مشرق وسطی

آیت اللہ عیسی قاسم: ہم موجودہ صورت حال مزید برداشت نہیں کریں گے

shiitenews ayyat ulla essa qasimآیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے کہا: ملت بحرین کے لئے مزید قابل برداشت نہیں ہے کہ ایک شخص کا ووٹ 20 یا 30 شہریوں کے برابر ہو اور دوسری طرف سے 20 یا 30 شہریوں کے ووٹ کی قیمت ایک شہری کے ووٹ کے برابر ہو۔
 ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق علمائے بحرین کی شورائے علماء کے سربراہ آیت اللہ شیخ عیسی احمد قاسم نے گذشتہ جمعے کے روز الدراز کے علاقے کی مسجد امام صادق علیہ السلام میں روزہ دار نمازگزاروں سے خطاب کیا۔ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے اس دوٹوک اور صراحت بھرے خطاب کے اہم نکات کچھ یوں ہیں:
٭ بحرینی ملت مزید برداشت نہیں کرسکتی کہ ای شہری کی رائے 20 یا 30 شہریوں کی رائے کے برابر ہو۔ 
٭ مغرب، استکباری و طاغوتی قوتیں ان وابستہ حکومتوں کی حامی ہیں جو اپنی دولت، عزت و عظمت، انسانی وقار و کرامت، اپنی اقدار حتی کہ اپنا دین بھی اپنے اقتدار کے تحفظ کے عوض قربان کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں اور وہ اپنے وطن کے مفادات کو بآسانی اور سستے داموں بیچا کرتی ہیں۔
٭ عوام کو مغرب سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے بلکہ انہیں اپنی جدوجہد کے لئے پر عزم ہونا چاہئے کیونکہ ہم اپنے عزم کے ذریعے ہی اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ 
٭ ہمارے صبر و تحمل کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ یہ قوم اصلاحات کے وعدوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی سرکاری پالیسی مزید برداشت نہیں کرسکتی؛ ہم مزید بے راہروی اور بدعنوانی برداشت نہیں کرسکتے؛ ہم ملک میں فساد و افساد کا سلسلہ مزید برداشت نہیں کرسکتے؛ ہم مزید پسماندگی اور آشفتگی برداشت نہیں کرسکتے؛ ملت بحرین کے لئے مزید قابل برداشت نہیں ہے کہ ایک شخص کا ووٹ 20 یا 30 شہریوں کے برابر ہو اور دوسری طرف سے 20 یا 30 شہریوں کے ووٹ کی قیمت ایک شہری کے ووٹ کے برابر ہو؛ اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے وطن کو المیوں کا سامنا کرنا پڑے گا؛ ہم سب کو المیئے کا سد باب کرنے کے لئے اٹھنا پڑے گا۔ 
٭ ہم مزید برداشت نہیں کرسکتے کہ ہزاروں افراد مظاہروں اور دھرنوں میں شرکت کی پاداش میں روزگار سے محروم کئے جاتے رہیں؛ لوگوں سے رزق حلال کمانے کا امکان چھینا جاتا رہے اور ہزاروں خواتین، بچے اور بوڑھے بھوک و افلاس کا شکار ہوجائیں۔
٭ ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ بحرینی عوام کو کام سے محروم کیا جائے اور ان کا کام بیرون ملک سے آئے کرائے کے ایجنٹوں کے سپرد کیا جائے اور انہیں اس ملت مظلوم کی دولت سے بڑی بڑی تنخواہیں دی جائیں۔
٭ بحرینی قوم برداشت نہیں کرسکتی کہ یونیورسٹیوں کو طلبہ و طالبات سے خالی کرایا جائے اور قوم کی ذہنی اہلیتوں کو نیست و نابود کیا جائے اور کم فہم، کم شعور اور بے تمدن لوگوں کے مقدرات پر مسلط کئے جائیں۔
٭ بحرینی عوام برداشت نہیں کرسکتے کہ اس قوم کے شریف اور باعزت مرد، نوجوان اور بچے اپنی زندگی جیلوں، حراستی مراکز، ٹارچر سیلوں اور اذیتکدوں میں بسر کریں اور ان کی مسلسل توہین کی جاتی رہے؛ 
٭ ہم مزيد برداشت نہیں کرسکتے کا عوام کی دینی آزادیاں چھین لی جائیں؛ انہیں اپنے دینی مراکز میں رکاوٹوں اور مزاحمتوں کا سامنا ہو اور سرکاری کارندے عوام کے اپنے وقفیات پر ہی ان کے خلاف صف آرا ہوں۔ 
٭ ہم مزید برداشت نہیں کریں گے کہ انہیں دینی اعمال و مراسمات کی پاداش میں سزائیں دی جائیں؛ ان کی بے حرمتی کی جائے اور انہیں عبادت کے عوض توہین، بہتان اور بدزبانی کا سامنا کرنا پڑے۔ 
٭ ہم مزید برداشت نہیں کرسکتے کہ جو لوگ اپنی قوم کے مقدرات کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں ان کے سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھا جائے۔ 
