مشرق وسطی

آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو آل خلیفہ کی دھمکیاں کمزوروں کی منطق ہے

aytollah sheikh issa qasimبحرین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جمعیۃ الوفاق الاسلامی نے آل خلیفہ کے وزیر قانون کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو لکھے گئے دھمکیوں بھرے خط کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "دھمکیاں کمزور افراد کی منطق ہے”۔
  رپورٹ کے مطابق جمعیۃ الوفاق الاسلامی نے آل خلیفہ استبداد کے وزیر قانون (؟)، اسلامی امور (؟) اور اوقاف کے وزیر خالد بن علي بن عبدالله آل خلیفه کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے نام لکھے گئے خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو حقائق کی تحریف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی تقاریر کا بنیادی موضوع ہی، جائز مطالبات کے لئے عوام کی پر امن تحریک ہے جس میں تشدد کا عنصر نہیں پایا جاتا اور فرقہ واریت کی نفی ہوتی ہے۔
جمعیۃ الوفاق الاسلامی نے ایک دینی قا‏ئد، قومی علامت اور قوم کی سربلندی کی بنیاد کے نام خلیفی وزیر کے دھمکیوں سے بھرے خط کو پورے مذہب کے خلاف خلیفی حکمرانوں کی جارحیت اور بحرین کی اکثریتی آبادی کے اعتقادات پر وار کرنے کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے: بعض خلیفی روزناموں نے گذشتہ مہینوں کے دوران آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شخصیت پر متعدد حملے کئے اور بعض سرکاری اہلکاروں نے بھی زبانی طور پر انہیں گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیں اور خلیفی وزیر کے مراسلے کے ساتھ یہ خلیفی جارحیت اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے جس کا مقصد اس دینی رہبر کی شخصیت کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 
بحرین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نے اپنے بیان میں سوال اٹھایا ہے کہ: آل خلیفہ کے وزیر آیت اللہ قاسم کو کیونکر امن عامہ کو نقصان پہنچانے کا الزام دیتے ہیں اور انہیں پرامن انداز اپنانے کی دعوت دیتے ہیں جبکہ ان کی حکومت فوجی وسائل اور ہتھیاروں سے لیس ہوکر عوام کا قتل عام کررہی ہے، بہت سوں کو ٹارچر کررہی ہے اور ہزاروں کا روزگار چھین چکی ہے، مساجد کو منہدم کررہی ہے اور لوگوں کے گھروں کو ویراں کررہی ہے۔ ؟
آل خلیفہ کے وزیر نے اپنے خط میں بحرین کے حقائق کی تحریف کرتے ہوئے آیت اللہ شیخ عیسی احمد قاسم سے جو درخواستیں کی ہیں اور ان میں ضمنی طور پر انہیں مورد الزام ٹہرایا گیا ہے۔ 
خلیفی وزیر کے خط کے خاص نکات:
٭ ہم آپ کو لوگوں کی حساسیتیں ابھارنے سے دوری کی دعوت دیتے ہیں؛ کیونکہ یہ حساسیتیں مسلمانوں کے درمیان تفرقے کا سبب بنتی ہیں
جبکہ خلیفی خاندان پوری قوت کے ساتھ فرقہ واریت پھیلارہی ہے اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں جاکر "کافروں سے لڑنے کے لئے” کرائے کے قاتل بھرتی کروارہی ہے۔
٭ ہم آپ کو اس لئے اس مہم کی دعوت دے رہے ہیں کیونکہ ہم نے آپ کے کئی خطبوں کی نگرانی کی جن میں آپ نے ایسی اصطلاحات اور عبارتیں استعمال کیں جن سے لوگوں کو اکسانے اور انہیں "قانون” کے مدمقابل دٹ جانے کا مطلب نکلتا ہے۔ 
اب یہ آل خلیفہ حکومت سے کوئی جاکر پوچھے کہ ان کے خاندان نے کس قانون کے تحت اس ملک پر قبضہ جمایا ہوا ہے اور کس قانون کے تحت عوام کو انتخاب کا حق دیئے بغیر ان پر حکومت کررہا ہے؛ اس نے کس قانون کے تحت پرامن تحریک چلانے والے عوام کو کچلنا شروع کیا ہے؛ اس نے کس قانون کے تحت عوامی مظاہروں میں شرکت کرنے والے عوام کو قید کرلیا ہے، ملازمین کو کام سے بیدخل کررہی ہے اور ڈاکٹروں کو دکھی انسانیت کا علاج کرنے کے جرم میں جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے؟
٭ عوام کو تحریک پر آمادہ کرنے کے سلسلے میں آپ کا اقدام "جائز” نہیں ہے اور یہ آپ کے لئے جائز نہیں ہے کہ عوام کے مقدرات کا تعین کریں اور آپ کے لئے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ "عوام کا ایک حصہ مظلوم ہے” یا "عوام کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے”۔ 
ایسا تو شاید یزید، چنگیز اور تاریخ کے دیگر بدنام انسانیت دشمن جلادوں نے بھی کسی سے نہ کہا ہو کہ وہ حتی اپنی مظلومیت کی شکایت بھی نہ کریں۔ اور پھر اگر 10000 سعودیوں اور کئی ہزار دیگر بیرونی قاتلوں کو عوام کے قتل عام اور ان کے جمہوری تحریک کے لئے جائز ہے تو کیا ایک مرجع تقلید کی جانب سے عوام کو اپنا حق مانگنے کی دعوت کیونکر جائز نہیں ہے؟ اور پھر انسانیت کش خلیفی حکومت کون ہوتی ہے کہ وہ پوری قوم کے مقدرات پر قابض ہوکر جائز اور ناجائز کا تعین کرے؟۔
