مقالہ جات

قائد مرحوم مفتی جعفر حسین قبلہ کی روح سے

mufti jaferمیں مجبور ہوں کہ ایک علمی شخصیت کا خطاب سنوں ،مجبوری معاشرتی بھی ہے اور اخلاقی بھی،میرا تجسس بھی مجھے کھینچ کر لے جاتا ہے ویسے بھی بیکار وقت کا کچھ تو استعمال اور مصرف کرنا ہے،اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ میں تمام تر کوشش کے باوجود مقرر کی پوری تقریر پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا،بھلا دو اڑھائی گھنٹے کون اپنی توجہ ایک ہی شخص کی باتوں پر مرکوز رکھ سکتا ہے،بہرحال دھیان کہیں سے کہیں چلا جاتا ہے، میرے خیال میں دھیان زیادہ آزاد خیال واقع ہوا ہے۔
تقریر کے دوران تو یہ احساس توغالب رہتا ہے کہ ہم سب غلط ہیں ،پھر اپنی زندگی سے وابستہ ان بزرگان کی زندگی پر نظر پڑتی ہے تو مجھے تو وہ ہی غلط لگتے ہیں ،ویسے تو بزرگوں کی غلطیاں نکالنا ہی غلطی ہے مگر کیا کریں کہ ماحول ہی ایسا ہے جہاں صرف غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے اس لیئے یہ بزرگ انشا ء اللہ معاف کریں گے ،مگر میں نے خود کو بھی تو مطمئن کرنا ہے۔
اتنے طویل خطاب میں یکسوئی تو میسر نہیں آسکتی ،میں تو خود کو معذور سمجھتا ہوں ،اس لیئے کہ دو رکعت نماز میں بار بار ،،، سلسلہ تکلم کا ٹوٹ جاتا ہے،، کے مصداق رہتا ہوں ۔۔وہاں دو گھنٹے سے زیادہ وقت سمع خراشی کروانا ناممکن ہے مگر جو لوگ ان اوقات میں ہمہ تن متوجہ رہتے ہوں ان کو میرے ذاتی خیال میں ولی کا درجہ دیا جانا چاہیئے۔
نا جانے کیوں بیٹھے بیٹھے مفتی جعفر حسین کا نورانی چہرہ میری نظروں میں آ جا تا ہے اور اس کیساتھ ہی ان کی پوری زندگی کی فلم چل پڑتی ہے،پاکستان بننے کیساتھ ہی ملک میں دستور کا خاکہ بنانے کیلئے بورڈ آف تعلیمات اسلام ،مجلس دستور ساز پاکستان بنا،مفتی صاحب اس کے رکن بن گئے، ظاہر ہے وہاں کام بھی کیا ہو گا۔شائد مفتی صاحب کو محسوس بھی نہ ہوا ہو کہ وہ ایک طاغوتی اور استعماری نظام کی بنیادیں مضبوط کر کے گناہِ عظیم کے مرتکب ہو ں گے۔بھلا اس وقت یہ عمل کب گناہ تھا؟ مگر مفتی صاحب اپنے علم و تقویٰ کی بنیاد پر اس میں مستغرق رہے یہاں تک کہ قرارداد مقاصد کا مسودہ مرتب کرنے میں اپنا کردار ا دا کیا،جو آج کے غیر اسلامی آئین کا سرنامہ ہے،یہ کارنامہ ہمیشہ اس آئین کو مضبوط رکھے گا۔بھلا مفتی صاحب نہیں جانتے تھے کہ یہ شرک ہے اور اللہ کے مقابل ایک نظام ہے۔بہرحال آج کے درس سے تو مفتی صاحب غلط ہیں خواہ کسی کو اچھا لگے یا برا۔
مفتی صاحب نے اس پر بس نہ کی بلکہ تمام مکاتب فکر کے 31علما ء کے ساتھ ملکر 22نکات پر اپنے دستخط کر دیئے۔ان کے مطابق ہم ولایت فقیہ کے ماننے والوں کو فقط پرسنل لا ء میں حق حاصل ہو گا جبکہ پبلک لا ء یعنی ملکی قانون اکثریت کا ہو گا اگر یہ 22نکات نافذ ہو جائیں تو خلافت کا نظام نافذ ہو جائے گا جس کی مفتی جعفر حسین اورقبلہ حافظ کفایت حسین تائید کر چکے ہیں۔مفتی صاحب ! آپ نے تو نہج البلاغہ کا ترجمہ و تشریح لکھی ہے آپ سے زیادہ مزاج علی ؑ کو کون جانتا ہو گا ۔آپ نے سیرت امیر المومنین ؑ بھی لکھی اگر میں آپ کی بات مانوں تو آج مجھ جیسا راندہ ء درگاہ کوئی نہ ہو گااور اگر میں نہ مانوں تو یہ درجہ آپ کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ( اس گستاخی پر معذرت کہ ۔۔۔)
