ایران

سیدحسن نصراللہ لبنانیوں کے لئے اللہ کی عظيم ترین نعمت ہیں :آیت اللہ علامہ مصباح یزدی

misbaرپورٹ کے مطابق امام خمینی(ع) تعلیمی و تحقیقی فاؤنڈیشن کے سربراہ، رکن مجلس خبرگان و رکن شورائے عالی عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی نے ملاقات کے آنے والے لبنانی طلبہ کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: بندوں کی تربیت اور ان کے امور کی تدبیر کے لئے خدا کی اپنی سنتیں ہیں جن میں سے عام ترین سنت امتحان و آزمائش ہے۔ ارسال رسل بھی در حقیقت آزمائش کی سنت کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ہے؛ اور یوں کہ انبیاء(ع) نے صحیح راستہ بندوں کو دکھا دیا ہے تاکہ لوگ اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ ہدایت اور گمراہی میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ 

علامہ مصباح یزدی نے کہا:
بہت سے لوگوں کا گمان ہے کہ اگر صحیح پروگرام ہو اور صحیح منتظمین بھی موجود ہوں تو وہ پروگرام قطعی طور پر نتیجہ خیز ہوگا لیکن قرآن اور قرآنی تعلیمات سے ثابت ہوتا ہے کہ بات یہ نہیں ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق بہترین پروگرام بہترین منتظمین پر اتارا گیا؛ لیکن لوگوں نے ان کی پیروی نہیں کی۔ اس امر کا روشن ترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا مقدس وجود ہے جو اپنی ذات میں اولین و آخرین کے انسانوں سے افضل و برتر ہیں اور آپ(ع) کا دین کامل ترین ہے لیکن آپ(ص) کا پروگرام کے مکمل نفاذ کے لئے ماحود فراہم نہ ہوسکا۔
انھوں نے کہا: انسان آزاد اور حر خلق کیا گیا ہے اور وہ اپنے ارادے سے اپنی راہ کا انتخاب کرتا ہے۔ جو لوگ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں وہ دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کریں گے اور جو غلط انتخاب کی وجہ سے خدا کے حکم کے برعکس غلط راستے کا انتخاب کرتے ہیں وہ دنیا میں بھی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ابدی عذاب میں مبتلا ہونگے۔
انھوں نے کہا: خدا کی دوسری سنت افراد کے حسن انتخاب میں جاری و ساری ہے؛ خداوند متعال ابتداء میں اپنی نعمتوں سے تمام انسانوں کی مدد کرتا ہے؛ خواہ وہ جنہوں نے راہ خیر کو اپنے لئے منتخب کیا ہے، یا جو شر کے راستے کا انتخاب کرکے اس پر منتخب ہوئے ہیں۔ جنہوں نے صحیح راستہ منتخب کیا اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت پر عمل کیا، خداوند متعال انہیں دوسری خاص قسم کی مددیں اور نصرتیں عطا کرتا ہے جو ان کی سعادت کا سبب بنتی ہیں؛ لیکن جنہوں نے خدا کے احکام سے متصادم راستے کا انتخاب کیا اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کی وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوتے ہیں اور خداوند متعال اس کو اسباب کے سپرد کرتا ہے۔
آیت اللہ مصباح یزدی نے مزید کہا: جب رسول اللہ(ص) مبعوث ہوئے، صرف آپ(ص) کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃالکبری سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام آپ(ص) پر ایمان لائے، اور کسی نے بھی آپ(ص) کی مدد نہیں کی اور آپ(ص) کو مسلسل بےحرمتیوں اور اذیت و آزار کا سامنا تھا؛ لیکن اسی سنت الہیہ کی بنیاد پر اللہ کی خاص مدد کے سامئے میں، آپ(ص) کے ساتھیوں کی تعداد میں تدریجاً اضافہ ہوا اور آخرکار اسلام کامیاب ہوگیا۔
حوزہ علمیہ قم میں فلسفہ و اخلاق و تفسیری کے اعلی پائے کے اس استاد نے جنگ بدر میں قلیل تعداد میں مسلمانوں کی کثیر دشمنوں پر فتح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اللہ کی نصرت کے لئے ایک قانون اور قاعدہ موجود ہے جس کو ہم نے بار بار دیکھا ہے؛ اللہ کی نصرت کی شرط تقوی، استقامت اور صبر ہے۔
