ایران

دہشتگردی آج کی دنیا کا سب سے بڑا خطرہ

hussain dhakanاسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع جنرل حسین دھقان نے آج ماسکو میں جاری سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں ختم ہوں اور ایران کے خلاف منظور کی گئي قراردادوں کو کالعدم قراردیا جائے۔ فارس نیوز کے مطابق جنرل حسین دھقان نے اس کانفرنس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی ڈاکٹرائين کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی دفاعی اسٹراٹیجی دوست ملکوں کے ساتھ رابطے قائم رکھنا ہے کیونکہ اس طرح جارحیت کا کوئي معنی نہیں رہتا لیکن اگر ایران پر جارحیت کی گئي تو اس کا نہایت شدید جواب دیا جائے گا۔ جنرل حسین دھقان نے کہا کہ ایران کی مسلح افواج پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کی حمایت کرتی ہیں۔ ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ رہبرانقلاب اسلامی کے فتوے کے مطابق ایران کی دفاعی ڈاکٹرائين میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار خواہ کیمیاوی ہوں یا ایٹمی ہوں بنانا اور استعمال کرنا حرام ہے لیکن روایتی ہتھیاروں سے اپنی دفاعی طاقت کو مستحکم بنانا اور جارحیت کے مقابل اسے ڈیٹریٹ حیثیت دینا ایک ناقابل انکار ترجیحی امر ہے۔ جنرل حسین دھقان نے کہا کہ امریکہ کی اسٹراٹیجیک غلطیوں اور فوجی نیز مالی حمایتوں کی وجہ سے دہشتگردی آج کی دنیا میں ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے لھذا اس مذموم مظہر کا مقابلہ کرنا تمام ملکوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دیگر ملکوں میں امریکہ کی مداخلت اور اس کی جانب سے آزادی، سلامتی اور جمہوریت کے بہانوں سے قانونی حکومتوں کو گرانے اور خود مختار ملکوں کو الگ تھلگ کئے جانے کا مخالف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سیاسی آزادیوں پر ڈاکہ ڈالنے کا بھی مخالف ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے جیسے کہ آج کل مصر، یوکرین ، شام اور بعض دیگر ملکوں میں ہورہا ہے۔انہوں نے کہا اس طرح کے اقدامات عالمی امن و سیکوریٹی کے لئے بنیادی خطرہ ہیں اور دہشتگردی کو بڑھاوادینے کا بنیادی سبب ہیں اور ان سے محض بحران ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے تشدد، انتھا پسندی اور دہشتگردی کا مقابلے کےعلاوہ اور کوئي چارہ نہیں ہے اور یہ ناگزیر امر ہے۔انہوں نے کہا کہ علاقائی سطح پر سیکوریٹی قائم کرنے اور تعاون بڑھانے کےلئے ناچار علاقائی ملکوں کی توانائيوں پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے ماسکو سکیورٹی کانفرنس میں مختلف ملکوں کی افواج، عالمی اداروں، اور چالیس ملکوں کے ماہرین شرکت کررہے ہیں۔ اس اجلاس میں بعض ملکوں کے وزراء دفاع اور نائب وزیر دفاع شرکت کررہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button