظم یوٹیوب،ٹو ئڑ اور سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر دیکھائی جانے لگی۔ اُن کی یہ نظم پورے بحرین میں پھیل گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آیات القرمزی کا ناراض، غصیلا اور مشتعل لہجہ پوری عرب دنیا میں پھیل گیا۔ انتیس مارچ ۲۰۱۱ء کو پولیس کی بھاری نفری نے خواتین پولیس اہل کاروں کے ساتھ آیات القرمزی کے گھرپر چھاپہ مارا مگر وہ گھر پر نہیں تھی۔پولیس نے پورے گھر کو الٹ پلٹ دیا اور اس کا کونا کونا چھان مارا ۔ وہ نہ ملی تو ایک پولیس اہل کار نے اس کی ماں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ ہم آیات کو گرفتار کرنے آئے تھے، مگر یاد رکھو! اگر وہ زمین کی آخری تہہ میں بھی جا چھپی تو ہم اسے وہاں سے بھی نکال لائیں گے اور اسے ہر صورت میں گرفتار کریں گے۔ یہ کہہ کر پولیس کی نفری واپس چلی گئی۔اگلے روز پھر پولیس اہلکاروں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے خود کار ہتھیاروں کا رخ اس کے بھائیوں کی طرف کر دیا اور پھر ایک پولیس افسر نے چیخ کر اس کے والد سے کہا کہ اگر تم نے پندرہ منٹ کے اندر اندر آیات القرمزی کو ہمارے حوالے نہ کیا تو ۱۶ ویں منٹ میں ہم تمہارے چاروں بیٹوں کو زندہ بھون دین گے، ہمارے پاس تمہارے بیٹوں پر گولی چلانے کے احکامات موجود ہیں۔اب آیات کے والدین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اسے واپس بلائیں۔والدین کے بلانے پر وہ واپس آئی تو اسے حراست میں لے کر ایک کار میں بٹھا یا گیا۔ دونوں پولیس اہلگاروں نے کہا کہ اب تم پر صرف جسمانی تشدد نہیں کیا جائے گا،بلکہ تمہاری آبروریزی کی جائے گی اور اس حالت میں تمہاری تصوریرں لی جائیں گی اور تمہاری فلم بنائی جائے گی اور اسے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا جائے گا۔گرفتاری کے بعد آیات القرمزی کا کچھ پتا نہیں چل رہاتھا اس کی ماں ایک تھانے سے دوسر ے سے تیسرے اور اسی طرح وہ شہر کے ایک ایک تھانے کے چکر کاٹ رہی تھی۔ اس کی ماں سے کہا گیا کہ وہ اپنی بیٹی کی گم شدگی کی رپورٹ درج کروائے اس نے یہ رپورٹ ان پولیس اہل کاروں کے روبرو درج کروائی جو اسے گرفتار کر کے لے گئے تھے۔ آیات کی گرفتاری پر پورا خاندان پریشان تھا۔شہر میں افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یا قتل کر دیا گیا ہے؟ پھر ایک روز اچانک آیات القرمزی کی اس کی والدہ سعدہ سے بات کروائی گئی۔ بیٹی نے ماں کو بتایا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سادہ کاغذوں پر جبر ا اس سے دستخط لئے گئے۔ پھر ایک ذریعے سے سعدہ کو معلوم ہوا کی اس کی بیٹی شہر کے فوجی اسپتال میں زیر علاج ہے کیوں کہ تشدد کے دوران اس کے جسم پر زخم آئے تھے۔آیات نے اپنی ماں کو بتا یا کہ اس کی گرفتاری کے بعد متعدد مرتبہ اس پر اذیت ناک و حشیانہ تشدد کیا گیا۔بعد میں بحرین کے سرکاری چینل پر ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں آیات اپنا نام لیتی ہے اور کہتی ہے کہ \” میں شیعہ ہوں اور سنیوں سے نفرت کر تی ہوں \”اس نے اپنی ماں کو بتا یا کہ اسے بری طرح مارا پیٹا گیا اور تشدد کے بعد اس سے یہ جملہ کہلوایا گیا۔ اس دوران اس کا نام یونی ورسٹی آف بحرین کی پارلیمنٹ کے ۱۸ ممبران اپنی رکنیت سے استعفٰی دے دیا۔ اہمنسٹی انڑ نیشنل نے اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مشرق و سطٰی اور شمالی افریقا ے لئے ایمنسٹی انڑ نشنل کے سربراہ میلکم اسمارٹ نے کہا کہ لوگوں کے سامنے اپنا نقطہ نظربیان کر نے پر ایک خاتون شاعرہ کو زندان میں ڈالنا ایک سفاکانہ اور بے رحمانہ عملہ ہے۔ آیات القرمزی کی گرفتاری اور اس پر ہونے والے تشدد کے خلاف ایران مین زبردست مظاہرے کئے گئے۔اطلاعات کے مطابق آیات کو گرفتاری کے بعد ۹ روز تک ایک چھوٹے سے انتہائی سرد سیل میں رکھا گیا، جس میں وقفے و قفے سے ایسی گیس چھوڑی جاتی تھی جس سے اسے احساس ہوتا کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ ۲۱ جون ۲۰۱۱ کو اسے ٹی وی پر بادشاہ اور وزیر اعظم سے معافی مانگتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔ اگرچہ سیکوریٹی عدالت نے اسے ایک سال کی سزا سنائی مگر ۱۳ جولائی ۲۰۱۱ کو اسے رہا کر دیا گیا تاہم وہ اپنے گھر پر نظر بند رہی۔ اس کے والدین اور دیگر اہل خانہ اس کی سالمتی کے بارے میں اب بھی خوف زدہ ہیں۔آیات القرمزی کی چند لازوال نظمیں نذر قارئین ہیں۔ یہ نظمیں ایک لمبے عر سے تک دنیا بھر میں آمریت، مطلق العنانیت اور ریاستی جبر کے خلاف لڑتی ہیں گی۔ 

ہم لوگ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم محلات میں رہیں نہ ہی ہم لیڈروں سے محبت کے متمنی ہیں ہم وہ لوگ ہیں،جو تزلیل و توہیں و تحقیر کو قتل کرتے ہیں اور پریشانی و خستہ حالی کی جان لیتے ہیں ہم وہ لوگ ہیں جو استحصال کی بنیادوں کو ڈھادیتے ہیں ہم وہ لوگ ہیں،جو یہ نہیں چاہیتے کہ عوام ازل سے ابد تک صدمات سے دوچار ہیں شیطان اور حکمران میں مکالمہ شیطان: بادشاہ کیا تمہارے اندر کچھ خوف خدا ہے؟ مرادل تو پارہ پارہ ہوگیا ہے میں ااور میں کون ؟ابلیس اب یہ چاہتا ہوں کہ میں لوگوں میں اپنا ہاتھ ڈالوں مرے ظالم! لوگ تمہارے مخالف ہوچکے ہیں تم ان کے پیمبر کے روبرو اپنے گھٹنے ٹیک دو اور رب کی طرف مراجعت کرو لوگوں نے جو راہ اختیار کر لی ہے میں اس پر حد سے زیادہ پریشان ہوں حکمران: میرے حامی، مجھے تم نے ہی تو پڑھایا ہے کہ توہیں سے، تزلیل سے، تباہی سے لوگوں کو اپنے حق سے دست بردار ہونے پر کس طرح راضی کیا جاتا ہے اور میں تو اس کا الزام بھی ان ہی کے سر تھوپوں گا اور اب وقت آگیا ہے، میرے چھوٹے بھائی ابلیس! جب تم ان کے لیے ثالث بالخیر کا کردار ادا کروگے لگتا ہے کہ ان کے آباء سے اور ان کے ضمیر کی اسدا سے تمہاری پہچان کپکپا کر رہ گئی ہے شیطان:ہاں امیر المعظم۱ تمہارے عوام سے مجھ پر لرزہ ساطاری ہوگیا ہے تم ان کی چیخوں کو مت سنو تم ان کے ہجوم کو دیکھتے ہی کیوں ہو تم ان کے معاملات پر نظرمت ڈالو البتہ ان شکایات کو سنو اور اپنے اقدامات کی منصوبہ بندی کے لئے کیسی کیسی کا وشیں کر تے ہیں جن لوگوں کو تم نے خریدا ہوا ہے اپنے ان لوگوں کی چیخیں سنو حکمران: میرا معدہ ابھی تک ان کے لہو سے پوری طرح بھر نہیں پایا ہے میرے چھوٹے بھائی ابلیس! میں نے تو ابھی ان کے خاندانوں اور ان کی بیویوں کو قومی ملکیت مین لینا ہے میں نے ابھی یہ حکم دینا ہے کہ سب غیر مہذب لوگ مشینیں بن جائین میں نے اب گلی کے ہر فانوس کو چھوڑ دینا ہے وہ ہر راہ گیر سے عاجز انہ استد عاکرے گا !!