مشرق وسطی

بحرین کی انقلابی تحریک میں شیعہ اور سنی دونوں شامل

suniعرب ممالک میں آمریت اور بادشاہت کی شکل میں حکومت کی باگ ڈور جن لوگوں کے پاس ہے ان کی منطق ہی نرالی ہے اور انہوں نے ابن الوقتی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ کہیں وہ مسلمان ہیں اور کہیں عرب اور جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ خود کو سنی بناکر پیش کرتے ہیں۔
1990 کے عشرے کی ابتداء میں – جب میں بوسنیا ہرزگووینا کے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا تو – یہ سب کے سب، خود کو عرب لیگ کے اراکین چپ سادھ کر بیٹھے رہے۔
سعودی عرب کی فوج حرکت میں  آئی نہ کویت و متحدہ عرب امارات کی غیرت کو جوش آیا۔
جس وقت امریکہ اور مغرب نے سنہ 91 میں عراق کے خلاف پہلی جنگ چھیڑی تو ان ممالک نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ صدام حسین عرب بھی ہے اور سنی بھی، اپنی فوج ، فوجی اڈے اور تیل کے کنوئیں امریکیوں کے اختیار میں دے دیئے 2001 میں افغانستان پر امریکہ نے چڑھائی کی تو سعودی عرب اور متحدہ عرب مارات کی حکومتوں نے طالبان سے یوں آنکھیں پھیرلیں کہ جیسے طالبان سے ان کا کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ بالکل بھول گئے کہ طالبان سنی مسلک کے پیرو ہونے کے ساتھ ساتھ اس نظرئے کو بھی اس خطے میں پروان چڑھا رھے ہیں کہ جس کے لئے سعودی حکام نے اپنی تجوریوں کے منہ کھولے ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے جولائی 2006 میں لبنان پر 33 روزہ جارحیت کا آغاز کیا تو ان ممالک حکمرانوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ تل ابیب کو خفیہ اور اعلانیہ حمایت اور حوصلہ افزائی کے پیغام بجھوائے جانے لگے۔
اس جنگ میں انھوں نے خود کو سنی مسلک کے پیرو قرار دے کر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے عربوں کا ساتھ دینے کی بجائے اسرائیل کی ضمنی حمایت کی پالیسی اختیار کی اور شیعہ عربوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے مشترکہ دشمن اسرائیل کا ساتھ دیا۔
آمریت اور بادشاہت کی شکل میں عرب ممالک کے عوام پر مسلط ان حکمرانوں کی منافقت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب جنوری 2009میں اسرائیل نے غزہ کے محصور شہریوں کے خلاف 22 روزہ جارحیت کا آغاز کیا اور دنیا نے دیکھا کہ غزہ کے عرب اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کا اسرائیلیوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ قتل عام کیا اور دنیائے عرب کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب سمیت سارے آمر صرف تماشا دیکھتے رہے۔ [اور نہ صرف یہ بلکہ سعودی مفتیوں نے غزه کی مسلمانون کی حمایت کی لئی نکالی جانی والی ریلیون کو حرام قرار دیا اور سعودی عرب کے منطقة الشرقیہ کے شیعہ عوام نے جب غزہ کے سنی عوام کی حمایت میں جلوس نکالے تو آل سعود کی حکومت نے انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور متعدد افراد کو جیل میں بند کیا جن میں سے کئی افراد آج نک مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں رکھا گیا ہے]۔
اس 22 روزہ جارحیت کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے شہریوں کی مدد و حمایت کے لئے جو تاریخی پیغام صادر فرمایا بعض عرب ملکوں میں اس کی تقسیم پر پابندی لگادی گئی اور ایسے لوگوں کو پکڑ پکڑ جیلوں ڈالدیا گیا جو رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام تقسیم کرنا چاہتے تھے۔
یہ ہےان آمروں اور خاندانی و موروثی حکومتوں کو چلانے والے حکمرانوں کا حال ۔ ان کا کوئی مذہب ہے نہ کوئی مسلک ۔ ان کی عربیت اور اسلامیت ان کے خاندان تک محدود ہے۔
یہ اپنے خاندان سے باہر کسی کو عرب سمجھتے ہیں نہ مسلمان۔ ان کا قبلہ واشنگٹن ہے اور اوباما ان کےا امام ، یہی وجہ ہی کہ بحرین میں قائم امریکہ فوجی اڈے کو بچانے کے لئے شاہ بحرین کی مدد و حمایت کے لئے آل سعود نے بھی اپنے فوجی میدان میں اتاردیئے ہیں اور امریکی ایما پر وہاں شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
امریکہ اور سعودی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ بحرینی عوام کی تحریک کو سنی بادشاہت کے خلاف تحریک قرار دے آسانی سے دبایا جاسکتا ہے البتہ یہ ان کا خیال خام ہے اس لئے کہ شمالی افریقہ اور عرب ممالک کی طرح بحرین کے عوام بھی شاہی نظام اور اس ملک پر مسلط خاندانی حکومت سے تنگ آچکے ہیں اور جو تحریک انھوں نے شروع کی ہے وہ اب رکنے والی نہیں ہے چنانچہ اس تحریک کے ایک رہنما کی حیثیت سے عبدالرؤوف شائب نے یہ بات زور دے کر کہی کہ حکومت کے خلاف بحرین کے عوام کی تحریک ایک اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور حکومت اس تحریک کو دبانے پر قادر نہیں ہے۔
عبدالرؤوف شائب نے مزید کہا کہ حکومت بحرین کے مخالفین تشدد کے خلاف ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پرامن مظاہرے ہی بحرین کی عوامی تحریک کی اصل حکمت عملی ہے۔
واضح رہے کہ بحرین میں فروری کے مہینے سے شروع ہونے والےعوامی مظاہروں میں اب تک کم از کم چوبیس افراد جاں بحق اور تقریبا ایک ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button