ایران

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سے صدر احمدی نژاد کا خطاب

iran ahmai nijadی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور غیروابستہ تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے آج بدھ کے دن (مورخہ 26 ستمبر 2011) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: میں ملت ایران کے خدمت گزار اور غیروابستہ تحریک کے رکن ممالک کے نمائندے کی حیثیت سے دنیا کے تمام ممالک کو دعوت دیتا ہوں کہ عالمی فیصلہ سازی میں مؤثر شراکت اور سنجیدہ مداخلت کا امکان حاصل کرنے کے راستے میں فعال کردار ادا کریں کیونکہ آج ڈھانچے کے لحاظ سے رکاوٹوں کے خاتمے اور عمومی اور وسیع البنیاد شراکت کو آسان بنانے کی ضرورت ماضي سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور غیر وابستہ تحریک کے سربراہ کی تقریر کا مکمل متن:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی سیدنا ونبینا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و علی جمیع الانبیاء و المرسلین۔

اللهم عجل لولیک الفرج و العافیه و النصر واجعلنا من خیر انصاره و اعوانه والمستشهدین بین یدیه۔

جناب صدر، عالیجنابان، خواتین و حضرات!
اس اجلاس میں ایک بار پھر حاضری پر خدائے بزرگ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
ہم یہاں آئے ہیں کہ تبادلہ فکے کے ذریےع انسانی برادری اور اپنی اقوام کے لئے بہتر زندگی فراہم کریں۔
میں سرزمین ایران سے، حسن و زيبائی کی سرزمین سے، علم و ثقافت کی سرزمین سے، حکمت و اخلاق غکی سرزمین اور فلسفہ و عرفان کے گہوارے سے، مہربانی اور روشنی کی سرزمین سے، حکماء، فلاسفہ، عرفاء اور ادباء کی سرزمین سے، بوعلی سینا، فردوسی، مولانا روم، حافظ، عطار و خیام و شہریار کی سرزمین سے، آیا ہوں؛ ایک عظم اور سربلند قوم کے نمائندے کی حیثیت سے، جو انسانی تہذيب کے بانیوں میں سے ہے، عالمی ورثے کی حامل ہے؛ میں ان لوگوں کا نمائندہ ہوں جو آگاہ ہیں، حریت پسند اور آزادی خواہ ہیں، صلح و آشتی اور امن و سلامتی کے خواہاں ہیں، مہربان اور گرمجوش ہیں جنھوں نے جارحیتوں اور مسلط کردہ جنگوں کی تلخی چکھ لی ہے اور استحکام و سکون کی قدر و قیمت کو بخوبی جانتے ہیں؛ اب میں دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے آپ بھائیوں اور بہنوں کے اجتماع میں حاضر ہوا ہوں تا کہ اپنے ملک کے لائق اور شائستہ عوام کی آٹھ سالہ خدمت کے دوران آٹھویں بار دنیا والوں کو بتا دوں کہ ایران کی شریف ملت، اپنے تابندہ ماضي کی طرح، عالمی تفکر رکھتی ہے اور دنیا میں امن کے فروغ اور استحکام اور و سکون کو یقینی بنانے کے لئے ہر قسم کی کوشش اور جدوجہد کا خیرم مقدم کرتی ہے اور اس کو اہم سمجھتی ہے تا ہم اس دنیا میں امن و سکون اور صلح و آشتی کا قیام، تبادلۂ فکر اور تعاون اور مشترکہ انتظام، کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
میں یہاں ہوں تا کہ اپنے ملک کے تعلیم یافتہ مردوں اور خواتین کا الہی اور انسانی پیغام محترم حاضرین اور پوری دنیا کے انسانوں تک پہنچا دوں۔ وہ پیغام جو سرزمین ایران کے خدائے سخن سعدی علیہ الرحمۃ نے اپنے دو ابیات میں بنی نوع انسان کے لئے چھوڑ رکھا ہے:

بـنـی آدم اعضـــــای یکدیگرند
که در آفرینش زیک گوهرند
چو عضوی به درد آورد روزگار
دگر عضوهــا را نمـــاند قرار
فرزندان آدم ایک دوسرے کے اعضاء و جوارح ہیں
جو خلقت میں ایک ہی گوہر سے معرض وجود میں آئے ہیں
جب زمانہ ایک عضو کو دکھ پہنچادے
دوسرے اعضاء چین سے نہیں رہ سکیں گے۔

میں نے گذشتہ سات برسوں کے دوران دنیا کو درپیش چیلنجوں اور ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کی حکمت عملی اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں اظہار خیال کیا اور آج ان ہی مسائل کا نئے زاویئے سے جائزہ لینا چاہتا ہوں۔
دنیا کے مختلف علاقوں میں فرزندان آدم علیہ السلام کے بکھر جانے سے اب تک ہزاروں برس گذر چکے ہیں؛ وہ فرزند جنھوں نے مختلف رنگوں، سلیقوں، زبانوں اور آداب کے ساتھ، زیادہ خوبصورت زندگی اور رفاہ و صلح و امن تک پہنچنے کے لئے ایک اعلیٰ ارفع ۔ بَرتَر معاشرہ تشکیل دینے کے لئے وسیع کوششیں کرتے آئے ہیں۔
