مقالہ جات

داعش: عراق میں ایران کے لیئے سنہری جال

DAISH KILLعراق کی صورت حال کے پیش نظر، کیا ایران اور امریکہ کے مابین باہمی تعاون کا ایک نیا باب کھلنے جا رہا ہے؟ حقیقت اسکے بالکل بر عکس ہے کیونکہ واشنگٹن مسلسل ایران پر بین الاقوامی سطح پر "دھشت گردوں” کی سر پرستی اور خفیہ طور پرایٹمی ہتھیار بنانے کے الزامات لگا رہا ہے۔ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ جان مکین نے بیان دیا ہے کہ "امریکہ ایران کے تعاون سے بغداد حکومت کو بچانے کے لیئے امادہ ہے۔ ” جبکہ القاعدہ سے منسلک گروہ داعش بغداد سے صرف 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
مشرق وسطی میں ایک اور ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے کہ امریکہ کا معاون برطانیہ سالہاسال سے بند اپنے سفارت خانے کو ایک بار پھر تہران میں کھولنے کا خواہاں ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ کے مطابق اسکی وجہ عراق کے معاملے میں مغرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی ہم آہنگی ہے۔
نیو یارک ثائمز نے دعوی کیا ہے کہ عراق میں مغرب اور ایران کے مشترکہ ” امن مفادات "ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ طرفین کو یہاں "مشترکہ دشمن داعش” کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کایہ دعوی ایک مسخ شدہ حقیقت ہے۔ متشدد جنگجو گروہ دا عش در اصل امریکہ ، ناٹو اور انکے خلیجی اتحادیوں کے تعاون سے وجود میں آیا ہے ۔ اس گروہ کی وہابی آئیڈیالوجی در اصل انکے سعودی و قطری کفیلوں کا عکس ہے ۔ ان دونوں کفیلوں نے تقریبا دس بیلین ڈالر کی رقم سے داعش اور ایسے ہی دوسرے گروہ مثلا جبہۃ النصرۃ وغیرہ کی بنیاد رکھی ہے۔ مگر آج کل واشنگٹن اور اسکے اتحادی ایک نئی تاریخ لکھنے مصروف ہیں وہ دنیا کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ داعش دھشت گرد گروہ ہے اور مغرب دشمن ہے۔ کچھ ہی ہفتوں پہلے یہ دھشت گرد گروہ امریکہ کے فراہم کردہ "ٹو میزائیل” کے ساتھ شام میں دیکھے گئے ۔ جسکی ویڈیوز موجود ہیں ۔ اسطرح یہ مفروضہ کہ جنگجو گروہ داعش ، ایران اور امریکہ کا مشترک دشمن ہے ، سفید جھوٹ ہے۔ داعش خطے میں امریکہ ، مغرب اور انکے عرب اتحادیوں کا ایک مہرہ ہے ۔ جسکا مقصد سٹریٹجک مقاصد کا حصول ہے۔ اس مہرے کی اولین ذمہ داری بشار اسد کی حکومت کو گرانا تھی۔ شام کی حکومت گرانے کا مقصد بھی ایران کو کمزور کرنا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر امریکہ کا ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا دراصل "زھر کا جام ” پیش کرنا ہے ۔
عراق میں داعش کی عسکری فعالیت شروع کروانے کی دوجوہات ہیں ۔ اول شام میں مغرب کے اس مہرے کی واضح شکست ، اور دوئم شام کے انتخابات میں صدر بشار الاسد کی واضح کامیابی ۔امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل کو ان دونوں ناکامیوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ ی ہے۔ انھوں نے شام میں پہلے سے بڑھ کر دھشت گردوں کی مخفیانہ معاونت کی۔
ذرہ غور کیجیئے ! کس تیزی سے ” شام” مغربی میڈیا کی خبروں سے غائب ہر گیا ۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب واشنگٹن اور اسکے اتحادیوں کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ شام اور پھر ایران کی حکومتیں گرانے کے ہدف کو حاصل نہیں کر سکتے۔ عراق کی حالیہ صورت حال در اصل ایران پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیئے امریکہ کا پلان- بی تھا۔
مغربی سفارتی ذرائع کے مطابق واشنگٹن ایران سے کسی عسکری معاہدے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ لیکن چاہتا ہے کہ ایران نوری المالکی کی حکومت کو بچانے کے لیئے عراق میں اپنی فوجیں داخل کر ے۔ مگر اسے تعاون نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ امریکہ ایران کو عراقی دلدل میں پھنسانا چاہتاہے۔ اور اپنےمہرے داعش کے ذریعے ایران کو اس جنگ میں الجھانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
عراق میں تشدد اور جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ صرف یہ ہےکہ امریکہ اور اسکے اتحادی عراق میں داعش جیسے گروہوں کی معاونت ختم کردے۔ در حقیقت امریکہ اور اسکے اتحادی خطے میں امن قائم کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ عراق کی صورتحال ان کے لیئے پریشان کن نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے ایران کے لیئے دوستی کے پیغامات خلوص نیت پر مبنی ہیں۔

———————————————————————————–

تبصرہ: فنیان کے اس کالم میں ایک اہم نکتے کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ وہ اہم نکتہ صدر نوری المالکی کی کرپٹ اور نا اہل حکومت سے متعلق ہے۔ عراقی حکومت نے عراق کے اہل سنت بھائیوں کو مختلف شعبوں میں نظر انداز کیئے رکھا۔ اس غلط پالیسی کا داعش نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اور صوبے الانبار کو اہل سنت قبائل کو اپنے استعماری مقاصد کے لیئے استعمال کیا۔ حالانکہ 2007 میں انہی قبائل نے داعش (القاعدہ) کی شیطانی فکر کو رد کیا تھا ۔ اور القاعدہ کو اپنے علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ جس کے بعد الانبار کے فبائل کو ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑی یعنی القاعدہ نے الانبار کے اہل سنت قبائل سے شکست کا بدلہ عوامی مقامات پر دھماکے اور قتل و غارت کے ذریعے لیا۔ آج صورت حال بالکل مختلف ہے انکی اکثریت داعش کو خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ جسکی وجہ صدر نوری المالکی ہیں۔
امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب خطے میں محور شر کی صورت اختیار کر گئے ہیں انکے نجس عزائم کی تکمیل داعش حیسے گروہوں کے ذریعے ہورہی ہے۔ داعش کا مقصد عراق اور شام میں شریعت کا نفاذ ہے بالکل ویسے ہی شریعت جیسی سعودی عرب میں لارنس آف عربیہ کی حمایت و تائید سے نافذ ہوئی ۔ امریکہ اور مغرب اپنی نام نہاد جمہوریت قوموں پر مسلط کرتے ہیں جبکے انکے ہاتھوں کے پلے ہوئے تکفیری اپنی خود ساختہ شریعت کا نفاذ بزور سلاح چاہتے ہیں۔
تحریر : فنیان کننگھم – معروف آئرش صحافی

ترجمہ: عمران بٹ

متعلقہ مضامین

Back to top button