آپ نے امام اور امت پر ان سے بات کیوں نہ کی؟اگر آپ دستخط نہ کرتے تو اس دستاویز کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہ ہوتی،مگر آپ کی شرکت نے اسے دوام بخش دیا۔آج جب بھی کوئی اسلامی نظام کی بات کرتا ہے اسے پہلے ان بائیس نکات کا مطالعہ کرنا ہو گا،اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنا ہو گا۔ورنہ یہ سفر الٹی سمت میں ہو گا،مفتی صاحب آج کے درس کے مطابق آپ یہاں بھی خطا کر گئے، خلافت کو مانا اور امامت سے انکار کیا،طاغوت کو تسلیم کیا اور ولایت سے انکار کیا،بھلا مفتی صاحب آپ کو ایسا کرنا زیب دیتا تھا؟اگر آپ آج ہوتے تو آپ سے یہ سوال ضرور ہوتا۔۔مگر اس دور فرشتے شائد اسے ثواب لکھتے ہونگے آج کے فرشتے تو اسے گناہ ،شرک،اور پتا نہیں کیا کیا لکھیں گے،افسوس میں یہاں بھی آپ کا ساتھ نہ دے سکا ۔
آپ جیسے بزرگ عالم کہ جنہیں مجتھد العصر بھی کہا جاتا تھااور آپ واقعی علم کا بحر تھے،مگر آپ نے طاغوتی نمائندہ،فوجی آمر۔غاصب اور دجالی ضیا ء الحق کی بنائی ہوئی نظریاتی کونسل میں شرکت کر لی،وہاں بیٹھ کر امریکہ کے پٹھو ضیا ء الحق جو عملی طور پر شیعہ دشمن بھی تھا کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے بھلا آپ کے پاس تبلیغ و ترویجِ دین کا کام نہ تھاتالیف و تصنیف میں آپ مہارت رکھتے تھے اسی کو ہی جاری رکھا ہوتا وہ کوئی چھوٹا کام تو نہ تھا،مگر آپ ان تمام کاموں کو چھوڑ کر ایک طاغوتی حکمران کی زیر قیادت و سرپرستی کام میں جت گئے؟اسی دورا ن اس آمر نے ملک میں فقہ حنفی کے نفاذ کا اعلان کر دیا اور زکوٰۃ و عشر کے قوانین کا اجرا ء بھی کر دیا مگر آپ نظریاتی کونسل میں رہے ،بھکر میں عظیم اجتماع ہوا اس میں آپ کو قائد ملت چناکیا گیا،قائد ملت کی حیثیت سے مسلسل یہ مطالبہ دہراتے رہے کہ شیعوں کو فقہ جعفریہ کے مطابق حقوق دیئے جائیں،ایک قائد کو یہ کب زیبا ہے کہ وہ طاغوت سے یا اس کے نمائندوں سے حقوق مانگے ،یہ تو بد ترین شرک کے زمرے میں آتا ہے اور ولایت و امامت کا صاف انکار ہوتا ہے ،اگر آج آپ موجود ہوتے تو آپ استعمار کے کاسہ لیس اور طاغوتی کہلانے کے زیادہ حقدار ہوتے بہ نسبت قائد مرحوم کے۔۔۔ویسے آپ بتائیں تو سہی کہ آپ کو یہ شرک کرنا برا نہیں لگا؟۔
مفتی صاحب آپ کو یاد ہو گا کہ آپ کی زیر قیادت یہ نعرہ لگا کہ جان دیں گے فقہ لیں گے،کیا ضیا ء الحق نے فقہ دینی تھی،مگر آپ کا مطالبہ تو اسی ظالم و جابر اور طاغوت سے ہی تھا۔ ظاہر ہے آپ اس ملک کے شہری اور وہ حکمران تھا مطالبہ اسی سے ہی کرنا تھا مگر آپ اگر آج کے دور میں ہوتے تو بہت بڑے مشرک ہوتے آپ کو دجال بنا دیا جاتا،آپ کیخلاف سوشل میڈیا پر ٹیمیں بٹھا دی جاتیں اور ثابت کیا جاتا کہ آپ ولایت کے منکر ،ضد ولایت ہیں،نظام امامت کے دشمن ہیں ،میرا تو قلم اجازت ہی نہیں دیتا ان القابات اور گالیاں لکھنے کی جو یہی عمل کرنے والے علماء و جوانوں اور ملت کو دی جاتی ہیں۔
