مشرق وسطی

آیت اللہ قاسم کوآل خلیفہ کی دھمکیاں اوربحرینیوں کی شہریت کی منسوخی؛ اہل بیت (ع) اسمبلی کامذمتی بیان

asimblyکیا آل خلیفہ خاندان ـ جو خود کہیں اور سے بحرین میں آیا ہے اور اس ملک کے عوام پر مسلط ہوا ہے ـ بحرین کے فرزندوں کو ان کی آبائی سرزمین سے محروم کرسکتا ہے؟
رپورٹ کے مطابق آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو خلیفی دھمکیوں اور بحرینی شہریوں کی شہریت منسوخ کئےجانے پر عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی نے ای مذمتی بیان جاری کیا ہے۔
بحرینی عوام پر آل خلیفہ کے مظالم جاری ہیں اور آل خلیفہ نے حال ہی میں 31 بحرینی راہنماؤں کی شہریت کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو دھمکیاں دی ہیں اور عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی نے ان مسائل پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔
عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی نے تقریبا دو سال کے عرصے سے بحرینی عوام کے قتل، تشدد اور وسیع گرفتاریوں کے بعد آل خلیفہ کے ان دو غیر قانونی اور غیر شرعی اقدامات پر تأَسف و تعجب کا اظہار کیا ہے۔
اس بیان کے ایک حصے میں کہا گیا ہے: "بحرین میں انقلاب کرامت کے آغاز سے ہی بحرین کے علمائے کرام نے مسلسل مشفقانہ اور عوام اور اعتدال پسندانہ کردار ادا کرتے ہوئے عوام کو تشدد کی کسی بھی اقدام سے روکے رکھا ہے اور اپنے جائز مطالبات پرامن انداز میں پیش کرتے ہوئے نوجوانوں کو مسلسل پرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھنے کی تلقین کی ہے۔ درین اثناء عوامی انقلاب کے پرامن رہنے میں آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی قیادت کا کردار ناقابل انکار ہے؛ تا ہم آل خلیفہ نے کی حکومت آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی قدردانی اور عوامی مطالبات کو توجہ دینے کے بجائے عوام حتی کہ علماء کے ساتھ دھونس دھمکی کی زيان میں بات کرنے کو ترجیح دی ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے: آیت اللہ شیخ عیسی قاسم بزرگوار مرجع، روحانی شخصیت اور الہی اخلاقیات کی صفت سے متصف ہیں چنانچہ اگر آل خلیفہ نے اس بزرگ عالم دین کی شان میں کوئی بے ادبی اور گستاخی کی تو اس کے انجام کی تمام تر ذمہ داری بادشاہ "حمد بن عیسی آل خلیفہ اور وزير اعظم خلیفہ بن سلمان آل خلیفہ، بحرینی حکومت نیز آل سعود پر عائد ہوگی۔
نیز عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی نے آل خلیفہ کے ہاتھوں بحرینی شہریوں کی شہریت کی منسوخی کو ایک عجیب اور شرع و عرف کے خلاف اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے: کسی بھی ملک کے حکام اس ملک کے عوام کے مالک نہیں ہیں کہ ان کی شہریت چھین سکیں اور انہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں؛ لہذا یہ اقدام ـ وہ بھی ایسے حال میں کہ آل خلیفہ کی حکومت سینکڑوں اجنبیوں کو بحرینی شہریت دے رہی ہے ـ ملت بحرین کے ساتھ اعلانیہ دشمنی اور ان کے شہری حقوق کو نظرانداز کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
اس بیان کے آخر میں دنیا کے تمام حریت پسندوں اور مسلمانوں ـ بالخصوص شیعہ علماء اور شخصیات ـ درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں موقف اختیار کریں، مجالس و محافل منعقد کریں اور بحرینی عوام کے فطری شہری حقوق کا تحفظ کریں۔
بیان کا متن درج ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ

اور اللہ کو ان کاموں سے ہرگز بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم انجام دے رہے ہیں۔

