نو منتخب ایرانی صدرحسن روحانی نے اسرائیل کو لاچار ریاست قرار دے کر اسرائیلی دھمکیاں ہنسی میں اڑا دیں
حسن روحانی نے اسرائیل کو لاچار ریاست قرار دے کرنو منتخب ایرانی صدر نے اسرائیلی دھمکیاں ہنسی میں اڑا دیں
تفصیلات کے مطابق ایران کے نو منتخب صدر حسن روحانی نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی ایران کے خلاف امریکہ سے پہلے اسرائیلی فوجی ایکشن کی دھمکیوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی دھمکیوں پر انہیں صرف ہنسی ہی آتی ہے۔ واضح رہے حسن روحانی 3 اگست کو ایرانی صدارت کا منصب سنبھالیں گے۔
ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران عراق جنگ میں حصہ لینے والے ایرانی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے روحانی کا امریکہ اور اسرائیل کا نام لیے بغیر کہنا تھا کہ “جب کچھ ممالک کہتے ہیں کہ تمام آپشنز ہمارے سامنے موجود ہیں اور جب خطے کا ایک لاچار اور ابتر ملک [اسرائیل] ایسی دھمکیاں دیتا ہے تو مجھے اس پر ہنسی آتی ہے۔”
حسن روحانی کا کہنا تھا کہ “یہودی کون ہوتے ہیں ہمیں دھمکیاں دینے والے؟۔” ان کا اصرار تھا کہ ایران کی جوابی کاروائی کی دھمکیاں ہی اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔
اسرائِلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے 14 جولائی کو ایک بار پھر ایران پر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لئے متفقہ فوجی ایکشن کی ضرورت ہے۔” نیتن یاہو نے حقارت آمیز لہجے میں نو منتخب ایرانی صدر حسن روحانی کو “بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”وہ مسکرائے گا اور ایٹم بم بنا لے گا۔”
نیتن یاہو کا یہ بھی کہنا تھا کہ “ہم امریکا سے زیادہ قریب ہیں۔ ہم زیادہ خطرے میں ہیں اور اسی لئے ہمیں ہی امریکا سے پہلے اس سوال کا جواب دینا ہو گا کہ ایران کو کیسے روکا جائے۔”
اسرائیلی وزیراعظم نے ایران کے پہلے جوہری بم بنانے کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “وہ آخری حد کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ تاہم ابھی آخری حد پار نہیں کی ہے. “وہ بم بنانے کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں یہ بات واشگاف انداز میں بتانا پڑے گی کہ انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ” اسی کا جواب حسن روحانی نے تین دن بعد ایرانی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ کی اکلوتی غیرعلانیہ جوہری طاقت ہے۔ ایران کے ساتھ کئی برسوں سے عالمی طاقتوں کا اس کے جوہری پروگرام پر جھگڑا چل رہا ہے، مغربی ممالک اور اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کا مقصد جوہری ہتھیار بنانا ہے جبکہ تہران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے۔