حزب اللہ غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، عرب امور کے ماہر محمد علی حسن نیا
ماہر عرب امور نے حزب اللہ کے تاریخی، سیاسی اور دفاعی کردار پر روشنی ڈالی، لبنان میں اس کے اسلحے اور استحکام پر زور دیا۔

شیعیت نیوز : عرب امور کے ماہر محمد علی حسن نیا نے کہا ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ناقابل عمل منصوبہ ہے۔ یہ تنظیم قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے اور لبنان کی سلامتی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ 1975ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل لبنان کا سماجی اور سیاسی ماحول مکمل طور پر فرقہ واریت اور قبائلی بنیادوں پر استوار تھا۔ لیکن امام موسی صدر کی آمد، 1982ء کی جنگ اور اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد لبنانی شیعہ خود کو منظم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس مرحلے پر اسلامی جمہوریہ ایران اور بعض اوقات شام کے سابق صدر حافظ الاسد نے بھی لبنان کی مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے طائف معاہدے کی ایک شق کی بنیاد پر اپنا اسلحہ محفوظ رکھا۔ اس معاہدے میں اگرچہ لفظ مزاحمت استعمال نہیں ہوا، تاہم اس میں واضح کیا گیا ہے کہ جب تک صہیونی فوج مقبوضہ علاقوں میں موجود ہے، اس کے خلاف مزاحمت جائز ہے۔
یہ بھی پڑھیں : غزہ میں صحافیوں پر حملے: 70 ممالک کے 250 میڈیا اداروں کا تاریخی بلیک آؤٹ
عرب امور کے ماہر نے مزید کہا کہ شام میں بشار اسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لبنان کا توازن بگڑ گیا۔ دوسری طرف، صہیونیوں نے مجدل شمس کے واقعے اور حالیہ جنگ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی تاکہ لبنان میں سلامتی کے توازن کو تبدیل کیا جاسکے۔ اسی دوران امریکی بھی سرگرم ہوئے تاکہ سیاسی معاملات کا رخ اپنے حق میں موڑ سکیں۔
محمد علی حسن نیا نے مزید کہا کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ حزب اللہ کے پاس میزائل اور ڈرون موجود ہیں اور اسلحہ ضبط کرنے کے منصوبے کا عملی پہلو ابہام کا شکار ہے۔ حتی کہ اگر حزب اللہ اپنا اسلحہ لبنانی فوج کے حوالے بھی کر دے تو فوج اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کیونکہ 1974ء سے آج تک لبنانی فوج کا ہتھیار صرف امریکی ساختہ ہلکے اسلحے تک محدود رہا ہے۔ فوج کے پاس نہ ٹینک ہیں، نہ لڑاکا طیارے اور نہ ہی ڈرون۔ دشمن یہ چاہتا ہے کہ حزب اللہ کا اسلحہ مکمل طور پر ختم ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب جو منظرنامہ لبنان کے لیے بنا رہے ہیں، وہ ناقابلِ عمل ہے۔ یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ لبنانی معاشرے میں شیعہ، سنی اور مسیحی فرقوں کو نظر انداز یا ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ قومی میثاق اور طائف معاہدے میں صاف لکھا ہے کہ لبنان میں فرقے ایک دوسرے سے الگ نہیں رہ سکتے۔
محمد علی حسن نیا نے کہا کہ 2006ء میں حزب اللہ نے فلسطین کی مقبوضہ سرحدوں کی طرف پیش قدمی کی اور چند صہیونی فوجیوں کو گرفتار کیا۔ اس وقت شیعہ اور مسیحی دونوں حلقوں میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ حزب اللہ نے یہ اقدام لبنانی قیدیوں کی رہائی کے لیے کیا ہے۔ اس کے علاوہ حزب اللہ کا مقصد مزارع شبعا اور کفر شوبا کو آزاد کرانا تھا، جو براہ راست لبنان کے قومی مفاد میں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ جنگ میں صہیونی حکومت نے حزب اللہ کے قرض الحسنہ انسٹی ٹیوٹ کو نشانہ بنایا تاکہ یہ تنظیم جنوبی لبنان کے عوام کو دوبارہ آبادکاری کے لیے مالی امداد فراہم نہ کرسکے۔ نواف سلام نے حزب اللہ کے مالیاتی مراکز کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے۔
کارشناس عرب امور نے واضح کیا کہ حزب اللہ علاقائی معمالات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حزب اللہ ہی تھی جس نے داعش کے حملے کے وقت اپنے کمانڈروں کو عراق بھیجا اور حالات کو بغداد کے حق میں بدل دیا۔ یہ بھی حزب اللہ ہی تھی جو 2012ء میں شام گئی اور وہاں کے حالات کو حکومت دمشق کے حق میں موڑ دیا۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حزب اللہ جیسی سیاسی اور دفاعی طاقت کو میدان سے باہر کرنا عملی طور ناممکن ہے۔