شادمانی اور رفاہ تک پہنچنے کے لئے صالحین اور عدالت پسندوں نے پیہم کوششیں کی اور عام انسانوں نے بے شمار صعوبتیں جھیل لیں لیکن اس کے باوجود انسانی تاریخ تلخیوں اور ناکامیوں سے بھری پڑی ہے۔
مہربانی کرکے ایک لمحے کے لئے تصور کریں کہ:
اگر اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے کے رجحانات، بداخلاقیاں، بداعتمادیاں اور آمریتیں نہ ہوتیں اور کوئی بھی دوسرے حقوق پر دست اندازی نہ کرتا؛
اگر دولت اور کھپت کی شرح کے بجائے، انسانی قدریں سماجی شان و منزلت کا معیار ہوتیں؛
اگر آدمی کو قرون وسطی کے سیاہ دور سے نہ گذرنا پڑتا اور مقتدر قوتیں علم و سائنس اور تعمیری افکار کے پھلنے پھولنے میں رکاوٹ نہ بنتیں۔
اگر صلیبی جنگیں اور غلامی (Slaveholding) اور نوآبادیاتی نظام دنیا میں رائج نہ ہوتا اور اس سیاہ دور کے وارث اس راستے کے تسلسل میں انسانی معیاروں کے مطابق عمل کرتے؛
اگر یورپ میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں نہ ہوتیں اور کوریا اور ویٹنام کی جنگیں نہ ہوتیں، اگر افریقہ اور لاطینی امریکہ اور بلقان میں جنگیں نہ لڑی جاتیں اور فلسطین پر قبضے اور فلسطین پر ایک جعلی ریاست مسلط نہ کی جاتی اور اس سرزمین کے ملینوں انسانوں کو قتل عام نہ کیا جاتا یا خانہ و کاشانہ چھوڑنے مجبور نہ کیا جاتا؛ دوسری عالمی جنگ کے حقائق کو آشکارا بیان کیا جاتا اور عدل و انصاف پر عمل کیا جاتا؛
اگر ایران پر صدام کی جارحیت نہ ہوتی اور دنیا کی جابر اور غنڈہ گرد طاقتیں صدام کی حمایت کے بجائے ایرانی قوم کے حقوق کی حمایت کرتیں؛
اگر گیارہ ستمبر کا تلخ واقعہ اور افغانستان و عراق پر لشکرکشی اور ملینوں انسانوں کو قتل یا بے گھر نہ کیا جاتا اور امریکہ اور دنیا کے باسیوں کو اطلاع دیئے اور مقدمہ چلائے بغیر "ایک ملزم” کو قتل کرکے سمندر میں پھینکنے کے بجائے، ایک حقیقت تلاش کرنے والا مستقل گروپ تشکیل دیا جاتا اور اس حادثے اور واقعات میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے اور سزا دینے کی کیفیت سے عالمی رائے عامہ کو اس گروہ کے ذریعے آگاہ کیا جاتا؛
اگر پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سہارا نہ لیا جاتا؛
اگر ہتھیار قلم میں تبدیل ہوتے اور فوجی اخراجات کو انسانوں کی فلاح اور اقوام کے درمیان دوستی کے لئے خرچ کیا جاتا؛
اگر قومی، لسانی اور مذہبی اختلافات کو ہوا نہ دی جاتی اور ان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر ان سے ناجائز سیاسی اور معاشی اہداف تک پہنچنے کے لئے استفادہ نہ کیا جاتا؛
اگر جھوٹی حریت پسندی کے بھیس میں انسانوں کے مقدسات اور انبیائے الہی ـ جو پاک ترین انسان اور خداوند متعال کی طرف سے انسانوں کے لئے عظیم ترین تحائف ہیں ـ کی توہین کے مواقع فراہم نہ کئے جاتے، اور تسلط پسندانہ پالیسیوں اور عالمی صہیونیت کے اقدامات پر تنقید کی اجازت دی جاتی اور دنیا کے تشہیراتی جال (میڈیا نیٹ ورکس) استقلال اور آزادی کے ساتھ حقائق کی نشرواشاعت کرسکتے؛
اگر سلامتی کونسل صرف چند ہی حکومتوں کے زير تسلط نہ ہوتی اور اقوام متحدہ منصفانہ عمل کرسکتی؛
اگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو دباؤ کا سامنا نہ ہوتا اور وہ منصفانہ، ماہرانہ اور پیشہ ورانہ عمل کرسکتے؛
اگر دنیا کے سرمایہ دار اپنے مفاد کے لئے اقوام کی معیشتوں کو کمزور نہ کرتے اور اپنی غلطیوں کی تلافی کے لئے اقوام کو قربانی کے بھینٹ نہ چڑھاتے؛
اگر بین الاقوامی تعلقات پر صداقت کی حکمرانی ہوتی اور تمام قومیں اور حکومتیں یکسان حقوق سے بہرہ مند ہوکر عالمی امور میں آزادانہ شراکت کرسکتیں اور انسانی سعادت کے لئے کردار ادا کرسکتیں؛
اور المختصر یہ کہ اگر درجنوں نا مطلوب اور ناگوار واقعات انسانی زندگی ميں رونما نہ ہوتے اور موجود نہ ہوتے، تصور کریں کہ کتنی خوبصورت ہوتی زندگی، اور کتنی ہردلعزیز ہوتی انسانی تاریخ؟!