میرے پاس پانی ہے، آؤ خریدو میرے پاس اذیت ناک تشدد ہے اس دھرتی کے ہر شہری کے لیے میں جونی کے شگوفوں کو زندانوں میں پھینک دوں گا اور توہین و تذلیل کے ہزاروں دروازوں کو کھول دوں گا اور لوگوں کو اس امر پر مجبور کر دوں گا کہ وہ چیخیں اور چلائیں اپنے نوحے پڑھیں اور مثیے کہیں ابلیس بھائی! ابھی تو بہت سے نوجواں اٹھے ہی نہیں ہیں ان میں سے ہر ایک نوجواں اپنے سینے پر ڈگری سجائے کوئی پیشہ نہیں نہ کوئی روزگار میں نے تو اب تک اس دھر تی کے سارے لوگوں کو ریڈانڈین نہیں بنا یا ہے (وہ اپنے ہاتھ میں اپنا پرچم تھام لیتا ہے اور پنے نام کے نعرے لگا تا ہے زندہ باد،زندہ باد) میں نے اب تک ان لوگوں کاخون نہیں چوسا ایک اپارٹمنٹ سے دوسرے اپار ٹمنٹ تک اب تک ان پر کرایوں کے اور لیزوں کے کوڑے نہیں پر سائے اب تک ان غیر مہزب لوگوں کے پاس گھر بھی ہیں زمینیں بھی مگر اب تک ان کی تعداع ۱۲۰ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی شخص ان کی چیخوں کو سن سکتا ہے شیطان : سنو اگر ۱۲۰ اور ان کی صدائے باز گشت سنائی نہیں دیتی تو حاجی! دنیا کیا کہہ سکتی ہے دیکھو راجہ، میرے بہادر شاگرد!! تمہاری دھوکے بازی تمہارے استاد کی دھوکے بازی سے سبقت لے گئی ہے تمہارے لوگوں کی بغاوت اور سر کشی نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے شیعہ سنی تو بھائی بھائی ہیں ان مین کو توتفریق نہیں ہے مگر تمہارا دل پتھر کا ہوچکا ہے کیا تم اپنے حامیوں کے ظالموں اور جابروں کے مشوروں پر کان دھروگے اپنی حکمرانی کا پڑاؤ،اب اٹھالو تاکہ وہ مطمئن ہوجائیں کیونکہ میرے پیارے جس سطح پر تمہارے لوگ پہنچے ہیں تم اس سطح پر نہیں پہنچ سکے ہو میری بات سنو!! میری بات سنو!! تم،ارے بزرگ ! \”اچھے شخص \”جو\”انصاف کا محافظ ہے \” (تم نے ہمیشہ یہی اعلان کیا) اگر میں تم پر کوئی الزام لگاؤں تم نے جو کچھ کیا اگر میں اس کا تذکرہ کروں تو محض بے وقوف دکھائی دوں گی تم جو کچھ کر ہے ہو، وہی کر تے ہوگے ہمیں غداروں کی طرح قتل کر تے ہوگے میری بات سنوں!! ہم سب کی بات سنو!! ہم ایک جیسے مطالبات کر ہے ہیں دونوں فرقے سارے بحرینی تم لازماجاؤ اپنے عالی مرتبت کو ساتھ لے جاؤ اپنے پیچھے اپنے سارے شعوری اعمال چھوڑ جاؤ ارے تم ظالم و جابر جہاں سے تم اپنی طاقت کشید کر تے ہو اور طاقت بھی وہ جس سے تم اپنے ہی لوگوں کو سرنگوں کرتے ہو تمہارے سارے لوگ حتٰی کہ عورتیں حتیٰ کہ بچے یہاں تک کہ مرد سب ایک ہی بات کہہ رہے ہیں اور وہ یہ کہ تم جاؤ. تم اب بھی مذاکرات کی دعوت دیتے ہو ظلم و ستم سفاکی اور بر بریت کے درمیاں مذاکرات کے کیا معنی نہیں نہیں ایک ہی لفظ \”نہیں\” ایک ہی مطالبہ ہمیں ہمارا بحرین واپس کر و، یہ ملک اس کے لوگوں کو واپس کر و ہمیں واپس کر و ہم اس دھرتی کے باسی ہیں بحرین ہمارا ہے اور ہمارا ہی ہے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button