مشرق وسطی

بحرین / علمائے دین پر آل خلیفہ خاندان کے دباؤ کے مقاصد

shiitenews bahrainiایک بحرینی سیاستدان نے بحرین میں فرقہ وارانہ فتنوں سے خبردار کرتے ہوئے کہا کا دینی راہنماؤں کے خلاف آل خلیفہ کے اقدامات کا مقصد علماء کو دھونس دھمکی کے ذریعے آل خلیفہ کے ساتھ ملانا ہے۔ / ایک سیاستدان کے مطابق شیخ عیسی قاسم کو آل خلیفہ کی دھمکیوں کا مقصد بحرینی عوام کو انقلاب سے منحرف کرنے کی کوشش ہے۔ / ایک ساستدان آل خلیفہ کے وزیر قانون اور دیگر اراکین کابینہ کو ایسے بے ادب بچے قرار دیا جو علماء اور بزرگوں سے بات چیت کرنے کے آداب سے بے خبر ہیں۔
 ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق "ہانی الریس” نے کہا: آل خلیفہ کی آمرانہ حکومت کرائے کے سعودی فوجیوں کو عوامی کو کچلنے کے لئے استعمال کررہی ہے اور وہ عوام کو جبر و تشدد کے ذریعے دبانے اور عوام کی آزادیاں ـ بالخصوص دینی آزادیاں ـ پامال کرنے کے لئے کسی بھی کوشش سے فروگذاشت نہیں کررہی ہے اور وہ ان اقدامات کو ترک نہیں کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر حکومت علماء اور دینی راہنماؤں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے ان پر اپنے دباؤ میں اضافہ کررہی ہے۔
الریس نے کہا: حکومت مساجد اور امامبارگاہوں کو مقدس مقامات کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور ان مراکز کو ریلیوں اور مظاہروں کو معتدل کرکے پر امن طور پر منعقد کرنے کے مراکز نہیں سمجھتی بلکہ اس کا خیال ہے کہ مساجد اور حسینیات ان کی آمریت کو چیلنج کرنے والے مراکز ہیں جن کے ذریعے عوام کو آل خلیفہ حکومت کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔ 
انھوں نے مزید کہا کہ آل خلیفہ حکومت کی پالیسیوں نے ہی اس حکومت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور یہ حکومت بحرین میں فرقہ وارانہ فتنہ بپا کرنا چاہتی ہے وہی فتنہ جس کو مشتعل کرنے کے لئے اس حکومت نے 14 مارچ 2011 سے اب تک ہزاروں کوششیں کی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آل خلیفہ حکومت عوام کو کچلنے کے تمام حربے مسلسل بروئے کار لاتی رہے گی کیونکہ وہ کئی عشروں سے جبر و تشدد کے ذریعے اپنے تمام بنیادی حقوق کھونے والے عوام کی صدا خاموش کرنے کی امید لئے بیٹھی ہے۔
دریں اثناء دوسرے سیاستدان نے شیخ عیسی قاسم کو آل خلیفہ کی جانب کی دھمکیوں کو بحرینی عوام کو انقلاب سے منحرف کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
کریم المحروس نے کہا ہے کہ بحرینی علماء پر خلیفی جارحیت اور ان کے حقوق پامال کرنے کا سلسلہ گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہے اور یہ ایک نیا مسئلہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: بحرین میں نہایت بھونڈے انداز میں علماء کے حقوق پامال کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ گذشتہ چھ مہینوں کے دوران بھی جاری رہا ہے اور اس سلسلے میں آل خلیفہ حکومت کو رسوا کرنے کے لئے کافی دلائل موجود ہیں۔ 
انھوں نے کہا: آل خلیفہ حکومت جس دینی عالم اور راہنما سے خطرہ محسوس کرتی ہے اس کے وجود تک کو خلاف قانون گرداننے لگتی ہے حالانکہ علماء بھی بحرین کے معاشرتی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ 
المحروس نے خبردار کیا کہ بحرین میں حالات کی نزاکت اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا: کہ آل خلیفہ حکومت کی کوشش ہے کہ علماء پر الزام لگا کر عوام کی توجہ کو جزوی مسائل کی طرف منحرف کرے اور عوام کو انقلاب سے منحرف کردے۔ 
ایک اور سیاستدان نے بھی آل خلیفہ کے وزیر قانون کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو دھمکی آمیز خط کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحرین کے تمام راہنماؤں کی جان کے تحفظ کی ذمہ داری آل خلیفہ خاندان پر عائد ہوتی ہے۔
ابراہیم المدہون نے کہا: بحرین کی عمومی صورت حال المناک ہے اور آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو حکومت کی جانب سے دھمکی آمیز مراسلے کے بعد ملک کی بحرانی کیفیت میں مزید شدت آئی ہے اور عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
انھوں نے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے نام آل خلیفہ کے وزیر قانون کے خط کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے وزیر قانون اور آل خلیفہ حکومت کے دیگر اراکین کو ایسے بے ادب بچے قرار دیا جو علماء اور بزرگوں سے بات چیت کرنے کے آداب سے بے خبر ہیں۔ 
انھوں نے کہا: سب گواہی دیتے ہیں کہ اگر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نہ ہوتے تو پورے بحرین میں آگ بھڑک اٹھتی کیونکہ انھوں نے عوام کو ہمیشہ پر امن رہنے کی تلقین کی ہے اور انھوں نے امن و امان کو مخدوش نہیں ہونے دیا ہے۔
یاد رہے کہ موجودہ عیسوی سال کے دوران عرب ممالک میں شروع ہونے والے انقلابات میں صرف بحرین کا انقلاب ایسا ہے جس میں انقلابیوں نے ایک شیشہ تک نہیں توڑا ہے اور جبر و تشدد کا جواب سلمیہ سلمیہ کا نعرہ لگا کر دیا ہے اور اس پر امن انقلاب کا سہرا آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button