مشرق وسطی

بحرین میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے / ٹارچر تفریح کے لئے

bhrain tashdudسیاسی قیدیوں پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد / ٹارچر تفریح کے لئے / بحرینی عدالت نے شہریوں کے قتل کی تصدیق کردی۔
رپورٹ کے مطابق بحرین کے بحالی و انسداد تشدد مرکز نے اعلان کیا: حکمران آل خلیفہ خاندان عوام کو کچلنے اور سیاسی قیدیوں پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں اور نام نہاد عدلیہ بھی تشدد کا شکار ہونے والے شہریوں کی شکایات پر کان نہیں دھرتی۔
بحرین کے مرکز بحالی و انسداد تشدد نے عالمی یوم انسداد تشدد کی آمد پر اعلان کیا ہے کہ آل خلیفہ کے پولیس اہلکار مظاہرین کو سزا دینے اور مظاہروں کا خاتمہ کرنے کے لئے خود ہی شکایت نامے لکھتے ہیں کہ اور پھر ان ہی شکایت ناموں کی بنیاد پر بحرینی شہریوں کو گرفتار کرتے ہیں اور پھر ان پر نمائشی مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔
اس بیان میں مذکور ہے کہ سینکڑوں بحرینی شہریوں پر جبر و تشدد کی وجہ سے کئی افراد شہید ہوگئے ہیں اور کئی افراد دائمی جسمانی اور روحانی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔
بحالی و انسداد تشدد مرکز نے کہا ہے کہ بحرین کے قانونی مراکز نے آل خلیفہ کی جیلوں میں جنسی زيادتی، قیدیوں کو برہنہ کرنے، پیروں سے لٹکانے، شدید قسم مار پیٹ اور زخمی کرنے اور انہیں برقی جھٹکے دینے کی رپورٹس ثبت کی ہیں۔
دوسری طرف سے جمعیۃالوفاق الاسلامی الوطنی نے تشدد کے سلسلے میں شدت آنے کی خبر دی ہے اور کہا ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے انسداد تشدد کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کئے ہیں لیکن اس بین الاقوامی معاہدے کی کسی ایک آرٹیکل کی پابندی نہیں کرتی۔
جمعیۃالوفاق کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جیلوں کے اہلکار صرف حریت پسندی کی بنا پر قیدیوں کو بدستور بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔
جمعیۃالوفاق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں تقاضا کیا ہے کہ بحرین میں ٹارچر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکبین پر مقدمہ چلایا جا‏ئے چنانچہ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ بحرین کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے۔

ــ جمعیۃالوفاق: بحرین میں تفریح کے لئے تشدد کیا جاتا ہے
جمعیۃالوفاق الاسلامی الوطنی کے انسانی حقوق اور آزادیوں کے شعبے کے سربراہ ہادی الموسوی نے آل خلیفہ کے اذیتکدوں میں قید اور تشدد سے گذر کر باہر آنے والوں کی شکایات سے ثابت ہوا ہے کہ کئی بحرینیوں کو صرف توہین و تذلیل حتی کہ جیل حکام کی تفریح کے لئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ہادی الموسوی نے بدھ کے روز العالم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: آل خلیفہ کے سیکورٹی اقدامات میں جتنی شدت آئے گی اتنا ہی زیادہ واضح ہوجائے گا کہ بحرینی عوام آل خلیفہ کو نہیں چاہتے۔
انھوں نے کہا کہ آل خلیفہ کا خیال ہے کہ گویا عوام اس کے اقدامات سے ڈرتے ہیں اور اسی خوف کی وجہ سے اپنے مطالبات سے پسپائی اختیار کریں گے لیکن یہ اس خاندان کی خام خیالی ہے۔
بحرینی قانوندان نے مزید کہا: آل خلیفہ حکومت حقائق کے برعکس، دعوی کرتی ہے کہ بحرین میں کوئی سیاسی گرفتاری نہيں ہوئی اور ذرائع ابلاغ پر کسی قسم کا دباؤ نہيں ہے لیکن سورج ہمیشہ بادلوں کے پیچھے نہيں رہتا اور خلیفی جھوٹ کا سلسلہ بے اثر ہوگا۔
الموسوی نے کہا: آل خلیفہ کے حکمرانوں نے حال ہی میں بعض قانوندانوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو سخت نتائج کی دھمکی دی ہے اور پرامن مظاہروں میں بعض سیاستدانوں اور راہنماؤں کو زخمی کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آل خلیفہ خاندان کی حکومت حتی ملک میں نمائشی اصلاحات کا ارادہ بھی نہيں رکھتی۔
