عراق

سعودی عرب ہمارے داخلی امور میں مداخلت نہ کرے

zibariعراق کے وزیر خارجہ ہوشیار زیباری نے سعودی عرب کی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراقی حکومت کی تشکیل ایک داخلی مسئلہ ہے اور آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔شیعت نیوز کی رپورٹ کے مطابق ہوشیار زیباری نے کہا ہے کہ عراق موجودہ مشکلات سے نکلنے کے لیے قانونی اور عوامی اقدامات کرنے اور راستے تلاش کرنے پر قادر ہے لہذا ہمارے عرب بھائیوں خاص طور پر سعودی عرب کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بات کا احساس کرے اور وہ صرف عراقی گروہوں کو سیاسی عمل میں حقیقی شرکت کی ترغیب دلا کر عراق کے اتحاد اور استحکام میں مدد دیں۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے عراق کی سیاسی جماعتوں کو دعوت دی تھی کہ وہ عراق میں حکومت سازی کے بحران سے نکلنے کے لیے ریاض آئيں اور عرب لیگ کی نگرانی مین ایک دوسرے کے ساتھ صلاح و مشورہ کریں۔
واضح رہے کہ قومی اتحاد اور کردستان اتحاد سمیت عراق کی اکثر سیاسی جماعتوں نے سعودی عرب کے فرمانروا کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے عراق کے حالات مزید پیچیدہ ہو جائيں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عراق کی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے سعودی عرب کے بادشاہ کی تجویز ٹھکرائے جانے کےبعد العراقیہ گروہ کے رکن اور نائب صدر طارق ہاشمی جو کہ امریکی ایجنٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں نے  ایک پریس کانفرنس میں ایران پر عراق کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام لگایا ہے ۔ امریکی ایماء پر کی جانے والی پریس کانفرنس میں طارق ہاشمی نے الزام لگایا ہےکہ تہران ریاض کی تجویز کی شکست کا باعث ہے۔ یادرہے سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ نے عراقی سیاسی پارٹیوں کو دعوت دی ہے کہ وہ ریاض میں اجلاس کرکے حکومت سازی کا مسئلہ حل کریں۔ جس پر عراقی سیاسی اتحادوں نے سعودی اور امریکی گٹھ جوڑ پر مبنی اس تجویز کو مسترد کرتے ہؤے فیصلہ کیا تھا کہ سعودی درباروں میں نہیں جھکیں گے۔تاہم طارق ہاشمی نے عراق کی سیاسی پارٹیوں سے کہا ہےکہ وہ سعودی دربار میں حاضر ہوجائيں۔ طارق ہاشمی سمیت العراقیہ گروہ کے دیگر ارکان کا یہ موقف ایسےعالم میں سامنے آرہا ہےکہ عراقی پارٹیوں نے نوری المالکی کی قیادت میں حکومت بنانے پر اتفاق کرلیا ہے۔
العراقیہ کے منفی موقف کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کی کاروائيوں میں اضافہ بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے عراقی حکومت بغداد میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور ہوگئي ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہےکہ اس طرح کا پرتشدد ماحول بنانا عرب ملکوں اور ان سے وابستہ گروہوں کی جانب سے عراق کی رائے عامہ اور عراق میں سعودی عرب کے مداخلت پسندانہ کردار کی طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ۔ قابل ذکرہے عراقی گروہوں کے سامنے لبنان کے سیاسی گروہوں کا تلخ تجربہ ہے جب لبنانی گروہوں نےسعودی عرب کے شہر طائف میں اجلاس کیا تھا جس کے نتیجے میں اقلیتی گروہ اکثریت پرمسلط ہوگيا تھااسی بناپر عراقی گروہوں نے سعودی عرب میں صلاح و مشورہ کرنے کی سعودی بادشاہ کی پیش کش پوری طرح سے ٹھکرادی ہے۔ اسی اساس پر عراقی گروہوں نے تاکید کی ہےکہ وزارت عظمی نوری المالکی اور صدارت کا عھدہ کردوں کو دیا جائے گا ۔ اسی بناپر العراقیہ گروہ شکست سے دوچار ہوگيا ہے بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ العراقیہ کے بہت سے رکن نوری المالکی کی وزارت عظمی کے حامی بن گئےہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر عراق میں مداخلت کرنے کا الزام لگانا اور دہشتگردی کو بڑھاوادینا عراق میں اقلیت کو اکثریت پر مسلط کرنے کی سازش کا حصہ ہے لیکن عراق کے سیاسی گروہوں نے اس سازش کا اب تک مقابلہ کیا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر ایران پر مداخلت کا الزام لگانا اور دہشتگردی کو ہوا دینے کا مقصد عراق کے حقائق کو توڑ مروڑ کرپیش کرنا ہے ۔ عراق میں دہشتگردی اور بدامنی کےپیچھے قابض ممالک اور بعض عرب ممالک ہیں جو اس طرح اپنے اھداف حاصل کرنا چاہتےہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button