آل خلیفہ کے جلادوں اور ظالموں کے ہاتھوں بحرین کے مظلم اور نہتے عوام کا قتل عام، ٹارچر، تخریب و انہدام اور قید و بند کے آغاز سے اب تک تقریبا دوسال کا عرصہ گذر رہا ہے؛ وہ شرمناک جرائم جو آل سعود کی حمایت اور عالمی حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کی مجرمانہ اور ہلاکت خیز خاموشی اور بحرینی عوام کی قابل تعریف اور بے مثل استقامت، کے ساتھ ہمراہ ہوئے ہیں۔
لیکن نہایت تأسف و تعجب کے ساتھ، حالیہ ایام میں ہم نے دیکھا کہ بحرین کی حکومت نے اپنے شرمناک جرائم کو جاری رکھا اور ساتھ ساتھ دو مزيد غیر قانونی اور غیر شرعی اقدامات انجام دیئے ہیں:
اول) بحرینی علماء، دانشوروں، مفکرین، ڈاکٹروں اور اساتذہ بالخصوص آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے خلاف دھونس دھمکیاں؛
دوئم) بحرین کے بہت سے حریت پسند شہریوں کی شہریت کی منسوخی جو کسی بھی بین الاقوامی اور قانونی معیار سے کی روشنی میں قابل توجیہ اور جواز پذیر نہیں ہے۔
ان دو خطرناک اقدامات کے رد عمل کے طور پر عالمی اہل بیت (ص) اسمبلی ـ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کی فکری، علمی اور ثقافتی مرجعیت کی حامل بین الاقوامی ادارے کی حیثیت سے ـ مسلمانوں کی توجہ ذیل کے نکات کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہے:
1۔ جیسا کہ کئی بار اعلان ہوا ہے، بحرین کے دین علماء انقلاب کرامت کے آغاز (14 فوریه 2011) سے اب تک، مسلسل مشفقانہ اور تسکین آور کردار ادا کرتے رہے ہیں اور لوگوں کے جائز مطالبات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو اپنے مطالبات پرامن انداز میں آگے بڑھانے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ اس اثناء میں آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی قیادت کا اثر انقلاب کو تشدد سے دور رکھنے میں، ناقابل انکار ہے تا ہم آل خلیفہ نے کی حکومت نے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی قدردانی اور عوامی مطالبات کو توجہ دینے کے بجائے عوام حتی کہ علماء کے ساتھ دھونس دھمکی کی زيان میں بات کرنے کو ترجیح دی ہے۔
2۔ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم، عالی قدر مرجع اور روحانی و معنوی شخصیت اور الہی اخلاقیات کے مالک ہیں جو نہ صرف بحرین میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے نزدیک مقبول اور قابل احترام ہیں بلکہ اس ملک کی سرحدوں سے باہر بھی مسلمانوں کے لئے قابل احترام اور معتبر و قابل تکریم ہیں اور اسلام کے اہم علماء و مفکرین میں سے ایک ہیں؛ چنانچہ بحرین اور سعودی حکومتوں کو سنجیدگی اور شدت سے انتباہ کرتے ہیں کہ اس بزرگ عالم کی شان میں ہر قسم کی بے ادبی اور گستاخی کی صورت میں اس کے تمام تر نتائج اور انجام کی ذمہ داری بلاواسطہ طور پر بحرین کے بادشاہ اور وزير اعظم اور حکومت نیز سعودی حکومت پر عائد ہوگی۔