واضح رہے کہ جو انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں حتی اسرائیل میں خفیہ طور پر انجام پاتی ہیں سعودی عرب اور بحرین میں ان کا اعلانیہ ارتکاب کیا جاتا ہے کیونکہ دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے جھوٹے علمبردار ممالک اور عالمی اداروں کی طرف سے ان کو کسی قسم کے اعتراض یا بازخواست کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: خلیفی حکمران بحرینی عوام کو ٹارچر کا نشانہ بناتے ہیں تا کہ وہ پرامن احتجاج کا سلسلہ بند کریں اور بحرین میں قیدیوں پر تشدد ایسی حقیقت ہے جس کی حتی خلیفی بادشاہ کی طرف سے تشکیل شدہ "تلاش حقیقت کمیٹی یا فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی” نے بھی تصدیق کی ہے لیکن ٹارچر اور جبر و تشدد کے مرتکبین مقدمے اور سزا سے بچے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کوئی اقدام نہيں ہوا اور نہ ہی کسی اقام کی توقع ہے۔
انھوں نے کہا: جمعیۃالوفاق کو موصول ہونے والی بہت سی شکایات سے واضح ہوا ہے کہ خلیفی جیلوں میں بہت سے مواقع پے ٹارچر اور تشدد صرف اعتراف لینے کے لئے نہ تھا بلکہ توہین و تذلیل حتی کہ جیل حکام کی تفریح بھی ٹارچر کی ایک بنیادی وجہ رہی ہے اور بعض اوقات جیل اہلکاروں نے قیدیوں کو حیوانات کی صداؤں کی نقل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے کہا: آل خلیفہ کی حکومت قیدیوں پر ٹارچر کی مختلف اقسام استعمال کرتی ہے؛ مثلاً انہیں سونے نہیں دیا جاتا، انہیں نماز کی ادائیگی سے روکا جاتا ہے اور انہیں جنسی تشدد کی دھمکیاں دی جاتی ہیں؛ میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جن کو 1980 کی دہائی میں آل خلیفہ کی جیلوں میں ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا۔ اس زمانے میں ہمیں ایک ایسے کمرے میں قید کیا گیا تھا جس کے ساتھ والے کمرے سے تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کی آہ و فریاد کی آوازیں سنائی دیتی تھیں جو ہمارے لئے دوہرے تشدد کے مترادف تھیں کیونکہ ایک طرف سے ہم ان کی مدد کرنے سے عاجز تھے اور دوسری طرف سے یہ آہ و فریاد سن کر سوچتے تھے کہ ہماری باری بھی آنے والی ہے۔
ہادی الموسوی نے کہا: ال خلیفہ کی حکومت نہ صرف مردوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے بلکہ خواتین پر تشدد کرتی ہے اور اب تک 150 بحرینی خواتین پر تشدد کے ثبوت ریکارڈ ہوئے ہیں اور اب تک اٹھارہ سال سے کم عمر کے 98 افراد کو ٹارچر کیا گیا ہے جن میں سے 9 افراد ایسے بھی تھے جو ذہنی طور پر مخبوط الحواس یا معذور تھے۔
انھوں نے کہا: بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو تشدد کا نشانہ بننے کے باوجود اپنے پامال شدہ حقوق کی وضاحت کرنے سے ہچـکچاتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں کہ اگر آل خلیفہ حکومت کے اقدامات کو افشاء کریں تو ممکن ہے کہ ان کے مزید حقوق بھی پامال کئے جائیں اور انہیں پھر بھی نشانہ بنایا جائے؛ مثال کے طور پر ایک بحرینی طالبعلم جو سعودی عرب میں میڈیکل کالج کے آخری سال میں تھا کو حصول تعلیم سے محروم کرکے نکال دیا گیا ہے لیکن وہ اس بارے میں کچھ بتانے یا اپنا تعارف کرانے سے خوفزدہ ہے۔
هادي الموسوي نے آخر میں کہا کہ تاریخ کبھی بھی تشدد سمیت آل خلیفہ کے دیگر جرائم کو فراموش نہیں کرے گی اور اس حکومت کو اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔

ــ بحرینی عدالت نے شہریوں کے قتل کی تصدیق کردی
گو کہ آل خلیفہ حکومت عوام کو کچلنے اور قتل کرنے کا اعتراف کرنے سے کترا رہی ہے، لیکن بحرین کی عدالت نے 14 فروری 2011 کے انقلاب کے دوران شہید ہونے والے سترہ شہریوں کے خاندانوں کے چھبیس لاکھ ڈالر تاوان کی ادائیگی کا حکم جاری کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق آل خلیفہ کی اپنی ہی سپریم کورٹ نے 17 افراد کے خاندانوں کو چھبیس لاکھ ڈالر کی تاوانی کی ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے تین سرکاری اہلکاروں پر آل خلیفہ کی طرف سے تین بحرینی شہریوں کے غیر ارادی قتل قتل کے ملزم سرکاری اہلکاروں کے الزام کو شدت بخشی ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان افراد پر قتل عمد (ارادی طور پر قتل کرنے) کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
آل خلیفہ حکومت نے 14 فروری 2011 سے لے کر اب تک عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے درندگی کے تمام حربے آزمائے ہیں اور وسط مارچ 2011 سے اس غاصب حکومت کو آل سعود کی جارح حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔
آل خلیفہ اور آل سعود کے گماشتوں نے عوام کو کچلنے کے لئے مختلف قسم کے سرد اور گرم ہتھیاروں، مختلف قسم کی ممنوعہ گیسوں اور تشدد کے مختلف حربوں کا استعمال کیا ہے اور عوام کو ہراساں کرنے کے لئے ان کے رہائشی علاقوں پر حملے کئے ہیں ان کی مسجدیں اور امامبارگاہیں شہید کیں ہیں، انہيں ملازمتوں سے برخاست کیا ہے اور حتی کہ ڈاکٹروں اور نرسوں تک کو دکھی انسانیت کو علاج معالجے کی سہولیات بہم پہنچانے کی پاداش میں قید کرکے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور قیدیوں سے جھوٹے اور من مانے اعترافات کرانے کے لئے ان پر تشدد کیا ہے۔
گو کہ مغربی حتی کہ عرب ذرائع ابلاغ نے بحرین کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموشی اختیار کی ہے یا حتی آل خلیفہ حکومت کے شانہ بشانہ بجرین کے عوام کے خلاف تشہیری مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں لیکن بحرینی عوام کے بعض حامی ذرائع ابلاغ اور بحرین میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظلومین بحرین کا کیس بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں میں کامیابی سے پیش کیا ہے جس کی وجہ سے آل خلیفہ کو ان تنظیموں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دریں اثناء بحرین کی وزارت "انصاف” (!) کے ایک اہلکار نے کہا کہ فروری اور مارچ 2011 میں مارے جانے والے سترہ مقتولین کے خاندانوں کو عدالت کے اعلان کردہ چھبیس لاکھ ڈالر کے تاوان کی ادائیگی کے ابتدائی مراحل کا آغاز ہوچکا ہے۔
خلیفی عدالت کا یہ حکم بھی ایک سیاسی چال سے زيادہ مشابہت رکھتا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ اقدام آل خلیفہ کی حکمرانی کی بنیادوں کی مضبوطی جتانے اور شہیدوں کے خاندانوں کو انقلاب سے الگ کرنے کی نیت سے عمل میں لایا گیا ہو۔
واضح رہے کہ آل خلیفہ کی حکومت نے ایک سال کے دوران درجنوں شہریوں کو زہریلی گیسوں کے ذریعے شہید کیا ہے، کئی افراد کو جیلوں میں تشدد کرکے شہید کردیا اور متعدد افراد کو پولیس کی گاڑیوں نے کچل کر شہید کردیا ہے اور پھر اسپتالوں میں اپنی مرضی کے مقرر کردہ بیرونی ڈاکٹروں کے ذریعے ان کی شہادت کو طبعی یا حادثاتی موت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
آل خلیفہ نے بہت سے مواقع پر شہداء کا جسد خاکی ان کے خاندانوں کو دیتے ہوئے ان سے جعلی میڈیکل رپورٹس پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا چاہا ہے جن میں ان کی موت طبعی قرار دی گئی تھی یا شہداء کے اہل خاندان کو ایسے اوراق پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا چاہا جن میں لکھا ہوا تھا کہ "ہمیں اپنے عزیز کی شہادت کے حوالے سے حکومت سے کوئی شکایت نہیں ہے”۔
تاوان کی ادائیگی کو مشکوک بنانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تاوان کی تقسیم اور ادائیگی کی کیفیت کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت محسوس نہيں کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نمائشی اور تشہیری حربہ ہے۔
نومبر 2011 میں خلیفی بادشاہ کے حکم پر البسیونی کی سربراہی میں قائم کردہ تلاش حقیقت کمیٹی نے کہا اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ فروری اور مارچ 2011 کو 35 بحرینی شہری حکومت کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں اور پانچ افراد خلیفی اذیتکدوں میں سرکاری تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
در گزارش بازرسان این کمیته تأکید شده است که 5 نفر زیر شکنجه کشته شده اند.گو کہ آل خلیفہ حکومت عوام کو کچلنے اور قتل کرنے کا اعتراف کرنے سے کترا رہی ہے، لیکن بحرین کی عدالت نے 14 فروری 2011 کے انقلاب کے دوران شہید ہونے والے سترہ شہریوں کے خاندانوں کے چھبیس لاکھ ڈالر تاوان کی ادائیگی کا مشکوک سا حکم جاری کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق آل خلیفہ کی اپنی ہی سپریم کورٹ نے 17 افراد کے خاندانوں کو چھبیس لاکھ ڈالر کی تاوانی کی ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے تین سرکاری اہلکاروں پر آل خلیفہ کی طرف سے تین بحرینی شہریوں کے غیر ارادی قتل قتل کے ملزم سرکاری اہلکاروں کے الزام کو شدت بخشی ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان افراد پر قتل عمد (ارادی طور پر قتل کرنے) کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