آیئے دنیا کی موجودہ حالت پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
الف): معاشی صورت حال
غربت اور طبقات کے درمیان فرق و فاصلہ، مسلسل بڑھ رہا ہے۔
دنیا کے صرف 18 صنعتی ممالک کا مجموعی بیرونی قرضہ 60 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے؛ حالانکہ اگر اس میں نصف قرضہ لوٹا دیا جائے (اور ادا کیا جائے) تو قدرتی وسائل کی حامل ممالک اور پوری دنیا میں غربت کی بیخ کنی ہوگی۔
صارفیت (Consumerism) اور انسانوں کے استحصال کے سہارے قائم معیشت، صرف معدودے چند ممالک کے فائدے پر منتج ہوئی ہے۔
طاقت اور عالمی معاشی مراکز پر تسلط کے سہارے کاغذی اثاثوں کی تخلیق، تاریخ کی سب سے بڑی بدعنوانی اور عالمی معاشی بحران کے اسباب میں سے ایک ہے۔
اطلاعات کے مطابق، صرف ایک ہی حکومت نے 32 ٹریلین کاغذی اثاثے یا کاغذی دولت (Paper Assets OR Paper Wealth) تیار کی ہے۔
سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی منصوبہ بندی برائے ترقی، بند حلقے میں حرکت، غیر تعمیری اور تباہ کن مسابقت کا موجب بنی ہے اور عمل کے میدان میں ناکام ہوچکی ہے۔
ب): ثقافتی صورت حال
اخلاقی مکارم (نیکیاں)، جوانمردی، پاکیزگی، صداقت، مہربانی اور فداکاری عالمی طاقت کے مراکز پر مسلط سیاستدانوں کے نزدیک رجعت پسندانہ، قدامت پسندانہ مفاہیم ہیں جو ان کے اہداف کی پیشرفت میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں اور باضابطہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ وہ سیاسی اور سماجی تعلقات میں اخلاق کی حاکمیت پر یقین نہيں رکھتے۔
روایتی اور مقامی ثقافتیں ـ جو مقامی اور روایتی ثقافتیں ـ جو کہ انسانوں اور ملتوں کی صدیوں کی کوششوں اور مشترکہ جمالیاتی رجحانات کی بنا پر معرض وجود میں آئی ہیں اور عالمی برادری کی رنگا رنگی اور ثقافتی نشاط اور تحرک کا سبب ہیں آج یلغاروں کا شکار ہوکر زوال پذیر ہوچکی ہیں۔
قوموں کے تشخص کی منظم انداز سے تخریب و تذلیل ہورہی ہے اور ایک خاص روش سے ایک بے تشخص فردی اور معاشرتی زندگی اقوام عالم پر مسلط کی جارہی ہے۔
خاندان اور گھرانہ ـ جو انسان سازی کا سماجی مرکز ہے اور دنیا میں عشق و انسانیت کے فروغ کا مرکز ہے ـ کمزور کیا گیا ہے اور اس کا تعمیری کردار روبہ زوال ہے۔
عورت کی شخصیت اور اس کا مرکزی کردار ـ جو ایک آسمانی موجود اور اللہ کے جمال اور مہربانی کا مظہر اور معاشرے کے استحکام کا ستون ہے ـ طاقت اور دولت کے بعض مالکوں کی طرف سے غلط استعمال کے باعث شدید صدموں اور نقصان سے دوچار ہوچکا ہے۔
انسانوں کی روح مکدر اور اداس اور انسانوں کی حقیقت کی توہین ہوئی ہے اور وہ مردہ ہوچکی ہے۔
ج): سیاست اور سلامتی کی صورت حال
یک رخا نظام (Unilateralism) اور ایک سے زیادہ معیارات (Multiple Standards) اور جنگیں اور بدامنیاں ٹھونسنا اور معاشی مفادات یا حساس عالمی مراکز پر مسلط ہونے کے لئے ممالک پر جارحیت اور قبضہ، عام سے بات ہے۔
مسلط قوتوں کی طرف سے ملکوں کو ہتھیاروں کی دوڑ اور ایٹمی و بڑی سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے حملہ کرنے کی دھمکیاں، رائج الوقت رجحان ہے۔ کہیں زيادہ خطرناک اور تباہ کن الٹرا ماڈرن ہتھیاروں کے تجربات، اور ایسے ہتھیاروں کی تیاری اور مناسب وقت پر ان ہتھیاروں کو منظر عام پر لانے کی اعلانیہ دھمکیاں، اقوام عالم کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں استعمار کے نئے دور کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرنے کے حوالے سے نئے ادب (New Literature) میں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایران کی عظیم قوم پر بےتہذیب صہیونیوں کے فوجی حملے کی دھمکیاں، اس تلخ حقیقت کا واضح نمونہ ہیں۔
