مشرق وسطی

القاعدہ کے 6000 افراد شام میں؛ مغرب شام کو منہدم کرنا چاہتا ہے

alqaidaمشرق وسطی تحقیقات مرکز کے سربراہ نے کہا: شام کو منظم انداز میں تباہ کرنا ایک مغربی منصوبہ ہے اور مغربی ممالک نے ابھی سے ـ لیبیا کی مانند ـ ویران شدہ شام کی تعمیر نو کے منصوبے آپس میں بانٹ دیئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بیروت میں مقیم مشرق وسطی تحقیقات مرکز کے سربراہ ہشام جابر نے کہا ہے کہ مغربی ممالک نے لیبیا کی طرح شام کو بھی مکمل طور پر تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے اور ابھی اس کی تعمیرنو کے لئے مارشل پلان تیار کرکے تعمیری منصوبے آپس میں بانٹ لئے ہیں۔
انھوں نے کہا: مغرب شام کے بحران کا پرامن حل نہیں چاہتا لیکن سب کو جان لینا چاہئے کہ حتی بیرونی فوجی مداخلت کی صورت میں بھی شام کے مسئلے کا فوجی حل ممکن نہيں ہے کیونکہ اس طرح کی مداخلتیں بحران کو حل کرنے کے بجائے اس کو مزید الجھانے کا سبب بنیں گی۔
انھوں نے کہا کہ حکومت شام کے مخالفین فوجی تناؤ کے ذریعے اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتے ہیں تا کہ اگر کبھی مذاکرات ہوئے تو وہ طاقتور موقف اپنا کر زیادہ رعایتیں حاصل کرسکیں۔
انھوں نے کہا: شام کی فوج ملک کا اتحاد اور سالمیت چاہتی ہے اور مسلح ٹولے اس ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں چنانچہ مسلح ٹولوں کا فوج سے موازنہ کرنا، درست نہيں ہے کیونکہ اس وقت مغرب اور عرب ممالک نے القاعدہ کے 6000 عناصر کو شام میں فعال کردیا ہے اور اس ملک میں سترہ تکفیری ٹولے بھی سرگرم عمل ہیں جن کی مجموعی تعداد تقریبا 6000 ہے۔
جابر نے کہا: یہ تمام گروپ خاص خاص اہداف کے لئے کام کررہے ہیں اور سب کو خلیج فارس تعاون کونسل کی رکن ریاستوں اور اس علاقے کے تاجروں اور سرمایہ داروں کی حمایت حاصل ہے
انھوں نے کہا: امریکہ ایک طرف سے شام کی حکومت کو مسلح گروپوں کو استعمال کرکے، ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اسی اثناء میں وہ اپنے عوام کو یہ بات منوانے سے عاجز ہے کہ القاعدہ کو بھی شام کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکی حکومت نے القاعدہ کو امریکہ کا دشمن نمبر ایک کے عنوان سے متعارف کرایا ہے اور اب یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کہ "القاعدہ امریکہ کی دوست ہے!”۔
انھوں نے کہا: دسمبر میں امریکی صدارتی انتخابات ہورہے ہیں چنانچہ وہ سال کے آخر تک شام کے بارے میں کوئی اٹل فیصلہ کرنے سے عاجز ہے لیکن ترکی سمیت امریکہ کے علاقائی حلیف امریکہ کی طرف سے مسلح دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا: ترکی شام میں شکست کھا گیا ہے اسی وجہ سے اس نے "آگے کی جانب فرار” کی پالیسی اپنا رکھی ہے اسی وجہ سے اس نے شام کے خلاف عجلت زدگی میں موقف اپنایا لیکن بالآخر سمجھ گیا کہ وہ کوئی فوجی اقدام انجام دینے سے عاجز ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button