مشرق وسطی

شام ميں مغربي سازشوں کي ناکامي

sham amricaبشاراسد کا آہني عزم و استقامت نہ صرف ملک کو درپيش چيلنجوں سے نمٹنے ميں ان کي کارکردگي ميں پوري طرح ديکھا جاسکتا ہے بلکہ مختلف ذرائع ابلاغ سے ان کے انٹرويو ميں بھي اس چيز کا بخوبي اندازہ لگايا جاسکتا ہے –
بشاراسد کے مختلف انٹرويو ميں يہ بات صاف جھلکتي ہے کہ وہ ملک کو بحران سے نکالنے اور ملک کا نظم ونسق چلانے کےلئے بلند عزم وحوصلے کےمالک ہيں اور وہ ملک سے دہشت گردوں کا صفايا کرنے کا پورا تہيہ کئے ہوئے ہيں- اسي کے ساتھ مخالفين کے ساتھ مذاکرات کي ان کي دعوت ميں بھي ان کے عزم محکم کو اچھي طرح ديکھا جاسکتا ہے-
ماہرين کا کہنا ہے شام کے صدر بشار اسد اور ان کے رفقائے کار کے اس جذبے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے بحران کو جمہوري طريقے سے حل کرنے ميں وہ ہر ممکن کوشش کرنے کو تيار ہيں –
فرانس پرس نے اپني رپورٹ ميں کہا ہے کہ بشار اسد کے ساتھ بات چيت کے بعد جو احساس پيدا ہوتا ہے وہ يہ ہے کہ وہ ايک پراعتماد اور مضبوط اعصاب و ارادے کے مالک شخص ہيں جو ملک کا نظم و نسق چلانے اور بحران کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کي پوري توانائي رکھتے ہيں –
شام کے سياسي ميدان ميں بشار اسد کي زير قيادت اس ملک کے سياسي نظام کے استحکام پر مغربي ذرائع ابلاغ کا اعتراف اس حقيقت کو روشن کرديتا ہے کہ اب مغربي ملکوں کي سازشيں دم توڑ رہي ہيں جنھوں نے گذشتہ دوبرس سے شام ميں کسي بھي طرح کي فتنہ انگيزي اور سازش سے دريغ نہيں کيا ہے –
شام کے بحران کو امريکا ، فرانس، برطانيہ، ترکي اور علاقے کے بعض عرب ملکوں کي مداخلتوں، ريشہ دوانيوں اور سازشوں کا نتيجہ قرار ديا جاسکتا ہے جو اس ملک ميں بدامني پھيلا کر اپنے تسلط پسندانہ مفادات حاصل کرنے ميں لگے ہوئے ہيں –
ان ملکوں نےشام کے اندر دہشت گردوں کو بھيج کر اور ان کي ہر طرح کي اسلحہ جاتي مالي اور تربيتي مدد کرکے شام ميں جس قدر بھي ہوسکتا تھا بدامني اور دہشت گردي پھيلانے کي کوشش کي – شام ميں عام انسانوں کا اس قدر خون بہايا گيا کہ حتي بعض يورپي ممالک بھي خاموش نہ رہ سکے
يورپي يونين کے شعبہ خارجہ پاليسي کي سربراہ کيتھرين اشٹون نے شام ميں سرگرم مسلح گروہوں کو اسلحے کي سپلائي کي مخالفت کي انہوں نے سنيچر کو اپنے ايک بيان ميں کہا کہ فرانس اور برطانيہ شام ميں ہتھياروں کي سپلائي کي پابندي کو اٹھانے پر جو اصرار کررہے ہيں اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہيں –
واضح رہے کہ فرانس کے وزير خارجہنے کہا ہے کہ لندن اور پيرس نے اس بات پر اتفاق کيا ہے کہ شام ميں سرگرم مسلح گروہوں کو ہتھياروں سے ليس کيا جائے گا اور اس کے لئے وہ يورپي يونين سے ہٹ کر اقدام کريں گے –
ليکن شام کے حالات سے جو بات تصوير سامنے آرہي ہے اس کے پيش نظر يہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربي ملکوں کي سازشيں شام کے عوام کے عزم و ارادے کو متزلزل نہيں کرسکي ہيں –

بلکہ شام کے حکام بحران پر قابوپانے کے لئے پہلے سے بھي زيادہ پرعزم دکھائي دے رہے ہيں اور يہ وہ حقيقت ہے جس پر شام کے سياسي اور غير سياسي ادارے اور گروہ بھي زور دے رہے ہيں-

متعلقہ مضامین

Back to top button