عالمی تعلقات پر بداعتمادی کی روح حکم فرما ہے اور اختلافات و منازعات کو حل کرنے کے لئے قابل اعتماد اور منصف مرجع کا فقدان ہے اور حتی ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھنے والے ممالک بھی امن محسوس نہیں کررہے ہیں۔
د): ماحولیات کی صورت حال
حیاتیاتی ماحول ـ جو ایک مشترکہ انسانی سرمایہ اور انسانی بقاء کا بستر ہے اور اس کا تعلق پوری انسانیت سے ہے ـ کو، ضرورت سے زیادہ کا مطالبہ کرنے والی غیرذمہ دار اور لاپروا قوتوں ـ بالخصوص عالمی سرمایہ داروں ـ کی بوالہوسی اور تجاوز و دست اندازی کی وجہ سے وسیع پیمانے پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے؛ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج خشک سالی، سیلاب اور زلزلوں نے انسانی حیات کو سنجیدگی خطروں میں ڈال دیا ہے۔
عزیز دوستو! آپ دیکھ رہے کہ بعض شعبوں میں ترقی کے باوجود حضرت آدم (علیہ السلام) کے فرزندوں کی خواہشیں ابھی تک پایۂ تکمیل تک نہیں پھنچ سکی ہیں۔
کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ موجودہ نظام انسانی برادری کو سعادت اور خوش بختی کا تحفہ دے سکے گا؟
سب موجودہ صورت حال اور دنیا پر مسلط بین الاقوامی نظام سے ناراض اور اس کے مستقبل سے ناامید ہیں۔
عزیز ساتھیو!
یہ صورت حال انسانوں کے شایان شان نہیں ہے اور خداوند حکیم و مہربان، جو تمام انسانوں سے محبت کرتا ہے، نے اس صورت حال کو پسند نہيں فرمایا ہے۔ اللہ نے انسان سے ـ جو کہ برترین اور بالاترین مخلوق ہے ـ تقاضا فرمایا ہے کہ وہ روئے زمین پر عدل و انصاف اور وقار پر مبنی بہترین اور خوبصورت ترین زندگی کا نظام برپا کرے۔
پس ہمیں چارہ کار تلاش کرنا چاہئے۔
حوادث اور واقعات کے ذمہ دار کون ہیں اور ان کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟
بعض لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ موجودہ صورت حال کو معمول کے مطابق اور طبیعی صورت حال اور اللہ کی مشیت قرار دیں اور برائیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری اقوام عالم پر عائد کریں۔
کہتے ہیں:
یہ اقوام عالم ہی ہیں جو امتیازی رویوں اور ظلم و ستم کو قبول کرتی ہیں۔
یہ اقوام عالم ہی ہیں جوآمریتوں اور جبر اور ضرورت سے زیادہ مانگنے والوں کی زيادہ طلبی کو تسلیم کرتی ہیں۔
یہ اقوام عالم ہی ہیں جو استکباری عزائم اور توسیع پسندیوں کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہیں۔
یہ اقوام عالم ہی ہیں جو طاقت کے حامل ٹولوں کے تشہیری ہتھکنڈوں کا اثر قبول کرتی ہیں اور بالآخر یہ کہ جو مصیبتیں عالمی برادری پر نازل ہوتی ہیں اس لئے ہیں کہ اقوام عالم کا رویہ منفعلانہ (Passive) ہے اور وہ خود تسلط پذیر ہیں۔
یہ ان لوگوں کا استدلال ہے جو اقوام عالم کو مورد الزام ٹہرا کر دنیا پر مسلط اقلیت کے نہایت تباہ کن اور بھونڈے کرتوتوں کے لئے جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ دعوے حتی اگر درست بھی ہوتے پھر بھی بین الاقوامی ظالمانہ نظام کے کو جاری رکھنے کے لئے جواز فراہم نہيں کرسکتے تھے۔ اور پھر حقیقت یہ ہے کہ غربت اور ناداری و کمزوری اقوام ملت پر مسلط کی گئی ہے اور یہ سب کبھی مکر و فریب اور کبھی ہتھیاروں کے زور پر ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ [چنانچہ اس میں اقوام عالم کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا تصور غلط ہے]۔
وہ اپنے انسان دشمن اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لئے، "اعلی نسل کے انسانوں” کی "جنگ برائے بقاء” کا نظریہ رائج کرتے ہیں۔
