ہر حوزہ کم از کم اپنے شہر اور صوبے کی علمی و تبلیغی ضروریات پوری کرنے میں درخشان ہونا چاہئے، آیت اللہ اعرافی
قم المقدسہ میں اجلاسیہ، حوزہ علمیہ کے سربراہان کو علمی اور تبلیغی ترقی کے لیے ہدایات

شیعیت نیوز : آیت اللہ علی رضا اعرافی نے ایران کے شہر قم المقدسہ میں مرکز مدیریت حوزہ علمیہ کے آیت اللہ حائری (رح) ہال میں امور تعلیم کے سربراہان کے دو روزہ اجلاسیہ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امام رضا علیہ السلام کے عہد ولایتعہدی کی خصوصیات کو تاریخ امامت کا ایک بالکل منفرد، بے سابقہ اور بے نظیر دور قرار دیا۔
انہوں نے کہا: امام رضا علیہ السلام کا زمانہ ولایتعہدی ایک خاص دور تھا۔ میں نے کبھی یہ تعبیر استعمال کی ہے کہ امام رضا علیہ السلام کے ظاہری ولایتعہدی کے ان دو برسوں میں مرو و خراسان میں جو کچھ رونما ہوا، اسے تاریخ امامت کا ایک منفرد اور بے مثال دور سمجھا جانا چاہئے۔ اس دور کی خصوصیات اور امتیازات دیگر تمام ادوار سے بالکل مختلف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مأمون کا اقدام تاریخ کی اموی، مروانی اور عباسی حکومتوں میں ایک نہایت پیچیدہ اور خطرناک منصوبہ تھا۔ اگر ہم رسالت کے بعد سے شروع ہونے والی "ولایت اور خلافت” کی تقابل آمیز جدوجہد کے حساس ترین مقامات کا مشاہدہ کریں تو بلاشبہ سب سے خطرناک دور مأمون کا دور اور وہی دو سالہ ظاہری ولایتعہدی ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے کہا: دیگر ادوار حتیٰ کہ عاشورا میں بھی ہمارے سامنے دو بالکل واضح نظریے تھے: ایک خلافتِ ظاہری اور غاصب، اور دوسرا امامت و ولایت الٰہی۔ یہ دونوں نظریے ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رہے ہیں۔ ان کا تعارض کبھی عسکری و فیزیکی صورت اختیار کرتا اور کبھی ثقافتی، علمی اور معرفتی قالب میں ظاہر ہوتا رہا۔
یہ بھی پڑھیں : شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں سالانہ یومِ امام حسینؑ، طلبہ و اساتذہ کی کثیر شرکت
انہوں نے تین ائمہ (امام رضا، امام تقی اور امام عسکری علیہم السلام) کے نمایاں کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان ہستیوں خصوصاً امام عسکری علیہ السلام کا سب سے اہم کارنامہ شیعہ معاشرے کو عصر غیبت کے لیے تیار کرنا تھا۔ یہ ایک بنیادی اور تقدیر ساز دور تھا جس میں اہل بیت علیہم السلام کا معاشرہ ایک بالکل نئے تجربے میں داخل ہوا، ایسا تجربہ جو صدیوں تک جاری رہنا تھا۔
آیت اللہ اعرافی نے امور تعلیم کے مسئولین کے لیے سفارشات اور تاکیدات دیتے ہوئے کہا: ہماری پالیسی بالخصوص حالیہ برسوں میں "تفویض اختیار” پر استوار رہی ہے، البتہ ایسا اختیار جو ہوشیارانہ اور ضروری نگرانی کے ساتھ ہو۔
انہوں نے کہا: ایک اہم محور شہر اور صوبائی حوزات علمیہ کی ارتقاء اور ترقی ہے۔ ہر حوزہ کم از کم اپنے شہر اور صوبے کی علمی و تبلیغی ضروریات پوری کرنے میں درخشان ہونا چاہئے۔ اس طرح پورے ملک میں معیار ساز اور ممتاز حوزات کی کثرت کا مشاہدہ ہو گا۔
مدیر حوزہ علمیہ نے قم کی بے نظیر اور ممتاز حیثیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا: اگر مجموعی طور پر حوزات علمیہ کی کامیابیوں کو دیکھیں، خاص طور پر انقلاب اسلامی کے بعد، تو قم میں جو کچھ رقم ہوا ہے یا تو بے مثال ہے یا بہت کم مثال رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا: یہ مقام و منزلت ضرور باقی رہنی چاہئے اور یہ درست پالیسی ہے لیکن اس کے نتیجے میں صوبوں اور شہروں کو بڑے علما، فقہا، مبلغین اور ماہر دینی کارکنوں سے خالی نہیں ہونا چاہئے۔