مشرق وسطی

?بحرین تنگ آمد بجنگ آمد(۲)۔۔۔۔آخری راستہ

phpThumb_generated_thumbnailjpg(ع صلاح۔ ماہر امور مشرق وسطیٰ)
ابھی چند دن قبل ہی میں اسی عنوان کے پہلے آرٹیکل میں اس بات کا امکان ظاہر کرچکا تھا کہ بحرین میں انتفاضہ شروع ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی، اسی دوران مجھے دسیوں ایسی ایمیلز موصول ہوئیں جن میں میرے اس خیال کی تائید کے ساتھ اس بات کا خدشہ پیش کیا گیا کہ مرکزی قیادت اور سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کے درمیان اختلافات بھی جنم لے سکتے ہیں اور یوں قیادت اور عوام میں اختلاف کا فائدہ جابر حکومت کے حق میں تمام ہوسکتا ہے ۔
کسی حدتک یہ خدشات درست ہوسکتے ہیں لیکن اگر کوئی بحرین کی عوام کی تاریخ کو ملاحضہ کرے تو انہیں بخوبی اس اس بات کا اندازہ ہوگا کہ قیادت اور عوام میں اگر کوئی اختلاف ہوا بھی تو وہ حکومتی ظلم و ستم کے مقابلے میں اسٹراٹیجی پر اختلاف ہوسکتا ہے جس کا مشاہدہ ہم شروع سے کرتے آئے ہیں اور اس کی ایک مثال بحرین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت الوفاق الوطنی یا بحرین نیشنل اسلامک سوسائٹی کہ جس کہ سیکرٹری جنرل علامہ علی سلمان ہیں جبکہ آیة اللہ عیسیٰ قاسم جیسی مدبر شخصیت اس پارٹی کے قائد اعلیٰ ہیںاسٹیٹ بنک اور تجارتی مراکز کے سامنے مظاہرے کے بارے میں جوانوں کے بعض فیصلوں سے اختلاف رکھتے تھے مگر یہ اختلاف صرف اختلاف رائے تک محدود تھا کیونکہ ہم نے بعد میں یہ بھی دیکھا کہ جب چودہ فروری اور شباب لوءلوءنامی جوانوںنے تجارتی مراکز کے سامنے احتجاج کیا تو الوفاق کے چھ مستعفی شدہ وزیروں نے ان مظاہروں میں شرکت کی ۔
ہم نے اپنے گذشتہ آرٹیکل میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ مرکزی قیادت اس وقت اس بات پر دباﺅ کا شکار ہے کہ تشدد کے جواب میں مقاومت کاحکم دیا جائے یا نہیں ۔
اس سلسلے میں عرب میڈیا میں جو اطلاعات آرہیں ہیں اس پتہ چلتا ہے کہ بحرینی عوامی قیادت تمام تر ظلم و
ستم کے جواب میںاب بھی مظاہروں اور ریلیوں کی اسٹراٹیجی پر قائم ہے جبکہ دوسری جانب آل خلیفہ و آل سعود کی فورسز ظلم و تشدد کی نئی داستان لکھتے جارہے ہیں اور ہر اس جائز و ناجائز وسیلے کا استعمال کرہے ہیں جس سے عوامی آواز کو دبایا جاسکے ۔
بحرینی عوام قیادت کے سامنے دو ہی راستے بچتے ہیں ڈئیلاگ یا پھر انتفاضہ ۔
ڈئیلاگ کا انہیںاس وقت کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ زمینی حقائق مکمل طور پر بدل چکے ہیں آل خلیفہ اور آل سعود زمینی طور پر اس وقت پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہیں ،عالمی سطح پر ان کے ظلم و تشدد کی مذمت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی چشم پوشی کی ہوئی ہے ،اندرونی طور پر وہ جہاں جو چاہتے ہیں کر گذر رہیں ہسپتالوں سے لیکر سکولوں تک کو انہوں نے نہیں بخشا ہے ،حکومتی ادروں کو چلانے کے لئے باہر سے کرایے کے افراد مسلسل بحرین کا رخ کررہے ہیں ۔
ایسے میں صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے ،اپنے موقف پر ڈٹ جانااور احتجاج کو انتفاضہ کی شکل دینا ایک ایسا انتفاضہ جس میں عوام ہر اس جمہوری وسیلہ کا استعمال کرتی ہے جس کے توسط سے اپنے اہداف حاصل ہوں کیونکہ بحرینی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع کا مناسب انتظام کریںاور حق کے
حصول کے لئے ہر اس کوشش کو بروئے کار لائے جو دنیا میں رائج ہے اور جس کا مشاہدہ ہم اس وقت دیگر عرب ممالک لیبیااور یمن میں کررہے ہیں اور خود بحرین میں بھی جب سترہ سٹی پرحملہ ہوا تو ایسے جوان گلی گلی میں نظر آیے جوٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے سامنے ڈٹ گئے اور پتھروں اور اپنے سینوں سے ان کا مقابلہ کیا اور متعدد جوانوں نے قربانی پیش کی ۔اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ بحرینی جوانوں میں کربلائی جذبہ موجود ہے لیکن اس جذبے کو بروئے کار لانے والی حکمت عملی نہیں جو یقینا مرکزی قیادت سے ہی مرتب ہوتی ہے اور اس میں بلاوجہ تاخیر کا سبب کم از کم ہماری سمجھ سے باہرہے دوسری جانب ہمیں اس بات بھی احساس ہے کہ عوامی قیادت ایسے صالح و سمجھدار افراد کے ہاتھ میں ہے جن پر مکمل اعتبار کیا جاسکتا ہے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خدشہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی عقل و عشق کی جنگ میں عقل سو بھیس بدل سکتا ہے جبکہ اس وقت بحرین کو عقل سے زیادہ عشق کی ضروت ہے جو آتش نمرودمیں کود پڑے
بحرین ………….تنگ آمد بجنگ آمد۔۔۔کیا انتفاضہ شروع ہوگا۔۔۔؟

متعلقہ مضامین

Back to top button