ایران

امریکی مفکر: ایران عالمی بیداری کی قیادت سنبھالے

iran ijlasقائدین ادیان عالم کی پارلیمان کے سیکریٹری جنرل نے کہا: ایک جنگ کا تصور مجھے خوفزدہ کررہا ہے اور ہم اپنی اس عالمی تنظیم میں دینی سفارتکاری کے درپے ہیں۔ ادیان کے راہنماؤں کو اٹھ جانا چاہئے اور دنیا کو درپیش تناؤ سے نکلنے کے لئے چارہ کار ڈھونڈ لیں۔ عالمی ادیان کے راہنما ایک ایسی حکمت عملی وضع کرسکتے ہیں جس پر عمل کرکے دنیا کو تشدد سے نکالا جاسکتا ہے۔
 رپورٹ کے مطابق تہران میں کل (بروز اتوار) ادیان عالم اور بیداری کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرس کا آغاز ہوا اور اس کے افتتاجی سیشن میں تین دانشوروں اور مفکرین نے خطاب کیا۔
افتتاحی تقریب کے تیسرے مقرر قائدین ادیان عالم کی پارلیمان کے سیکریٹری جنرل "ڈاکٹر باوا جین” تھے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے آغاز پر اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنے دلی تعلق کا اظہار کیا اور کہا: اگرچہ میں ہندوستان میں پیدا ہوا اور امریکہ میں پروان چڑھا لیکن میرے آباء و اجداد ایرانی تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران دو حوالوں سے منفرد ہے:
1۔ یہ ملک کبھی بھی براہ راست مغربی نوآبادیاتی نظام کے زير تسلط نہیں رہا ہے۔
2۔ دین اس ملک میں ثانوی حیثیت نہيں رکھتا۔
امریکی مفکر نے اس کانفرنس کے انعقاد پر کانفرنس کے مہتممین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: یہ میرے لئے باعث اعزاز ہے کہ میرے تشخص کو تشکیل دینے والے بنیادی عناصر میں ایک میرا دین ہے۔ اگرچہ بعض لوگ دنیا کے تمامتر جھگڑوں اور تنازعات کو دین سے منسوب کیا کرتے ہیں لیکن عالمی ادیان صلح و آشتی اور مفاہمت کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔
جین نے عالمی بیداری کی تحریکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: لفظ "بیداری” نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی؛ ہمیں اٹھنا پڑے گا اور اگر ایسا نہ کریں تو گویا ہم نے اپنے آپ کو اور اپنی آنے والوں نسلوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔
انھوں نے عالم جابرین و ظالمین کے مظالم و جرائم پر دینی راہنماؤں کی خاموشی پر کڑي نکتہ چینی کرتے ہوئے سوال اٹھایا: وال اسٹریٹ تحریک اور عربی بہار کے لئے ان کے پاس کیا کوئی جواب ہے؟ ادیان کے پیشوا خاموش کیوں ہیں؟ کیا وہ اس صورت حال کا ادراک کرنے سے عاجز و بے بس ہیں؟ یا پھر سیاسی دباؤ کے نتیجے میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں؟ یا یہ کہ وہ خود ان مسائل کا جائزہ لینا اور ان کے بارے میں اظہار خیال کرنا، پسند نہیں کرتے؟ میرا یقین ہے کہ دینی راہنماؤں کو سوالات کا جواب دینا چاہئے اور ادیان کو ان مسائل میں خاص طور مصروف ہوجائیں۔
انھوں نے کہا: دنیا کی 90 فیصد آبادی کسی دین کی پیروی کررہے ہيں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی برادری کی قیادت و حکومت سیاسی حکام کی بجائے دینی راہنماؤں کے ہاتھ میں ہے۔ آج کسی بھی حاکم اور آمر کے لشکر میں لشکر دین جتنی طاقت نہیں ہے اور بالآخر فیصلہ سازی کا پورا عمل دینی راہنماؤں کے سپرد کیا گیا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ادیان کے راہنماؤں کی اکثریت ان تحریکوں کو جانتے ہی نہیں ہیں یا پھر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر باوا جین نے خبردار کرتے ہوئے کہا: ایک نئی جنگ کا تصور ہی مجھے خوف و وحشت سے دوچار کردیتا ہے ہم عالمی ادیان کے راہنماؤں کی پارلیمان میں دینی سفارتکاری کے درپے ہیں۔ دینی راہنماؤ کو اٹھ جانا چاہئے اور دنیا میں موجود تناؤ سے نکلنے کے راستے تلاش کرنا چاہئے؛ ادیان کے راہنما ایک ایسی حکمت عملی وضع کرسکتے ہیں اور اس کے ضمن میں دنیا کے باسیوں سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح تشدد اور درندگیوں سے دور ہوسکتا ہے۔
انھوں نے کہا: ایران عالمی بیداری کی لہر کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے کیونکہ ایران کے عوام مذہبی لوگ ہیں اور جنگ و تشدد کے خلاف ہيں۔ ایرانی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ مذہبی ہیں اور کوئی بھی ایرانی جنگ کے درپے نہيں ہے۔
انھوں نے کہا: دنیا کی آبادی کا 50 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے میں دینی راہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھائیں کیونکہ بیداری کے میدان میں فعال و سرگرم نوجوان اپنے سوالات کا جواب ڈھونڈتے ہیں اور ایسے قائد کی ضرورت ہے جو ان طبقے کے پوچھے گئے سوالات کا جواب دے سکے اور مجھے یقین ہے کہ ایسی صورت میں امن و آشتی کا ہدف حاصل ہوسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button