پھر آپ نے عوام،علما ء ،طلباء ،تنظیموں کیساتھ سیکریٹریٹ کی طرف مارچ کیا،سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لیا،شدید بارش اور آندھی میں حکومت طاغوت سے مطالبات کرتے رہے،آخر طاغوت کے ایوانوں سے آپ کو مزاکرات کی دعوت آئی تو آپ لباس علما ء میں وقت کے بد ترین آمر،جابر،قاتل،طاغوت ،دجال،امریکی ایجنٹ ،خناس سے مزاکرات کرنے اس کے دفتر گئے ۔۔کیا یہ لاالہٰ الا اللہ سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا،آپ تو اس سے بھی آگے بڑھے اور آپ نے وقت کے دجال سے معاہدہ پر دستخط بھی کیئے اور اپنے مطالبات تسلیم بھی کروائے۔آپ نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا ہوا ہے سب ہی اس کو فخریہ بیان کرتے ہیں مگر میں مخمصے میں پھنس چکا ہوں اس لیئے کہ آپ اگر ٹھیک ہیں،آپ کا یہ عمل سب کیلئے فخر کا باعث ہے تو آج کیا غلط ہے اور یہ عمل جو آپ نے سرانجام دیا اگر آج کوئی کرتا ہے اور اسے کافر ،مشرک،ملحد،اور باغی کہا جائے تو مجھے سوچنا پڑتا ہے کہ آپ کا مقام کیا ہے، آپ اس کلیۂ کیمطابق کہاں کھڑے ہیں؟
مفتی صاحب اگر بات یہیں تک رہتی تو شائد ہمارے لیئے اس قدر مشکل نہ رہتی مگر آپ نے تو اپنی طبع نازک کے بر عکس مشکل راستے کا انتخاب کیا،آپ کو یاد ہو گا گوجرانوالہ میں ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت)کاجلسہ تھا،آپ نے مناسب جانا کہ اس جلسہ میں اپنی نمائندگی ضرور ہونی چاہیئے ،آپ کے نمائندہ نے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے قائد ملت مفتی جعفر حسین کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ ملت جعفریہ تحریک بحالی جمہوریت کیساتھ ہے،قبلہ مفتی جعفر حسین کے اس اعلان کے بعد ملت تشیع کی بالغ نظری و زیرکی کا شہرہ اس دور میں بجنے لگا تھا،اسی دوران آپ شدید بیمار ہو گئے اور میو ہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ میں زیر علاج رہے،یہیں آپ نے اپنی جان اللہ کے سپر کر دی،اسی بستر مرگ پہ ایک اخبار کو آپ نے انٹرویو دیا جس نے ملت کیلئے مستقبل کے راستوں کی نشاندہی فرمائی،نیز اس کو ملت کے نام آپ کی طرف سے آخری پیغام اور وصیت کا درجہ حاصل ہے۔آپ نے اس انٹرویو میں جمہوریت کی بحالی ،1973ء کے آئین کی بحالی کا مطالبہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ جمہوری قوتوں کیساتھ جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے ،آپ کے اس انٹرویو نے آپ کے جانشین ،فرزند سیدالشھدا ء علامہ عارف حسین الحسینی شہید کے لیئے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سکوپ کی نشاندہی کر دی ۔یہی انٹرویو بعد ازاں تحریک کے سیاسی سفر کا سرنامہ اور جمہوریت مخالف قوتوں کے خلاف دلیل اور اصول قرار دیئے گئے،شہید قائد نے بھی اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں انہی خطوط پر کام کیا اور مفتی صاحب کی زندگی میں تو ان کا بھرپور ساتھ دیتے رہے ۔