حالانکہ اصولاً اور معمول کے مطابق حکومتیں اور انصاف پسند عوام، حق کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں عزت و عظمت اور رفاہ نیز تعمیری تعامل (Constructive Interaction) کی تلاش میں ہیں۔
عام لوگ کبھی بھی کشور کشائی اور افسانوی دولت کمانے کے درپے نہيں رہی ہیں۔ ان کے درمیان کسی قسم کے اصولی اختلافات نہیں پائے جاتے اور تاریخ کے تلخ واقعات میں انھوں نے کبھی بھی کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہيں کیا ہے بلکہ خود واقعات کا شکار ہوئے ہیں۔
مجھے یقین نہيں ہے کہ مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو اور بدھ عوام کے درمیان کوئی خاص مسئلہ ہوگا؛ وہ بڑی آسانی سے آپس میں بےتکلف ہوجاتے ہیں اور دوستانہ ماحول میں جیتے ہیں اور سب پاکیزگی، عدل و انصاف اور محبت کے خواہاں ہیں۔
اقوام عالم کے عمومی مطالبات اور رجحانات کا نتیجہ ہمیشہ مثبت اور ان سب کا نقطہ اتصال شاندار الہی اور انسانی رجحانات تھے اور ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ …
حق تو یہ ہے کہ تاریخ کے تلخ واقعات اور آج کی ناگوار صورت حال کے کا ذمہ دار دنیا پر مسلط نظام اور اپنا دل شیطان کے سپرد کرنے والے عالمی مدعی اور صاحبان طاقت، ہیں۔
وہ نظام جس کی جڑیں غلام پروری (Slaveholding) اور قدیم و جدید نوآبادیات و استعمار میں پیوست ہیں، غربت، بےراہروی، بدعنوانی، جہل اور تباہی اور پوری دنیا میں ظلم و جبر اور امتیازی پالیسیوں کا ذمہ دار ہے۔
آج کی دنیا پر مسلط نظام و انتظام کی بعض خصوصیات ہیں جنہیں توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان خصوصیات میں سے بعض کچھ یوں ہیں:
اول: یہ نظام مادی تفکر پر استوار ہے اسی لئے اخلاقی اقدار کا پابند نہيں ہے۔
دوئم: تکبر، نفرت، فریب اور عداوت فروری کی بنیاد پر قائم ہے۔
سوئم: انسانوں کی درجہ بندی، بعض اقوام کی توہین، دوسروں کے حقوق کی تضییع اور تسلط پسندی کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔
چہارم: تسلط پسندی کو فروغ دینے اور مختلف اقوام اور ملتوں کے درمیان تفرقہ کو شدت دینے کے درپے ہے۔
پنجم: طاقت، دولت اور سائنس و ٹیکنالوجی کو ایک چھوٹے گروہ میں منحصر کرنے کے درپے ہے۔
ششم: دنیا میں طاقت کے اصلی مراکز میں سیاسی تنظیم سازی تسلط پسندی اور دوسروں پر مسلط ہونے کے ادبیات پر استوار ہے۔ یہ تمام مراکز امن و صلح اور انسانوں کی خدمت کے لئے نہیں بلکہ طاقت کے حصول کے لئے تشکیل ديئے گئے ہیں۔
کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ انسانوں کی خدمت کے لئے کروڑوں ڈالر انتخابی مہم میں خرچ کرسکتے ہیں؟ عالمی سرمایہ دار ممالک کے بڑی سیاسی جماعتوں کے گماں میں "انتخابی اخراجات در حقیقت ایک قسم کی سرمایہ کاری” ہے۔
عوام ان ملکوں میں جماعتوں کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں، حالانکہ عوام کی بہت تھوڑی سی تعداد سیاسی جماعتوں کی رکنیت رکھتی ہے۔
عام آدمی کی رائے و نظر ـ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور یورپ میں ـ داخلہ اور خارجہ شعبوں میں میں اہم اور مسلسل فیصلہ سازیوں میں کم از کم کردار بھی ادا نہیں کرتا یہاں عوام کی صدا کہیں بھی سنائی نہیں دیتی خواہ وہ ان معاشروں کی 99 فیصد آبادی کو ہی تشکیل دیتے ہوں۔
انسانی اور اخلاقی اقدار ووٹ کمانے کی نذر ہوجاتی ہیں اور عوامی مطالبات کی طرف توجہ، انتخابات کے ایام میں، محض تشہیری اوزار میں بدل گئی ہے۔
ہفتم: دنیا پر مسلط نظام امتیازی پالیسیوں اور ناانصافی کی بنیا پرقائم کیا گیا ہے۔
محترم دوستوں اور ساتھیو!