آل خلیفہ حکومت نے 14 فروری 2011 سے لے کر اب تک عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے درندگی کے تمام حربے آزمائے ہیں اور وسط مارچ 2011 سے اس غاصب حکومت کو آل سعود کی جارح حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔
آل خلیفہ اور آل سعود کے گماشتوں نے عوام کو کچلنے کے لئے مختلف قسم کے سرد اور گرم ہتھیاروں، مختلف قسم کی ممنوعہ گیسوں اور تشدد کے مختلف حربوں کا استعمال کیا ہے اور عوام کو ہراساں کرنے کے لئے ان کے رہائشی علاقوں پر حملے کئے ہیں ان کی مسجدیں اور امامبارگاہیں شہید کیں ہیں، انہيں ملازمتوں سے برخاست کیا ہے اور حتی کہ ڈاکٹروں اور نرسوں تک کو دکھی انسانیت کو علاج معالجے کی سہولیات بہم پہنچانے کی پاداش میں قید کرکے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور قیدیوں سے جھوٹے اور من مانے اعترافات کرانے کے لئے ان پر تشدد کیا ہے۔
گو کہ مغربی حتی کہ عرب ذرائع ابلاغ نے بحرین کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموشی اختیار کی ہے یا حتی آل خلیفہ حکومت کے شانہ بشانہ بجرین کے عوام کے خلاف تشہیری مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں لیکن بحرینی عوام کے بعض حامی ذرائع ابلاغ اور بحرین میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظلومین بحرین کا کیس بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں میں کامیابی سے پیش کیا ہے جس کی وجہ سے آل خلیفہ کو ان تنظیموں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دریں اثناء بحرین کی وزارت "انصاف” (!) کے ایک اہلکار نے کہا کہ فروری اور مارچ 2011 میں مارے جانے والے سترہ مقتولین کے خاندانوں کو عدالت کے اعلان کردہ چھبیس لاکھ ڈالر کے تاوان کی ادائیگی کے ابتدائی مراحل کا آغاز ہوچکا ہے۔
خلیفی عدالت کا یہ حکم بھی ایک سیاسی چال سے زيادہ مشابہت رکھتا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ اقدام آل خلیفہ کی حکمرانی کی بنیادوں کی مضبوطی جتانے اور شہیدوں کے خاندانوں کو انقلاب سے الگ کرنے کی نیت سے عمل میں لایا گیا ہو۔
واضح رہے کہ آل خلیفہ کی حکومت نے ایک سال کے دوران درجنوں شہریوں کو زہریلی گیسوں کے ذریعے شہید کیا ہے، کئی افراد کو جیلوں میں تشدد کرکے شہید کردیا اور متعدد افراد کو پولیس کی گاڑیوں نے کچل کر شہید کردیا ہے اور پھر اسپتالوں میں اپنی مرضی کے مقرر کردہ بیرونی ڈاکٹروں کے ذریعے ان کی شہادت کو طبعی یا حادثاتی موت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
آل خلیفہ نے بہت سے مواقع پر شہداء کا جسد خاکی ان کے خاندانوں کو دیتے ہوئے ان سے جعلی میڈیکل رپورٹس پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا چاہا ہے جن میں ان کی موت طبعی قرار دی گئی تھی یا شہداء کے اہل خاندان کو ایسے اوراق پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا چاہا جن میں لکھا ہوا تھا کہ "ہمیں اپنے عزیز کی شہادت کے حوالے سے حکومت سے کوئی شکایت نہیں ہے”۔
تاوان کی ادائیگی کو مشکوک بنانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تاوان کی تقسیم اور ادائیگی کی کیفیت کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت محسوس نہيں کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نمائشی اور تشہیری حربہ ہے۔
نومبر 2011 میں خلیفی بادشاہ کے حکم پر البسیونی کی سربراہی میں قائم کردہ تلاش حقیقت کمیٹی نے کہا اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ فروری اور مارچ 2011 کو 35 بحرینی شہری حکومت کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں اور پانچ افراد خلیفی اذیتکدوں میں سرکاری تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
بہر صورت چاہے خلیفی عدالت کے اس اعلان کا حقیقت سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو اس کے ضمن میں اس بات کا واضح طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے عوام کا خون بہایا ہے اور اس کے اہلکاروں نے عوام پر جبر و تشدد روا رکھا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button