مقالہ جات

امریکہ اورسعودی عرب تعلقات: تندوتیز طوفانوں کے زد میں!//آخری قسط‎

ahmad maliسعودی عرب کے لئے امریکہ جیسا کوئی نعم البدل نہیں!
مگر واشنگٹن کی وجہ سے سعودی کے شاہی خاندان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کے بعد اور اپنی تمام غیض غضب کے اظہار کے بعد کیا سعودی عرب امریکہ سے دوری اختیار کرسکتا ہے؟لیکن ایسا ہوتا دکھائی دیتا اس لئے کہ سعودی عرب کے لئے کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جو امریکہ جیسا ہو۔ جیساکہ اکثر امریکی تجزیہ نگار کا خیال ہے مگر میں ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۳ء کے دوران ریاض میں متعین سابق امریکی سفیرRobert Jordanکہتا ہے کہ’’ پوری دنیا میں سعودی عرب کے تیل اور اقتصادی مرکیٹ کو بڑھانے کے لئے امریکہ سے مضبوط کوئی اور ملک نہیں ہے اور یہ بات سعودی اچھی طرح جانتے ہیں سو ہم انہیں امریکی گود سے نکلتے ہوئے کبھی نہیں دیکھیں گے‘۔Jordanآگے مزید کہتا ہے کہ’’ اس کا ابھی روس اور چین سے تعلقات ماضی سے زیادہ بڑھے گا اس سے پہلے وہ مختلف اطراف میں ہتھیار کے تلاش میں جا چکے ہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ وہ مزید جائے گا لیکن آخر میں وہ امریکہ کے ہی جوتے کے پیچھے پڑے گا‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانس بھی اس کی ترجیحات میں شامل تھا جیساکہ Ian Black نےGhardian میں گزشتہ جنوری کو لکھا تھا کہ’’ یہ کہنا کہ چین یا فرانس میں سے کوئی بھی اس وقت امریکہ کی جگہ لے گا یہ صرف اس کی خام خیالی ہے‘‘۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے درمیان مختلف منصوبوں میں گہرے تعلقات ہیں جہاں سعودی برّی اورفضائی فوج امریکہ کے زیر کنٹرول میں ہیں جو ان کو ٹریننگ دنیے کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میں ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے۔ اور اسی طرح سعودی عرب کے تما اقتصادی معاملات بھی امریکہ کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں جسے ختم کرنے کے لئے مدتوں لاکھ کوشش بھی کرے توحاصل کچھ بھی حاصل ہونے والا نہی ہیں۔سعودی عرب میں موجود امریکی تیزی سے پھیلنے والے منصوبے اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کہ طرفین کے درمیان جدائی بہت ہی مشکل ہے۔مثال کے طور پر اس امریکی اور سعودی سکیورٹی کے درمیان ایک مضبوط رابطہ ہے۔جس میں ان دونوں میں سے ہر ایک اس تعاون و شراکت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتااس لئے کہ امریکی سعودی عرب کے نیشنل سکیورٹی فورس جو انکے اہم داخلی سیکورٹی ہیکو ۱۹۷۷ء سے ٹریننگ دے رہے ہیں اور اسی طرح نیشنل سیکورٹی کے ۳۵ہزار یونٹ ہیں طبی نظام اور تیل کے مراکز کی حفاظت سمیت ملک کے دیگر اہم منصوبوں کی حفاظت امریکہ کر رہا ہے ۔ہتھیار اور عسکری خدمات کی مالیتی قیمت جسے سعودیوں نے امریکہ سے ان آخری سالوں میں مطالبہ کیا تھا جس کے اندازا قیمت ۶۰ بلین ڈالرہیں جس میں سے ۳۴بلین صرف ۲۰۱۲ء میں خردے گٗے ہتھیاروں کی قیمت ہے اس سے دس گنا زیادہ ۲۰۱۱ ء کے ہیں ابھی حال ہی میں امریکی کانگریس نے ۸.۶ ملین ڈالر کا سودا کیا ہے کیا ریاض اور واشنگٹن کے درمیان جاری کشیدگی بڑھ سکتی ہے ؟
واشنگٹن اور ریاض کے درمیان یہ کوٗی پہلی کشیدگی نہیں بلکہ ماضی میں مختلف امور کیوجہ سے مختلف کشیدگیاں آتی رہی ہیں ان میں شاید پہلی بار۱۹۷۳ء ان دونوں کے درمیان تیل کے حوالے سے اختلاف ہوا ہو چند مہینے جاری رہنے کے بعد ختم ہوا پھر بعد میں ۱۹۷۴ء کو مشترکہ اقتصادی کمیٹی کی بنیاد رکھتے وقت جھگڑا ہوا۔
خلاصہ: ہمیں امریکہ کے خلاف سعودی عہدیداران کی قابل اعتنا نہیں سمجھنا چاہئیے اس لئے کہ واشنگٹن کے ساتھ انکا تعاون اور جاری منصوبوں کے خلاف ، خاص طور سے خطے میں جاری بڑی تبدیلیوں کے حوالے سے در اصل سعودی ، امریکی قیادت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں اس اعتبار سے ہم نے دیکھا کہ اس خطے میں واقعی تبدیلیوں کے حوالے سے دونوں حلیفوں کے نظریات مختلف تھے لیکن دونوں حلیفوں کے اختلافات زیادہ دیر تک چل نہیں سکتے اس لئے کہ سعودیوں کے لئے امریکہ سے تعلقات ختم کرنا بہت مہنگا پڑ جائے گا ۔
ختم شد۔۔۔
ڈاکٹراحمد ملی
شعبہ بین الاقوامی سیاسیات لبنان یونیور سٹی،لبنان

متعلقہ مضامین

Back to top button