٭ آپ کو ملت اور قوم کا نام لے کر عوام سے خطاب کرنے کا رویہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ سننے والے آپ کے خطاب سے "فرقہ وارانہ رجحان” کا تصور لیتے ہیں!۔
آل خلیفہ کو ملت کے بارے میں بولنے کا حق کہاں سے ملا جس نے اس ملت کو کچلنے کے لئے ابتداء سے ہی بیرونی کرائے کے ایجنٹوں کی فوج بنارکھی ہے جن میں صرف 11 فیصد بحرینی ہیں اور پھر یہ بات کون نہیں جانتا کہ آل خلیفہ حکمرانوں کے خلاف انقلاب بحرین کے سنی اور شیعہ عوام نے شروع کررکھا ہے اور سنی اور شیعہ دونوں اس بیگانہ پرست آمریت سے نالاں ہیں؟
بے حیائی کی حدود پھلانگنے والے خلیفی وزیر نے یہاں بے حیائی اور بے شرمی کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے لکھا ہے؟
٭ بات حد مقبول سے گذر گئی ہے اس منبر سے آپ نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے، گذشتہ ہفتوں کے دوران نے آپ نے "عدالتی کاروائی میں مداخلت کی ہے، آپ نے خودسرانہ اقدام کرتے ہوئے احکامات جاری کئے ہیں، آپ کے خطبے نوجوانوں کے "تشدد اور تخریب کاری کی جانب مائل ہونے کا باعث ہوئے ہيں، بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ آپ نے اس منبر کا رتبہ گرا کر درمیانی مدت کے انتخابات کے لئے اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے”۔
سوال یہ ہے کہ جس عدالت میں ملزم کو وکیل رکھنے کا حق نہ ہو، قاضی و کوتوال اور گواہ و شاہد سب کے سب آل خلیفہ خاندان کے افراد یا اس کے کٹھ پتلی ہوں اور عالمی ذرائع کی شہادت کے مطابق اس کے تمام فیصلے ظالمانہ ہوں اور اس کے فیصلوں سے انسانی حقوق پامال ہورہے ہوں اس کے فیصلوں پر تنقید کیونکر عدالتی عمل میں مداخلت ٹہری یا اس سے خودسرانہ فیصلوں کا تصور ابھر آیا جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آل خلیفہ کی عدالت مسلمہ انسانی اور بین الاقوامی حقوق کے تمامتر تقاضوں کے خلاف تشکیل پاتی ہے؟ اگر نوجوانوں سے کہا جائے کہ انہیں سینکڑوں برسوں سے اپنے پامال ہونے والے حقوق کے لئے ہمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے تو یہ ان کو تشدد اور تخریب پر مائل کرنے کے زمرے میں کیونکر شمار کیا گیا؟ اور پھر خلیفی حکمرانوں سے ہی کوئی پوچھے کہ بحرینی نوجوانوں نے کہاں تشدد کیا اور کہاں تخریبکاری کی؟ اگر انھوں نے ایسا کیا ہوتا تو کیا جھوٹ کے سہارے قائم غاصب خلیفی حکومت ان کے ثبوت کم از کم اپنے سعودی اور امریکی آقاؤں کے ذرائع ابلاغ میں شائع نہ کرتے؟ قرون وسطائی آل خلیفہ حکمران جو اپنے مغربی اور اسرائیلی آقاؤں کے سامنے سیکولر بنتے ہیں اور اپنا کام نکالنے کے لئے بعض ممالک میں جاکر راسخ العقیدہ مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں یہاں سیکولرزم اور دین کی سیاست سے جدائی کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے منبر کا رتبہ گرا کر انتخابات کی بات کیوں کی ہے؟ سوال یہ ہے کہ خلیفیوں نے جس قوم کے حقوق غصب کئے ہیں کیا اس ملت کو انتخابات کے بارے میں بات کرنے کا حق بھی نہیں ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خلفائے راشدہ مسجد و منبر کو سیاست سے الگ کرکے حکومت کرتے رہے ہیں یا ان کا دارالحکومت ہی مسجد تھی؟
خلیفی وزیر نے ان دھمکیوں کے بعد لکھا ہے:
٭ آپ کی سطح اور آپ کی شخصیت کو یہ خط لکھ کر ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ اپنے راستے پر مزید گامزن نہیں رہیں گے اور اپنی عبادت میں مشغول رہیں گے اور مسلمانوں کی وحدت، ملی وحدت کے استحکام اور حقیقی شہری کی حيثیت سے تمام ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اتحاد کے لئے کوشاں رہیں گے۔
اس خلیفی منطق میں ایک طرف سے انہیں اپنی دینی اور قومی ذمہ داری سے روکا گیا ہے جس کے ضمن میں کئی الزامات اور کئی دھمکیاں ہیں: کام بند کریں اور عبادت میں مصروف رہیں، آپ مسلمانوں کی وحدت اور ملی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، آپ کی شہریت سلب بھی کی جاسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس خط پر جمعیۃ الوفاق الاسلامی کا رد عمل تو آگیا ہے بحرین نیز عالمی سطح پر بھی رد عمل کی توقع کی جاتی ہے اور آل خلیفہ حکمران جو غلط اقدام کرتے ہیں اور پھر رد عمل کا انتظار کرتے ہیں اور اگر رد عمل سخت ہو تو پھر بڑی آسانی سے حتی کہ جماعتوں کو کالعدم قرار دینے یا شہریوں کو سنائی گئی سزاؤں پر عملدرآمد کے احکامات تک کو منسوخ کردیتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام کے علماء اور جماعتوں کی طرف سے اس خلیفی اقدام کا رد عمل کیا ہے؟

متعلقہ مضامین

Back to top button