سوال یہ ہے کہ کرنا کیا چاہئے اور اس صورت حال سے نکلنا کا راستہ کونسا ہے؟
اس میں شک نہیں ہے کہ دنیا کو نئی سوچ اور نئے نظام کی ضرورت ہے؛ ایسا نظام جو:
1۔ انسان اس میں اللہ کی برترین مخلوق کی حیثیت سے مادی اور معنوی رفاہ و فلاح سے بہرہ مند ہو اور فطرت الہیہ ـ یعنی حق طلبی اور انصاف خواہی ـ کے مالک وجود کے عنوان سے تسلیم کیا جائے۔
2۔ انسانوں اور اقوام کی تحقیر اور درجہ بندی کے بجائے انسانی کرامت و عظمت اور انسان کی پامال ہونے والی حرمت و کمال و عمومی سعادت کا احیاء کی ضمانت فراہم کرے۔
3۔ عالمی نگاہ سے پوری انسانی برادری کے لئے ، پائیدار صلح و امن اور رفاہ و فلاح کے درپے ہو۔
4۔ بنی نوع انسانی پر اعتماد و محبت کی بنیاد پر اور افکار قلوب اور ہاتھوں کو قریب تر کرنے اور انسانوں کے درمیان موجودہ فاصلوں کے خاتمے کی بنیاد پر قائم ہو؛ حکمران، عوام کے عاشق ہوں۔
5۔ انصاف و قانون سب کے لئے ہو اور تمام انسانوں کو ایک سطح پر فرض کیا جائے اور قانون کے سامنے یکسان اور اس لحاظ سے معیار ایک ہی ہو۔ [دوہرے معیار کی نفی]۔
6۔ دنیا پر حاکم منتظمین اپنے آپ کو عوام کے خادم اور ان سے کئے ہوئے عہد کے پابند ہوں نہ کہ وہ عوام سے افضل و برتر ہوں۔
7۔ حکومت و انتظام حکام و منتظمین کے پاس عوام کی مقدس امانت ہے چنانچہ اس کو دولت اور طاقت کے حصول کا وسیلہ نہ سمجھا جائے۔
جناب صدر، خواتین و حضرات!
اس طرح کا نظام کیا عالمی انتظام میں تمام انسانوں کی شراکت کے بغیر ممکن ہوسکتا ہے؟
ظاہر ہے کہ جس دن حکومتوں اور قوموں کی سوچ آفاقی ہوگی اور مذکورہ بالا اصولوں کی پابندی کے ساتھ اہم عالمی مسائل کے حوالے سے ذمہ داری محسوس کریں گی اور عالمی فیصلہ سازیوں میں کردار ادا کرنے کے کا اہتمام کریں گی، خواہشوں اور آرزؤوں کو عملی جامہ پہننے کی فرصت مل جائے گی۔
آگہیوں کی سطح بلند ہوگی تو مشترکہ عالمی انتظام کے مطالبے میں شدت آئے گی تو اس کے نتیجے میں ان خواہشوں پر عملدرآمد کے مواقع میں روز بروز اضآفہ ہوگا۔
آج ملتوں اور اقوام کا دن ہے اور ان کی خواہش اور ارادہ کل کی دنیا کے تعین کا ضامن ہے۔
چنانچہ بجا ہوگا کہ ہم سب مل کر:
1۔ خداوند متعال پر توکل کریں اور پوری قوت سے ضرورت سے زیادہ کا مطالبہ کرنے والی عالمی اقلیت کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں اور ان سے اقوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار سلب کیا جائے۔
2۔ ہم اللہ کی رحمت کی بارش پر یقین کریں جس کو انسانی معاشروں کی وحدت اور یکجہتی میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اقوام عالم اور ان کے آزاد عزم و ارادے سے تشکیل پانے والی حکومتوں کو اپنی بے انتہا صلاحیتوں پر یقین کرلینا چاہئے اور انہیں جان لینا چاہئے کہ کہ خوداعتمادی کی برکت سے ـ غیرمنصفانہ نظام کے خلاف جدوجہد اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں وہ کامیاب ہیں۔
3۔ [ہم] تمام شعبوں میں مستقل اور پیشہ ور اداروں کے دائرے میں عدل و انصاف پر اصرار، وحدت اور دوستی کی تقویت اور معاشی، ثقافتی اور سیاسی تعاملات (Interactions) کے ساتھ مشترکہ عالمی انتظام میں شراکت کو یقینی بنائیں۔
4- اقوام متحدہ کی ساخت اور ڈھانچے کی ـ تمام اقوام عالم کے مفادات مصلحت عالم پر مبنی ـ اصلاح، مشترکہ اور ہمآہنگ کوششوں کو منظم کریں۔ اس نکتے کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کا تعلق پوری دنیا کی قوموں سے ہے اسی بنا پر رکن ممالک کے درمیان امتیاز کا قائل ہوجانا، اقوام عالم کی توہین ہے۔ اس ادارے میں امتیازی رویئے اور انحصارپسندی کسی صورت میں اور کسی بھی عنوان سے قابل قبول نہيں ہے۔