3۔ آل خلیفہ کے ہاتھوں بحرینی شہریوں کی شہریت کی منسوخی ایک نہایت عجیب اور خلاف شرع و عرف اقدام ہے۔ کسی بھی ملک کے حکمران اس ملک کے عوام کے مالک نہیں ہیں کہ وہ ان کی شہریت چھین سکیں اور انہیں ان کے وطن سے نکال باہر کریں۔ لہذا یہ اقدام ـ وہ بھی ایسے حال میں کہ آل خلیفہ سینکڑوں اجنبیوں اور غیر ملکیوں کو شہریت دے رہی ہے ـ ملت بحرین کے ساتھ اعلانیہ دشمنی اور ان کے شہری حقوق کو  نظر انداز کرنے سے عبارت ہے۔
4۔ عرفی اور بین الاقوامی قوانین کے علاوہ، ہر ملک کی حکومت اور حاکمیت، ایک کنبے کے باپ کی طرح ہوتی ہے۔ کیا ایک خاندان کا باپ اپنی اولاد کو گھر سے بے دخل کرتا ہے؟ کیا آل خلیفہ خاندان ـ جو خود کہیں اور سے آیا ہے اور زور زبردستی عوام کے مقدرات پر مسلط ہوا ہے ـ بحرینی عوام کو ان کے آباء و اجداد کی سرزمین سے محروم کرسکتا ہے؟
5۔ آزادی اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور بین الاقوامی اداروں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، تحفظ اسیران تنظیموں اور اس طرح کی تمام تنظیموں اور اداروں نے بحرین کے حکمرانوں کے مظالم، قانون شکنیوں، قرون وسطائی استبدادی طرز سلوک کے سامنے خاموشی کیوں اختیار کی ہے؟ کیا اب دنیا والوں کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ تمام ممکنہ شیووں کو بروئے کار لاکر حکومت بحرین کو بے عقلانہ اقدامات جاری رکھنے سے باز رکھیں اور بحرین کی مظلوم ملت کا دوش بدوش کھڑے ہوجائیں؟
6۔ عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی ـ جیسا کہ بارہا اعلان کرچکی ہے ـ امن و صلح، دوست، عدل و انصاف اور دنیا کے انسانوں ـ خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل اور دین و مذہب سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں ـ کی پرامن بقائے باہمی کے حامی ہیں ـ ایک بار پھر بحرین پر حکومت کرنے والے خاندان کو عدل و انصاف اور عوام کے جائز مطالبات پر عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
نیز یہ اسمبلی آیت اللہ شیخ عیسی قاسم، اسیر علماء، ڈاکٹروں، اساتذہ اور مظلوم بحرینی عوام ـ بالخصوص بے روزگار ہونے والے مزدوروں اور شہریت کھونے والے بحرینیوں کی ہمہ جہت حمایت کا اعلان کرتی ہے۔
عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی آخر میں دنیا کے تمام حریت پسندوں اور مسلمانوں ـ بالخصوص علماء اور شیعہ شخصیات ـ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ موقف اپناکر اور مراسمات و مجالس اجتماعات وغیرہ بپا کرکے، بحرینی عوام کے قدرتی حقوق کی حمایت کے ضمن میں، بحرینی علماء کی شان میں توہین و  بندشوں سے نفرت کا اظہار و اعلان کریں اور اس ملک میں خلاف شرع اقدامات سے نفرت و بیزاری کا اعلان کرنے کے حوالے سے اپنے تاریخی فرائض پر عمل کریں۔

عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی
23 آبان 1391
13/ نومبر 2012

قبل ازیں بحرین کے دارالحکومت منامہ میں پانچ مشکوک دھماکوں میں دو بحرینی شہریت یافتہ ایشیائی باشندوں کی ہلاکت کے بعد آل خلیفہ حکومت نے دو سابق اراکین پارلیمان سمیت 31 بحرینیوں کی شہریت کی منسوخی کا اعلان کیا تھا۔
قبل ازیں بحرین کے دارالحکومت منامہ میں پانچ مشکوک دھماکوں میں دو بحرینی شہریت یافتہ ایشیائی باشندوں کی ہلاکت کے بعد آل خلیفہ حکومت نے دو سابق اراکین پارلیمان سمیت 31 بحرینیوں کی شہریت کی منسوخی کا اعلان کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق شہریت سے محروم کئے جانے والے بحرینی شہریوں میں دو سابق اراکین پارلیمان "جواد فیروز” اور "جلال فیروز” اور متعدد شیعہ علماء شامل ہیں۔
خلیفی وزارت داخلہ نے کہا کہ اس سرکاری حکم پر عملدرآمد کرانے کے لئے ضروری اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔
بحرینی شہریت سے غیر قانونی طور پر محروم کئے جانے والے شہریوں کے نام:
1۔ سعيد عبدالنبي محمد الشهابي
2۔ إبراهيم غلوم حسين كريمي
3۔ جعفر أحمد جاسم الحسابي
4۔ علي حسن علي حسن مشيمع
5۔ عبد الرؤوف عبدالله أحمد الشايب
6۔ موسى عبدعلي علي محمد
7۔ عباس عبدالعزيز ناصر عمران
8۔ محمد محمود جعفر الخراز
9۔ قاسم بدر محمد هاشم
10۔ حسن أمير أكبر صادق
11۔ سيدمحمد علي عبدالرضا الموسوي
12۔ عبدالهادي عبدالرسول أحمد خلف
13۔ علوي سعيد سيدعلي شرف
14۔ حسين عبدالشهيد عباس حبيل
15۔ حسين ميرزا عبدالباقي (الشيخ حسين النجاتي)
16۔ خالد حميد منصور سند (الشيخ محمد سند)
17۔ كمال أحمد علي كمال
18۔ غلام خير الله محمد محمدي
19۔ محمد إبراهيم حسين علي فتحي
20۔ سيد عبدالنبي عبدالرضا إبراهيم الموسوي
21۔ تيمور عبدالله جمعة كريمي
22۔ محمد رضا مرتضى علي عابد
23۔ حبيب درويش موسى غلوم
24۔ إبراهيم غلوم عبدالوهاب عباس
25۔ مريم السيد إبراهيم حسين رضا
26۔ عبدالأمير عبدالرضا إبراهيم الموسوي
27۔ إبراهيم خليل درويش غلوم
28۔ إسماعيل خليل درويش غلوم
29۔ عدنان أحمد علي كمال
30۔ جواد فيروز غلوم فيروز
31۔ جلال فيروز غلوم فيروز
چند روز قبل منامہ میں مشکوک دھماکوں میں دو ایشیائی شہریت یافتہ افراد ہلاک ہوئے تو آل خلیفہ نے بحرینی شہریوں پر ان دھماکوں کا الزام لگا کر ان افراد کی فہرست جاری کی جن کو خلیفی حکام کے بقول ملک میں بدامنی پھیلانے کے الزام میں ان کے بنیادی حق (شہریت) سے محروم کردیا جس سے معلوم ہوا کہ دھماکے آل خلیفہ اور قابض آل سعود کی مشترکہ سازش کا حصہ ہیں۔
بحرینی راہنماؤں نے ان دھماکوں کی شدید مذمت کرکے ان کی ذمہ داری حکومت اور قابض آل سعود پر عائد کردی۔
مبصرین کے مطابق یہ دھماکے العکر کے علاقے کے شدید غذائی محاصرے کے بعد میں کئے گئے تا کہ بحرین کے مظلوم عوام کے لئے ماحول کو مزید ناقابل برداشت کیا جاسکے۔
در انفجارهای مشکوک پایتخت بحرین، 2 تبعه آسیایی کشته شدند و یک تن دیگر مجروح شد. به عقیده ناظران بحرینی، این انفجارها پس از ماجرای کشته شدن یک پلیس در "العکر” و محاصره شدید ساکنان این منطقه، بهانه ای دیگر برای تشدید فضای امنیتی در بحرین و سرکوب مردم معترض است.
مرکز حقوق بشر بحرین هم تصمیم آل خلیفه برای لغو تابعیت را محکوم و اعلام کرد که دولت در حال تنبیه این فعالان "به خاطر ابراز مخالفت به شکل مسالمت‌آمیز” است.
………………….
/110

متعلقہ لنک:

بحرینی شہریوں کی شہریت کی منسوخی انسانی اقدار کی پامالی

متعلقہ مضامین

Back to top button