مشرق وسطی

حضرت عمار یاسر کے مزار کو بم دہماکے سے شہید کردیا

talibanشام میں مسلح دہشت گردوں نے رسول اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) کے ایک صحابی حضرت عمار یاسر کے مزار کو بم سے اڑادیا ہے ۔
صحابی رسول کے مزار کی مسماری ان دہشت گردوں کا پہلا گھناونا اقدام نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ان دہشت گردوں نے اسلامی مقدسات اور تاریخ اسلام کی اہم شخصیات کے مزارات کو نشانہ بنایا ہے یہ وہی گروہ ہے جس نے رسول اکرم کی نواسی اور سیدالشہداء امام حسین کی ہمشیرہ گرامی حضرت زينب (ع) کے مزار کو بھی مارٹر گولوں سے تباہ کرنے کی بارہا کوشش کی ہے دوسری طرف شام کے بعض علاقوں سے تشدد ذدہ لاشیں ملی ہیں تازہ ترین رپورٹ کے مطابق شام کے شہر حلب کے ضلع القصر کی ایک ندی سے درجنوں لاشیں ملی ہیں جنکے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے اور انکے جسم پر سخت تشدد کے نشانات تھے ۔ شام میں سرگرم عمل دہشت گردوں کے ان اقدامات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دہشت گردوں کا دین و مسلک کیا ہے اور وہ کونسی طاقتوں کے کہنے پر شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔
آئیے سنتے ہیں صحابی رسول حضرت عمار بن یاسر کے مزار پر ہونے والے دھماکے اور شام کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں پاکستان کے معروف تجزیہ کار عمر ریاض عباسی کیا اظہار خیال کررہے ہیں۔
سامعین جیسا کہ عمر ریاض عباسی نے اپنی گفتگو میں اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اندر انتہاپسندی کی بنیاد رکھنے میں سعودی عرب کا بنیادی ہاتھ ہے البتہ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ سعودی عرب کے ہر اقدام کے پیچھے امریکی اور برطانوی استعمار کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ سعودی عرب اور اسکے اتحادی بعض عرب ملک سلفیت اور تکفیری گروہوں کے ذریعے شام سمیت کئی ملکوں میں امریکی ایجنڈے کو آگئے بڑھا رہے ہیں ۔ شام میں اسلامی مقدسات کی مسماری اور عام شہریوں کا قتل عام اس حقیقت کو مزید واضح کردیتا ہے کہ شام میں بشار اسد کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل محاذ کا ہدف صرف بشار اسد کی حکومت نہیں بلکہ وہ اس کو بہانہ بناکر خطے میں جاری اسلامی بیداری کو بھی سنی شیعہ اختلاف کے ذریعے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔
دوسال پہلے جب سے شام میں بدامنی شروع ہوئي تھی اس وقت سےہی انتہاپسند اورتشدد پسند دھڑے دنیاکےکونےکونےسے شام پہنچنا شروع ہو گئے تھے تاکہ اس ملک کےسیاسی نظام سے بشاراسد کوبےدخل کردیں۔
معتبرثبوت وشواہد سےپتہ چلتا ہےکہ سعودی عرب، افغانستان، مصر، لیبیا اور تیونس جیسےممالک کےانتہاپسند شام پہنچنے تاکہ صیہونیت مخالف بشاراسدحکومت کوختم کرکےاس ملک میں مذہبی جنگ چھیڑسکیں۔ اس بیچ یورپ میں بعض انتہاپسندمسلمان نوجوان بھی وہابیوں اورسلفیوں کےانتہاپسندانہ افکار سےمتاثرہوکرشام پہنچ گئے تاکہ صیہونی حکومت کےخلاف استقامتی محاذ میں دراڑ ڈال سکیں۔
مغربی اوراسلامی ممالک میں انحرافی افکارکی ترویج سےقطع نظر، مغربی ممالک شام میں دہشتگردی میں فروغ میں نمایاں کردارکےحامل ہیں۔ اس وقت امریکہ اوریورپ کاصرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح شام کی حکومت کاتختہ الٹ دیاجائے اوراسی بنا پروہ اس وقت اس ملک میں انتہاپسندترین گروہ کی سرگرمیوں کوبھی نظراندازکررہے ہیں۔چنانچہ وہی طالبان اورالقاعدہ جو افغانستان، پاکستان، یمن اورشمالی افریقہ میں امریکی سیکورٹی اہلکاروں کومطلوب ہيں ، پوری آزادی سے شام میں امریکی اسلحے کے ساتھ لڑرہےہیں اور مغربی ممالک کی مالی اور تسلیحاتی مدد سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
القاعدہ کاوجود اس حقیقت کاثبوت ہے کہ یہ گروہ امریکہ کےجاسوسی کےادارے سی آئی اے کےفنڈ اوراسلحےسےوجود میں آیااوراسامہ بن لادن کوسی آئی اے ہی نے ٹریننگ دی اس وقت لیبیا اورافغانستان میں دہشتگردوں کوپروان چڑھانے کاسیناریوشام میں بھی دہرایاجارہا ہے مغرب اورسلفیوں کےدرمیان شام کےعوام اورحکومت سےدشمنی کےسلسلےمیں اتفاق نظرپایاجاتا ہے اور نام نہاد آزاد فوج میں فعال دہشتگرد اسلامی تمدن سے ایسا کینہ اورنفرت رکھتےہیں کہ انہوں نے انہدام جنت البقیع کے مذموم اقدام کو سعودی عرب کے بعداب شام میں بھی دہرانے کا تہیہ کرلیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button