5۔ اور بالآخر یہ کہ ہم سب ـ عشق اور آزادی اور ان کے قیام کی ضرورت کی بنیاد پر ـ مشترکہ عالمی انتظام کے لئے ادبیات کی تخلیق اور ضروری ڈھانچوں کے قیام کے لئے زيادہ سے زیادہ ہمآہنگ کوششیں کریں۔ مشترکہ عالمی انتظام عالمی سطح پر پائیدار امن کا ضامن ہے۔
غیروابستہ تحریک ـ اقوام متحدہ کی جنرل کے بعد دنیا کی دوسری بڑی تنظیم کی حیثیت سے ـ عالمی انتظام کے اہتمام کی اہمیت کا ادراک کرتی ہے اور اس تحریک نے ـ آج کی دنیا میں وسیع بحرانوں اور مشکلات میں غلط انتظام کے کردار کو پوری طرح سمجھتے ہوئے ـ تہران میں اپنے سولہویں اجلاس کو "مشترکہ عالم انتظام” کے عنوان سے منعقد کیا۔
یہ اجلاس دنیا کے 120 ممالک کے سربراہان اور نمائندوں کی پرنشاط موجودگی میں منعقد ہوا اور عالمی مسائل کے انتظام و انصرام میں تمام ملتوں کی فعال اور سنجیدہ شراکت پر تاکید کی گئی۔
خوش قسمتی سے ہم اس وقت تاریخ کے اہم موڑ سے گذر رہے ہیں۔ ایک طرف سے مارکسی نظام رخت سفر باندھ کر دنیا کے انتظام کے منصب چھوڑ کر چل بسا ہے اور دوسری طرف سے سرمایہ دارانہ نظام بھی اس دلدل میں پھنس چکا ہے جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھی، اور یہ نظام موجودہ معاشی ب، سیاسی، سیکورٹی اور ثقافتی حرانوں سے نکلنے کے لئے ضروری صلاحیتوں سے تقریبا محروم ہوچکا ہے اور عملی طور پر عالمی انتظام میں انتظامی تدبیر کے حوالے سے بند گلی میں پھنس چکا ہے۔
غیروابستہ تحریک کا یہ اعزاز ہے کہ وہ ایک بارے پھر اپنے تاریخی فیصلے کی درستگی اور طاقت کے قطبوں کی نفی اور مذکورہ بےلگام نظامات کو دھتکارنے پر تاکید کرتی ہے۔
اب میں غیروابستہ تحریک کے رکن ممالک کے نمائندے کی حیثیت سے دنیا کے تمام ممالک کو دعوت دیتا ہوں کہ عالمی فیصلہ سازی کے مؤثر شراکت داری اور سنجیدہ مداخلت کے لئے ماحول بنانے کے سلسلے میں زيادہ سرگرم کردار ادا کریں۔ ڈھانچے اور ساخت کے حوالے سے موجودہ رکاوٹوں کو ہٹانے اور عمومی شراکت داری کو آسان بنانے کی ضرورت ماضی سے کہیں زيادہ شدت سے محسوس ہورہی ہے۔
اقوام متحدہ ضروری افادیت سے بہرہ مند نہيں ہے اور اس سلسلے کو جاری رکھنا، اقوام عالم کے دفاع کے سلسلے میں، دنیا کے باسیوں کی امیدوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اور یوں جس قدر کہ اقوام متحدہ کا رتبہ و اعتبار گھٹتا جائے گا، یہ مسئلہ بین الاقوامی تعامل (Interaction) اور عالمی اجتماعی تعاون کو مخدوش کرسکتا ہے۔
اقوام متحدہ عدل و انصاف کے فروغ اور تمام اقوام اور انسانوں کے حقوق کے حصول کے لئے تشکیل پائی ہے، عملی حوالے سے اپنے اندر امتیازی رویوں میں مبتلا ہوچکی ہے اور اسی تنظیم نے پوری دنیا پر ایک چھوٹے سے گروہ کے ظلم و ستم کا راستہ ہموار کیا ہے اور یوں اس نے اپنی عدم افادیت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ ویٹو اختیارکی موجودگی اور سلامتی کونسل میں طاقت کا انحصار، حق کے نفاذ کے امکان کو محدود اور اقوام کے حقوق کے تحفظ کی اہلیت کو کمزور کرچکا ہے۔
جس طرح کہ کہا گیا، اقوام متحدہ کے ڈھانچے کی اصلاح ایک اہم ضرورت ہے جس پر اقوام عالم کے نمائندوں نے بار بار تاکید کی ہے لیکن ان کی تاکیدات پر عملدرآمد نہيں ہوسکا ہے۔
میں جنرل اسمبلی کے محترم اراکین اور جناب سیکریٹری جنرل اور ان کے رفقائے کار سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ اصلاحات کے موضوع کو سنجیدگی سے اپنے ایجنڈے میں جگہ دیں اور اصلاحات کے نفاذ کے لئے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔
غیروابستہ اجلاس اس اہم موضوع میں اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔
جناب صدر، محترم دوستو اور ساتھیو!
