مشرق وسطی

شام کے خلاف سازش، ترکی براہ راست میدان میں کود پڑا

turkey siryaشام کے سرکاری حکام نے ترکی کے بارڈر پر شام کی طرف سے ہونے والے مارٹر گولوں کے حملے کی مکمل تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔
شامی حکام کے بقول بارڈر ایریا میں موجود مسلح دہشتگرد عناصر اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے اس طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ شام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ترکی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور اسے گولہ باری کے نتیجے میں ترکی کے پانچ شہریوں کے جاں بحق ہونے پر افسوس ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق شام نے اپنی سرزمین سے ترکی پر ہونیوالی مشکوک گولہ باری اور مارٹر گولے فائر کرنے کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہے۔ شام کی حکومت نے اس واقعہ میں مرنے والوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے بردباری سے کام لے۔ ادھر شام کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کے باوجود کہ وہ ترکی کی سرزمین پر ہونیوالے راکٹ حملوں کی تحقیقات کر رہا ہے، ترکی کی فوج نے شام کے کئی علاقوں پر گولہ باری کی ہے۔ مارچ دوہزارگیارہ سے سعودی عرب ، ترکی اور قطر سمیت مغربی ممالک کی مدد سے مسلح دہشت گردوں نے شام کے بعض شہروں میں بدامنی پیداکررکھی ہے تاکہ شام میں فوجی مداخلت کی زمین ہموارکرسکیں۔ شام کےشمال مغربی علاقے میں ہونے والے حالیہ بم دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کرچوالیس ہوگئي ہے۔ شامی حکام نےاعلان کیا ہے کہ بدھ کے روز شہر کے سعداللہ الجابری اسکوائر پر ہونے والے ایک کار بم دھماکے ميں اب تک چوالیس افراد کے مارے جانےکی تصدیق ہوچکی ہے جب کہ اس واقعے میں نوے افراد زخمی ہوئے ہيں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شام میں دہشت گردی کے واقعات کو دہشت گرد گروہوں کی کمزوری و لاچاری کی علامت قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس قسم کے اقدامات اپنے وطن کے دفاع کے لیے ملت شام کے عزم و ارادے کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ دہشت گرد گروہوں کو ہتھیار اور مالی مدد فراہم کرنے والے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ دریں اثنا حلب کے گورنر وحید عقاد نے کہا ہے کہ حلب پر فوج کا کنٹرول ہے ۔ وحید عقاد نے کا کہنا تھا کہ شہر کے چند مقامات پر کچھ دہشت گرد موجود ہیں تاہم باقی علاقوں میں حالات معمول پر ہیں۔ شام کے مسئلے میں ترکی کا کردار سب سے عجیب اور حیران کن ہے۔ تاہم اس کردار کو سمجھنے کے لیے چند حقائق پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔ ترکی امریکا اور مغربی یورپ کے ساتھ فوجی اتحاد نیٹو کا رکن ہے۔ اس لحاظ سے وہ نیٹو کے فیصلوں کا پابند ہے۔ اسی لیے اس نے افغانستان میں موجود نیٹو فورسز میں اپنا حصہ ڈال رکھا ہے۔ جدید ترکی کا قدیمی ارمان ہے کہ وہ یورپی یونین میں شامل ہو جائے۔ یورپی یونین نے حیلوں بہانوں سے ابھی تک ترکی کو رکنیت نہیں دی۔ غزہ میں اسرائیل کے مظالم کے بعد ترکی نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں جس طرح سے آواز بلند کی تھی، اس سے ان امیدوں میں اضافہ ہو گیا تھا کہ ترکی عالم اسلام کے تعلق سے بہتر کردار ادا کرے گا، لیکن شام کے مسئلے میں دونوں ملکوں کے الگ الگ بلکہ باہم متقابل راستوں کی وجہ سے عالم اسلام میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس تشویش میں اس وقت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے جب امریکی وزیر خارجہ ترکی میں جا کر شام کے خلاف ترک امریکا مشترکہ موقف کا اظہار کرتی ہیں یا پھر ترکی شام کے بارڈر پر تعینات کرنے کے لیے نیٹو کی افواج سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔ امریکا اور نیٹو سے مدد طلب کرنے کے بعد اور ان سے ہم آہنگی کے بعد ترکی واضح طور پر ایک ایسے کیمپ کا حصہ بن جاتا ہے، جسے بہر حال عالم اسلام اپنا دوست نہیں سمجھتا۔ مبصرین کے بقول ترکی کے سیاست دان اور خاص طور پر موجودہ حکومت کے ذمہ داران عالمی سطح پر بہت اہمیت رکھتے ہیں اور انھیں عالمی مدبرین کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر ترکی نے پھر سے نیٹو کو اپنے امور میں دخیل ہونے کا موقع فراہم کر دیا تو یہ امر عقل و دانش کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ لہذا ہرگز مناسب نہیں کہ شام کے ساتھ مخاصمت میں ترکی اتنا آگے جائے کہ پھر خود ترکی نیٹو کے رحم و کرم پر آجائے۔ ترکی کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ شام اور ترکی کو بہرحال ساتھ ساتھ جینا ہے، جبکہ نیٹو کو اپنے مفادات کے حصول کے بعد رفوچکر ہو جانا ہے، جیسا کہ اس نے افغانستان میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیٹو نے اپنے فوجی اخراجات کو کم کرنے کے لئے شام کے مقابلے پر ترکی کو لا کھڑا کیا اور امریکہ نے اپنے جانی نقصان کو کم کرنے کے لئے القاعدہ کے دہشتگردوں کو شام میں لاکر جمع کردیا ہے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق ایران مخالف دہشت گرد تنظیم ایم کے او کو بھی شام کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مبصرین کے بقول شام کے خلاف اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے بعد امریکہ ترکی کو پاکستان جیسی صورتحال سے دوچار کردے گا۔ یعنی شام کے خلاف بر سر پیکار نام نہاد جہادی کہ جن کے کیمپ اس وقت ترکی میں موجود ہیں سارے ترکی میں پھیل جائیں گے اور امریکہ ان کی مدد سے وہی کھیل ترکی میں کھیلے گا جو اس وقت وہ پاکستان میں کھیل رہا ہے۔ یعنی پاکستان امریکہ کا حلیف ہوتے ہوئے بھی امریکی ڈرونز کا نشانہ بن رہا ہے۔ ملک و قوم کی محافظ پاکستانی فوج جو ایک طاقتور فوج کہلاتی تھی، بغیر پائلٹ کے ان طیاروں کا مقابلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور عوام کے ساتھ ساتھ فوج بھی انہی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنی نظر آتی کہ جنہیں اسی کے عشرے میں امریکہ نے پاکستان پر جہادیوں کی شکل میں مسلط کیا تھا۔لہذا ترکی کے لئے یہ بہتر ہوگا کہ امریکہ اور نیٹو کے دھوکے میں نہ آئے اور اپنے عوام کے مستقبل کو پاکستان کی طرح داؤ پر نہ لگائے۔ قطر اور سعودی عرب کو بھی عرب امہ کی بیداری کے پیش نظر ایسے ہر اقدام سے بچنا چاہیے جو ان کی حکومتوں کے سقوط کو نزدیک کردے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button