مشرق وسطی

سعودی عرب بحرین پر دائمی قبضہ چاہتا ہے

shiitenews_bahrainبحرین کے انقلابی راہنما کے اہم انکشافات: سعودی عرب بحرین پر دائمی قبضہ چاہتا ہے
لندن میں مقیم بحرینی سیاستدان اور عالمی اتحاد برائے حمایتِ ملتِ بحرین کے رکن "قاسم الہاشمی” نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے آل خلیفہ کے اذیتکدوں میں پابند سلاسل سیاسی قیدیوں ـ بالخصوص انقلابی راہنماؤ ں  ـ کی صورت حال کو افسوسناک قرار دیا اور کہا: قیدیوں کی جسمانی حالت نہایت افوسناک ہے اور بحرین کے اسپتالوں میں ہمارے دوستوں نے بتایا ہے کہ ان اسپتالوں میں ایسے قیدی زیر علاج ہیں جن کے ہاتھوں، ٹانگوں حتی کہ سروں کی بعض ہڈیان اور کھوپڑیاں توڑ دی گئی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قید ہونے والے افراد مسلسل ٹارچر کئے جارہے ہیں۔
الہاشمی نے کہا کہ آل خلیفہ کے گماشتے اسپتالوں سے فارغ ہونے والے قیدیوں کو دوبارہ تشدد اور ٹارچر کا نشانہ بناتے ہیں۔
انھوں نے بحرین میں آل سعود کی افواج کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آل سعود کے فوجی بحرین میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کا یہ عمل بحرین پر دائمی قبضے کے زمرے میں آتا ہے؛ آل سعود نے بحرین میں جزیرہ نما شیلڈ کے نام پر ایک بڑا فوجی اڈا قائم کیا ہے تاہم حقیقت میں یہ اڈا جزیرہ نما شیلڈ کا نہیں بلکہ آل سعود کی فوج کا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بحرین کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بالکل واضح ہوگیا ہے کہ آل خلیفہ خاندان بحرین کا حاکم نہیں رہا بلکہ آل سعود اس ملک کا حاکم ہے اور آل سعود کی افواج کے آنے کا مقصد واپس لوٹنا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے اس ملک میں رہنے کے لئے آئی ہیں تا کہ آل سعود کا "خلیج فارس کنفیڈریشن” کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے. جس میں بحرین، قطر، امارات، کویت اور عمان شامل ہونگے۔
انھوں نے کہا کہ آل خلیفہ حکومت بھی اس سلسلے میں آل سعود کی مدد کررہا ہے اور مصر میں آل سعود کے اتحادی حسنی مبارک کی سرنگونی کے بعد آل سعود خاندان خلیج فارس کی عرب ریاستوں پر مکمل تسلط جمانے کی کوشش کررہا ہے تا کہ ایک نئی قوت بنا کر عراق، شام، لبنان، تیونس اور مصر جیسے عرب ممالک کے سامنے کھڑا ہوسکے اور ان کا مقابلہ کرسکے۔
انھوں نے آل خلیفہ خاندان کی طرف سے ایران کے خلاف لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا: آل خلیفہ حکام مسلسل آگے کی طرف بھاگنے (Escaping Forward) کی پالیسی پر کاربند ہیں اور جہاں بھی وہ اپنے مسائل حل کرنے میں بے بسی محسوس کرتے ہیں بحرین کے واقعات کو ایران سے نسبت دیتے ہیں اور ایران کو مورد الزام ٹہراتے ہیں؛ یہاں تک کہ اگر بحرین میں پانی بند ہوجائے یا بجلی کے کنکشن منقطع ہوجائیں یا پھر ملک میں آکسیجن کی کمی واقع ہوجائے اور سانس لینا دشوار ہو تو آل خلیفی حکمران ان تمام مسائل کا الزام بھی ایران پر دھر لیں گے!۔
ہاشمی نے مزید کہا: یہ نمائش طویل عرصے تک چل نہیں سکے گی کیونکہ بحرین کے شیعہ اور سنی تو کیا، کویت کے عوام بھی ان الزامات کی تأئید نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر آل خلیفی بادشاہ نے ایک ماہ قبل دعوی کیا کہ انھوں نے ایک شدت پسند گروہ کا سراغ لگایا ہے جو 30 برسوں سے ایران سے مالی اور فوجی مدد حاصل کرتا رہا ہے اور پھر دو ہفتے قبل اسی شخص نے بحرین کے ٹیلی ویژن اسکرین پر ظاہر ہوکر دعوی کیا کہ ایران بحرین کا اہم دوست اور ہمسایہ ہے اور بحرین اور ایران کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے!!۔
انھوں نے کہا: یقینی امر ہے کہ بحرین کے عوام آل خلیفہ حکام کی یہ بدوی اور گھسی پھٹی منطق قبول نہیں کرسکتے بلکہ اس مضحکہ خیز منطق کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ آل خلیفہ کے دعوے متضاد ہیں۔
انھوں نے بحرینی عوام کی انقلابی تحریک کے اغراض و مقاصد کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عزت و احترام اور ہماری انسانی کرامت آل خلیفہ کی حکومت کی جانب سے محفوظ رہے اور آل خلیفی حکام ہمارے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ روا رکھے۔ بحرین کے عوام نے اپنی نہایت پر امن تحریک میں 30 شہیدوں کی قربانی دے کر صرف یہی مطالبات پیش کئے ہیں اور وہ بحرین میں آئینی بادشاہت کے خواہاں ہیں۔
الہاشمی نے آخر میں کہا: بحرینی قوم جبر و ستم، وسیع گرفتاریوں، ٹارچر اور قتل و غارت کے باوجود اپنے مطالبات سے پسپا نہیں ہوئے اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول تک ہرگز مایوس نہ ہونگے۔ لوگوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اپنے مطالبات پر امن انداز سے پیش کرتے رہیں گے لیکن اگر آل خلیفہ حکومت جنون اور دیوانگی کی حد تک آگے بڑھی تو بحرینی عوام کے پاس بھی پر امن رہنے کا جواز باقی نہ رہے گا اور بحرینی قوم کو بھی مسلحانہ جدوجہد کا سہارا لینا پڑے گا۔
آل خلیفی جبر پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی شدید نکتہ چینی
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں آل خلیفہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جبر و استبداد، اور اندرونی اور بیرونی ذرائع ابلاغ کے نامہ نگاروں اور فوٹوگرافروں کی گرفتاریوں اور ان پر تشدد کا سلسلہ بند کرے.
ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے آل خلیفی حکمرانوں پر ابلاغی اداروں سے وابستہ افراد کی گرفتاری اور ان پر تشدد کی بنا پر آل خلیفہ حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ 14 فروری کو سیاسی اور قانونی اصلاحات کے لئے انقلابِ بحرین کے آغاز سے لے کراب تک بحرین میں ذرائع ابلاغ کے لئے مناسب ماحول دستیاب نہیں ہے۔
آل خلیفہ کے حکام روزنامہ نویسوں کو بحرین کے واقعات کو کوریج دینے کے الزام میں ملازمتوں سے برخاست کررہے ہیں یا انہیں جیلوں میں بند کرتے ہیں؛ انھوں نے بعض بیرونی نامہ نگاروں کو ملک بدر کیا ہے یا پھر ان کے لئے کام کی فضا بہت حد تک محدود کردی ہے۔
آل خلیفہ حکمرانوں نے ان روزنامہ نویسوں کو قید کرکے تشدد کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے عوامی مظاہروں میں شرکت کی تھی۔
روزنامہ نویس اور روزنامہ الوسط کے بانی عبدالکریم فخراوی نے 12 اپریل کو نہایت مشکوک حالت میں آل خلیفہ کی قیدخانی میں جان دے دی اور انٹرنیٹ پر سرگرم روزنامہ نویس "زکریا العشیری” بھی 9 اپریل کو آل خلیفہ کے اذیتکدے میں مشکوک حالت میں قتل ہوئے۔
دریں اثناء ایک بحرینی فوٹوگرافر نے نام نہ بتانے کی شرط پر الجزیرہ نیٹ ورک کو بتایا ہے کہ بہت سے فوٹوگرافروں کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے اور ان سے نہایت وحشیانہ انداز سے تفتیش کی جارہی ہے اور ان سب کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ریلیوں کے زمانے میں لی گئی تمام تصویریں آل خلیفی حکام کے سپرد کردیں۔
ادھر روزنامہ الوسط کے سابق چیف ایڈیٹر اور ان کے تین ساتھی آل خلیفی حکمرانوں کی عدالت میں مقدمے کا انتظار کررہے ہیں۔
رپورترز ودآؤٹ بارڈرز (Reporters Without Borders) نے بھی اپنے بیان میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ آل خلیفہ کے تشدد آمیز برتاؤ پر تنقید کرتے ہوئے آل خلیفی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ ان بیرونی نامہ نگاروں کے ساتھ جبر پر مبنی برتاؤ کا سلسلہ ترک کردیں جو بحرین میں حالیہ احتجاجات کو کوریج دینا چاہتے ہیں۔
اس بین الاقوامی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بحرین کی حکومت ذرائع ابلاغ کی حمایت کے حوالے سے ایک سو انیسویں درجے پر تھی اور اب یہ حکومت اس حوالے سے ایک سو چوالیسویں درجے تک گرچکی ہے۔
انٹرنیشنل یونین آف جرنلسٹس (International Union of Journalists) نے بھی اپنے بیان میں روزنامہ نویسوں اور ذرائع ابلاغ کو ڈرانے دھمکانے کی آل خلیفی پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے اس ملک میں ذرائع ابلاغ کے لئے کھلا ماحول فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور اعلان کیا کہ یہ شہریوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے ملک کی صورت حال سے آگاہ ہوں۔
دریں اثناء آل خلیفہ حکام کے زیر کنٹرول "یونین آف بحرینی جرنلسٹس” نے کہا ہے کہ بحرین میں کسی قسم کا کوئی تشدد روا نہیں رکھا جاتا تا ہم بحرین کی صورت حال بہت حساس ہے اور انٹرنیشنل یونین آف جرنلسٹس کو بحرین کی صورت حال سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔۔۔
یونین آف بحرینی جرنلسٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سیاسی و ابلاغی مبصر نے کہا ہے کہ اس یونین نے یہ بیان دے کر در حقیقت ضمنی طور پر جرنلسٹوں کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے مظالم اور بحرین میں شدید گھٹن کی فضا کی تصدیق کردی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button