٭ ہم مزید برداشت نہیں کرسکتے کہ حکومت عوام کو بے صلاحیت اور نا اہل سمجھے اور ان کی رائے کو غیراہم قرار دے اور اپنی رائے ان پر مسلط کرے۔
٭ یہ ملت مزید برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی دولت اور اس کے وسائل سمندر اور خشکی میں لوٹ لئے جائیں؛ یہ ملت اپنے وسائل کی لوٹ مار پر خاموش تماشائی بن کر نہیں رہے گی۔
٭ بحرینی ملت اپنے دکھوں کی داستانیں سنانے کا سلسلہ جاری رکھے گی اور خاموشی اختیار نہیں کرے گی۔ گھٹن، دکھ، صدمات، حقوق کی پامالی اور حکمران خاندان کے بے شمار ناشائستہ اقدامات نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے اور یہ دکھ بھری صورت حال مزید قابل برداشت نہیں ہے۔ 
چنانچہ:
٭ حالات کی فوری تبدیلی، ہمہ جہت اور وسیع البنیاد اصلاحات کا فوری نفاذ اور ان اصلاحات کا دوام اور توسیع عوام کی آگہی، فہم اور عزم کی تقویت کے لئے ضروری ہے۔
مغرب کس کا ساتھ دے رہا ہے؟
مغرب، امریکہ اور یورپ کس کے ساتھ ہیں؟ کیا وہ وابستہ حکومتوں کے حامی ہیں یا پھر عوامی تحریکوں اور استقلال طلب اقام کے ساتھ ہیں؟ امریکہ اور یورپ کیا چاہتے ہیں؟ بڑے اور استکباری ممالک کیا چاہتے ہیں؟ 
٭ بے شک تمام استکباری طاقتیں اپنے کٹھ پتلیوں کے تحفظ کے درپے ہیں؛ وہ اپنے غلاموں کو پالنے، اقوام کی دولت لوٹنے، حساس جغرافیائی علاقوں پر قبضہ جمانے، استعمار اور استحصال کے لئے مواقع حاصل کرنے، دوسروں کے امور میں آسان مداخلت اور اقوام کے مقدرات پر مکمل تسلط جمانا ان کے بنیادی مقاصد ہیں۔ وہ اقوام کو اپنے مقدرات کا فیصلہ خود کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔
٭ پس مغرب، استکباری و طاغوتی قوتیں ان وابستہ حکومتوں کی حامی ہیں جو اپنی دولت، عزت و عظمت، انسانی وقار و کرامت، اپنی اقدار حتی کہ اپنا دین بھی اپنے اقتدار کے تحفظ کے عوض قربان کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں اور وہ اپنے وطن کے مفادات کو بآسانی اور سستے داموں بیچا کرتی ہیں۔ بیگانہ قوتوں کا مفاد ان حکومتوں سے وابستہ ہے جو اپنی ایک روز کی بقاء کے لئے بھی سب کچھ بیچتی ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کا مفاد ان قوتوں اور ان تحریکوں سے وابستہ ہو جو فیصلہ سازی کا اختیار اور قومی اور ملی عظمت کا حصول چاہتی ہیں اور قومی مفادات کی پابند ہیں۔ یہ تحریکیں اس وقت تک مغرب کی حمایت حاصل نہیں کرسکتیں جب تک کہ وہ مغربی مفادات سے ہماہنگ نہ ہوں۔
٭ استعمار کی روح، استحصال کے جذبے، غلام پروری کے رجحان اور دوسروں کو لالچ بھری نظروں سے دیکھنے کی ابدی سامراجی پالیسیوں سے صداقت پر مبنی اسلامی تحریکوں کی عدم ہماہنگی نہایت اہم اور ابدی و دائمی مسئلہ ہے۔
٭ اسلام دشمن طاقتیں اسلام کی عزت م عظمت، طاقت، استحکام، اصولوں پر استقامت، قوت مزاحمت، اخلاص، طہارت اور انقلابی پہلو سے آگہی رکھتی ہیں۔
٭ اسلام اعلی مرتبہ دین ہے کوئی چیز اس سے بالاتر نہیں ہوسکتی؛ جبکہ عالمی استعمار کو ایسی چیزوں کی تلاش ہے جس پر وہ فوقیت حاصل کرسکیں [تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اسلام کی حمایت کریں؟!]۔ ت که بر آن برتری داشته باشد.
٭ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لیبیا میں مغربی قوتیں عوامی تحریک کا ساتھ دے رہی ہیں لیکن یہ حمایت وقتی ہے۔
٭ اس میں شک نہیں ہے کہ حریت پسندی، استقلال طلبی اور تحریکوں کے قومی مفادات کے سامنے مغربی طاقتوں کا موقف جلدی یا بدیر شدید جنگوں پر منتج ہوگا۔ مغرب یہ لڑائی اپنی خاص مہارت سے لڑ رہا ہے لیکن نقاب عنقریب اٹھیں گے اور حقائق آشکار ہونگے۔
٭ ہمیں دنیا میں حریت پسندانہ تحریکوں کے حوالے سے مغرب کی حمایت سے بالکل نا امید ہونا چاہئے جس طرح کہ ہم حق و عدل اور عوام کے جائز اور منطقی مطالبات کے سامنے اپنے ممالک پر مسلط حکومتوں کے سرتسلیم خم کرنے سے نا امید ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button