پائیدار امن اور صلح کا نفاذ اور پوری انسانیت کے لئے سعادتمندانہ زندگی کی فراہمی، اگرچہ بہت بڑا اور اہم موضوع ہے تاہم یہ بالکل ممکن ہے۔ خداوند مہربان ہمیں اس کام کی انجام دہی میں تنہا نہيں چھوڑے گا اور اس نے اس کو حتمی الوقوع (ضرور ہونا والا کام) قرار دیا ہے کیونکہ اس کا عدم امکان حکمت کی منافی ہے۔
امام مہدی علیہ السلام آرہے ہیں
اللہ نے وعدہ دیا ہے کہ رحمت و مہربانی کی نسل سے ایک مرد، جو لوگوں سے محبت کرتا ہے، عدل و انصاف کا مطلق مروج اور انسان کامل ہے۔
حضرت مہدی علیہ السلام حضرت مسیح علیہ السلام اور دوسرے صالحین کے ہمراہ، آرہے ہیں اور تمام ملتوں اور اقوام کے لائق اور شائستہ مردوں اور عورتوں کی وجودی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر، انسانی برادری کو باشکوہ اور جاودانہ اہداف تک پہنچنے کے لئے راہنمائی فراہم کریں گے۔
نجات دہندہ کا ظہور ایک نئے آغاز، نئی ولات اور ایک بار پھر زندہ ہونے، سے عبارت ہے۔ پائیدار امن و صلح کے قیام اور حقیقی زندگی کا دوبارہ آغاز ہے۔
ان کا آنا ظلم، بداخلاقی، غربت، امتیازی رویوں کا خاتمہ اور عدل و انصاف اور عشق و یکدلی کا آغاز ہے۔
وہ آرہے ہیں تا کہ انسان کی حقیقی بالیدگی اور نشوونما اور حقیقی اور پائیدار نشاط اور شادمانی کا آغاز ہوجائے۔
وہ آرہے ہیں تا کہ جہل، خرافات کے پردوں کو ہٹا دیں اور علم و آگہی کے دروا‌زے کھول دیں، دانائی اور علم سے سرشار دنیا کو برپا کردیں اور عالمی انتظام میں تمام انسانوں کی فعال شراکت داری کے لئے اسباب اور ماحول فراہم کریں۔
وہ آرہے ہیں تا کہ دنیا کے تمام انسانوں کو امید، آزادی اور عظمت و کرامت کا تحفہ عطا فرمائیں۔
وہ آرہے ہیں تا کہ انسان، انسان ہونے کا دلکش ذائقہ اور انسان کے ساتھ رہنے کا شہد چکھ لے۔
وہ آرہے ہیں تا کہ ہاتھ خلوص کے ساتھ ہاتھوں میں ہہے، دل ایک دوسرے کی محبت سے سرشار ہوں، اور پاک و ہم آہنگ افکار ایک دوسرے سےکے کندھے سے کندھا لگائے، بنی نوع انسانی لئے امن و سکون اور فلاح و رفاہ اور انسانی برادری کی سعادت کے لئے خالصانہ انداز سے کام کریں۔
وہ آرہے ہیں تا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے سیاہ فام و سفیدفام اور زردفام و سرخ فام بچوں کو ایک تاریخ بھر جدائی کے بعد ایک بار پھر اپنے گھر میں لوٹا دیں اور ان کا ذائقہ جاودانہ وصال کی شیرینی سے میٹھا کردیں۔
نجات دہندہ اور مسیح (علیہماالسلام) اور ان کے صالح ساتھیوں کا ظہور ـ جنگ اور طاقت کے استعمال کے بغیر، صرف اور صرف افکار کی بیداری، سب میں مہر و محبت کے فروغ کے ذریعے سے آگہی اور آزادی کے روشن اور بےغروب سورج کے طلوع کے ساتھ، بنی نوع انسانی کے سدا روشن مستقبل، کا تعین کرے گا اور دنیا کے ٹھنڈے اور منجمد جسم میں جوش و ولولہ پیدا کریں گے۔ وہ بنی نوع انسان اور عالم انسانیت کو بہار کا تحفہ عطا فرمائیں گے۔ وہ خود "بہار” ہیں اور تشریف لا کر "جہل، غربت اور جنگ” کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانی وجود کے طویل موسم سرما کا خاتمہ کریں گے اور انسان کی بالیدگی اور شکوہ و جلال کے موسم کی نوید دیں گے۔
اب انسانوں کی بہار کی خوشبو اور روح انگیز نسیم کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ بہار جس کا اب آغاز ہی ہے اور جو کسی خاص قوم و نسل و علاقے یا ملک کے لئے مختص نہيں ہے اور بہت جلد ـ ایشیا میں، یورپ اور افریقہ میں اور حتی کہ امریکہ میں تمام سرزمینوں پر ـ چھا جائے گی۔
وہ تمام انصاف پسندوں آزادی خواہوں اور انبیائے الہی کے پیروکاروں کی بہار ہے۔ وہ انسان کی بہار ہے اور زمان و دوران کی خوشی وخرمی ہے۔
آیئے ہم سب مل کر ان کے آنے کی راہ پر یکدلی اور تعاون نیز وحدت آفرین اور سکون بخشنے والا طریقہ کار وضع کرکے، راستہ کھول دیں اور ان کے وجود کے فیض سے انسانوں کی پیاسی جانوں کو سیراب کریں
زندہ باد بہار، زندہ باد بہار اور پھر بھی زندہ باد بہار

متعلقہ مضامین

Back to top button