قبلہ ایک اور پہلو پر میری نگاہ پڑ گئی ہے چلتے چلتے اس کا تذکر بھی کر ہی دیتا ہوں ،آپ تو مفتی تھے،اور بعض مقامات پر آپ کو مجتھدالعصر بھی لکھا گیا ہے مگر مفتی آپ کے نام کا لاحقہ قرار پایا ،یعنی آپ کے پاس قرآن و حدیث سے استناد کا ملکہ موجود تھا،لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے آپ سے رجوع کرتے تھے ،اس ملت گریہ کن نے بھی آپ سے رہنمائی کے لیئے رجوع کیا تو آپ نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملت کی رھنمائی فرمائی۔قبلہ مفتی صاحب ! میرا یقین ہے کہ ارواح زیادہ بااختیار ہوتی ہیں ،اور آپ کی روح پر نور اختیارات کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہو گی ،آپ کی روح سے اپنی گستاخیوں کی معافی کا خواستگار ہوں کیونکہ آپ سے یہی توقع ہے کہ آپ فراخ دلی سے معاف فرمائیں گے ،یہاں تو اب اس کا رواج ناپید ہو گیا ہے،لوگوں نے فیس بک پر ہی فتویٰ ساز فیکٹریاں لگا لی ہیں۔
آپ کی ان گنت خدمات کا اعتراف ہے ،آپ نے ضعیفی و ناتوانی اور خرابی صحت کے باوجود اس ملت کی قیادت کا علم سنبھالا اور ایک امین،دانا و حکیم کی طرح مثالی کام کیا اور اپنی حکمت و دانائی کی بدولت ملت کو کئی کامیابیوں سے سرفراز کیا،تحریک پاکستان و تعمیر پاکستان نیز ملت کی فلاح و بہبود و قوت کیلئے بہترین کام کیا مگرایک بات جو پوچھنی تھی اس کی جرا ئت کرنے پر پیشگی معذرت چاہتا ہوں ،یہ اسلامی ،قرآنی،امامی اصولوں کو پائمال کرتے ہوئے سامری کے بچھڑے کی ترویج کر دی کہ ایک تنظیم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھ دی ،جس کا ایک دستور مرتب کیا ،عہدیدار مقرر کیئے،یہ تنظیم ایک قوت بن کر سامنے آئی ،آج جتنی بھی قومی و ملی تحریکیں کا م کر رہی ہیں اسی کا چربہ لگتی ہیں۔یہ اگر بت ہیں تو یہ بت آپ نے ملت پر مسلط کیا ہے ،آج انہی بتوں کی وجہ سے اختلافات جنم لے رہے ہیں کوئی کہتا ہے تنظیمیں ہونی چاہیئے اور کوئی اس کو کفر و طاغوت سے تعبیر کرتا ہے،حالانکہ آپ کی رحلت کے بعد ساڑھے چار سال تک شہید قائد علامہ عارف الحسینی جو نمائندہ امام خمینی بھی تھے اور امام خمینی نے انہیں ،،فرزند راستین سید الشھدا ء ،،کہا ہے نے بھی اسی روش اور طریقہ کار کو اختیار کیا ،انہوں نے بھی تنظیمی زندگی گذاری اور انہی تنظیمی ذمہ داریوں جو ملک کے بزرگ ترین علما ء نے ان کے کاندھوں پر رکھی تھی کی ادائیگی کے دوران سرخ موت ،،شہادت ،، سے سرفراز ہوئے،آج آپ اور آپ کے جانشین برحق شہید قائد علامہ عارف الحسینی کی روش کو جاری رکھنے والوں کو جو القابات دیئے جا رہے ہیں اس حوالے سے آپ سے درخواست کریں گے کہ ہماری قوم و ملت کے حق میں خصوصی دعا فرمایئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button