انھوں نے کہا: امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کی قیادت کی برکت سے ایران کی اسلامی تحریک کی کامیابی اور امام(رح) کے ساتھیوں کی استقامت نصرت خداوندی کی نصرت الہیہ کا ایک اور نمونہ ہے؛ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ نصرت الہی کی بقاء کی شرط بھی یہ یہ ہے اس کے لئے متعینہ حالات باقی ہوں اور ان کا تحفظ کیا گیا ہو۔ بعض لوگ غلطی سے گمان کرتے ہیں کہ جب نصرت الہی حاصل ہوتی ہے، تو ہمیشہ کے لئے باقی رہتی ہے؛ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور نصرت و کامیابی اس وقت باقی رہتی ہے جب تک تقوی، استقامت اور صبر جاری اور باقی ہو۔
آیت اللہ مصباح یزدی نے کہا: باعث صد افسوس ہے کہ جن مسلمانوں نے جنگ بدر میں اللہ کی نصرتوں کا مشاہدہ کیا تھا، رسول اللہ صلوات اللہ علیہ و آلہ، کے وصال کے بعد تصور کربیٹھے کہ عزت، طاقت اور سعادت ـ جو وہ اللہ کی نصرت سے حاصل کرچے تھے ـ ہمیشہ کے لئے باقی رہے گی اور اس غفلت کے نتیجے میں وہ صحیح اسلام کے راستے سے منحرف ہوئے اور ان کی صورت حال یہ ہوئی کہ رسول اللہ(ص) کے فرزند کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ حوزہ علمیہ قم کی اساتذہ سوسائٹی کے رکن نے کہا: ایسے حالات میں سیدالشہداء (علیہ السلام) نے اپنے اور اپنے فرزندوں اور اصحاب کے خون کا نذرانہ پیش کرکے اسلام کے درخت کی آبیاری کی اور اسلام اور مسلمانوں کو اس بدبختی سے نجات دلائی جو ان کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرسکتی تھی۔
انھوں نے کہا: تاریخ میں تقوی، استقامت اور صبر کو مسلمانوں کی کامیابیوں کا اصل سبب قرار دیا اور کہا: جو کچھ حالیہ مصری انقلاب کی ناکامی کا سبب ہوا وہ یہ تھا کہ مصریوں کی توجہ اسلام اور اللہ کی نصرت کی جانب بہت کم تھی اور انھوں نے نصرت الہیہ کے بجائے دشمنوں اور مغربی طاقتوں سے امید وابستہ کررکھی تھی اور حتی وہ لوگ جو دوسروں سے کہیں زيادہ شدت و حدت سے اسلامی نعرے لگا رہے تھے انھوں نے بھی دل ہی دل میں امید کی نظریں امریکیوں کی مالی اور عسکری امداد پر لگائی ہوئی تھیں۔
آیت اللہ مصباح یزدی نے انقلاب اسلامی کی مسلسل کامیابیوں میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور رہبر معظم امام خامنہ ای کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم امام راحل(رح) کا وجود اور ان کے لائق جانشین کے وجود کو اپنے لئے عظیم ترین نعمت سمجھتے ہیں۔
انھوں نے کہا: ہماری قوم مسلمان اور اہل بیت علیہم السلام کی حبدار اور پیروکار تھی لیکن جس نے ہمیں اسلام کے حقائق سے روشناس کرایا اور ہمیں اس کی طرف جانے کی دعوت دی، وہ امام خمینی(رح) تھے اور اگر اس نعمت الہیہ کا وجود نہ ہوتا تو ہماری سطحی محبت اور اسلام کے بارے میں ہمارا سطحی تصور ہی ہماری کامیابی کی ضمانت نہيں دے سکتا تھا۔
انھوں نے کہا: ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آج وہ عظیم ترین نعمت جو لبنانی عوام کو خدا نے عطا کی ہے وہ جناب سید حسن نصراللہ جیسی شخصیت کا وجود ہے۔
انھوں نے حزب اللہ کی عظیم کامیابیوں میں سید حسن نصر اللہ کے بے مثل کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ کی سلامتی اور کامیابی اور ان کی برکتوں کے دوام و بقاء کے لئے اللہ کی بارگاہ میں دعا و التجاء ہر لبنانی اور غیر لبنانی مسلمان کا فریضہ ہے؛ اس نعمت کا شکر صرف "الحمد للہ” کا لفظی ذکر نہیں بلکہ ہمیں اسلام اور دینی تعلیمات اور اہل بیت علیہم السلام کے بلند معارف کی نسبت اپنی معرفت اور آگہی میں اضافہ کرنے اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان پر عمل کرنے کی زیادہ سے زيادہ کوشش کرنی چآہئے۔
انھوں نے آخر میں کہا: ہمیں جان لینا چاہئے کہ حتی ایک بالکل ذاتی گناہ نعمتوں کے دوام و بقاء میں منفی اثرات کا سبب ہوسکتا ہے اور کامیابیوں کے لئے آفتوں کا موجب ہوسکتا ہے؛ کیونکہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق اگر ہماری تقوی، صبر اور استقامت میں کمی آئے تو خدا کی نصرت میں بھی کمی آئے گی۔
۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button