مقالہ جات

سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات:تند و تیزطوفانوں کی زد پر

ahmad mali’’ ۱۹۴۳ء سے ہی مجھے یقین تھا کہ میرے وطن کے فائدے وہی ہیں جو امریکہ کے ہیں۔ہم کسی بھی بنیادی معاملے میں کبھی بھی اختلاف نہیں کریں گے۔۔۔خدا کے بعد ہم امریکہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں‘‘
ان خیالات کا اظہار شاہ فیصل نے سعودی عرب میں امریکی سفیر سے ملاقات کے دوران کیا۔
عموماً سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خا موش ڈر اورخوف پر اعتمادکرتی ہے۔جوکہ نہایت مبہم اور غیرواضح عمل ہے۔ سعودی ڈپلومیسی عام طور سے خفیہ اور پوشیدہ رہنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہے۔اس طرح یہ ایک بلواسطہ طریقے کے بجائے ایک مشکوک سا طریقہ ہے۔ اس لئے کہ سعودی قیادت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ کیونکہ اس کے قریبی علاقے جو اس وقت کشمکش میں ہیں اور عدم استحکام کا شکار ہیں لہذا یہ پالیسی زیادہ پرامن اور سودمند ہے۔اس لئے یہ اپنے حلیف امریکہ کو ایک طویل عرصے سے کھلی چھوٹ دئیے ہوئے ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے ایجنڈے اور منصوبے جس طرح چاہے چلائے اور سعودی عرب غالباً ان کے ساتھ حمایت میں نظر آتا ہے۔ حقیقت میں سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی بنیاد عالمی جنگ دوئم کے دوران ۱۸فروری ۱۹۴۳ء کو اس وقت پڑی جب امریکی صدر Rose Feltنے یہ اعلان کیا تھا کہ:
’’ اس وقت سعودی عرب کا دفاع کرنا ہر لحاظ سے امریکہ کے کے لئے ضروری ہے‘‘
ادھر امریکی صدر کے اعلان سے ٹھیک دس سال قبل امریکی تیل کی کمپنیاں سعودی عرب میں اپنا قدم جما چکے تھے۔ اورstandard Oil of california نامی کمپنی سعودی عرب میں کامیاب ہوچکی تھی۔
واشنگٹن اور ریاض کے درمیان تعلقات میں مضبوطی اس وقت سامنے آئی جب امریکی صدرRose Felt اور شاہ عبدالعزیز بن سعود کے درمیان ۱۹۴۵ء کو مالٹا کانفرنس سے واپسی پر کوینسی کے مقام پر ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں یہ طے پایا کہ تمام معاملات اسٹر یٹجیکل بنیا دوں پر رکھے جائیں گے اور سعودی تیل امریکہ اور اس کے حلیفی ممالک کے لئے اس شرط پر جائے گا کہ واشنگٹن سعودی نظام کی حمایت کرے۔
یوں ۷۰ سال سے تیل کی معقول قیمت پر واشنگٹن کی طرف سے سعودی ں نظام کی حمایت جاری رہی۔ ادھر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس دوران تعلقات میں طرفین کے درمیان کچھ تلخیاں بھی سامنے نہ آئی ہو۔ لیکن وہ صرف اور صرف مخصوص حالات کے لئے ہوئی تھیں لیکن یہ کوئی عام فارمولا نہیں رہا کہ ہر دفعہ اسی کے مطابق ہی ہوا ہو۔ جیساکہ سابق امریکی سفیر ۱۹۸۹ تا ۱۹۹۲ پہلی جنگ عظیم کے دوران ریاض میں تعنیات تھے جن کی شخصیت امریکی خارجہ پالیسی میں مستند اور مشہور مانی جاتی ہے کے بقول: ’’ماضی میں ہم سعودیوں پر اس وقت تک اعتماد کرتے تھے جب امریکہ کی خارجہ پالیسی کے خلاف کوئی بات نہیں جا رہی ہوتی تھی اور کئی بار ان کی مدد کی‘‘۔
لیکن یہ موافقت ان دونوں ممالک کے درمیان حسب سابق نہ رہ سکی کئی مرتبہ ان کے درمیان مختلف طرح سے کشمکش بھی وجود میں آئی اور خاص طور سے ماضی قریب میں تو سعودی عرب کے عہدیداران کی جانب سے سخت قسم کی شکایات بھی وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہیں کہ اب دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کمزور ہونے لگے ہیں۔ اور ان خدشات کو ختم کرنے کے لئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اچانک پچھلے نومبر کے اوائل میں ریاض کا دورہ کیا جہاں شاہ عبداللہ اور وزیر خارجہ سعود الفیصل اور دیگر چند عہدیداران سے ملاقات کی تاہم یہ واضح نہ ہو سکا کہ جان کیری دونوں ممالک کے درمیان بگڑتی ہوئی صورت حال کو روکنے میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مشہور کالم نگار Daved Aghsves سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان بگڑتی ہوئی صورت حال کے بارے میں لکھتے ہیں : کہ ’’ یہ صورت حال تو پچھلے دوسال سے جاری ہے اور اس کی مثال ایسی گاڑی کی سی ہے جو آہستہ آہستہ کلٹی کھا کر رہی ہو‘‘۔
یہ بات تو مبالغے سے خالی نہیں ہے مگر دوسرے امریکی محققین اور مبصرین تو اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مثال ایسی ہے کہ ’’ دور فاصلے سے ایک کمزور روشنی آرہی ہو جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہو‘‘۔ اور اب ان کے درمیان سرد جنگ چل رہی ہے جو دونوں طرفین کے لئے سخت مسائل کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
جیساکہ ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو امریکہ کے لئے ہوا تھا پھر ۲۰۰۳ء میں سعودیوں کی نظر میں سابق امریکی صدر جارج بش نے عراق میں حکومت شیعہ اکثریت کے ہاتھوں دے کر بڑی غلطی کی جو سعودیوں کے نزدیک امریکہ نے سنگین غلطی کی ہے جس سے ان کے درمیان تعلقات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔
ظاہر ہے کہ ریاض کو بش رژیم کے ساتھ چلنا مشکل ہوگیا اور خاص طور سے عراق جنگ سے قبل امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے اندر جمہوریت کا جو نعرہ بلند کیا تھا یہ سعودیوں کے لئے خاص طور سے چبھنے والی بات تھی۔ اور ۱۱ ستمبر کے بعد تو ان دونوں حلیفوں کے درمیان فاصلہ اور بڑھ گیا۔ مگر مشرق وسطی میں خطے کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے جسمیں ایران وہ ملک ہے جس کے خطے کے اندر اثر ورسوخ کو روکنے کے لئے سعودی عرب براہ راست کوشش کر رہا ہے جس کے لئے لبنان میں ۲۰۰۵ اور ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں مسلسل دومرتبہ کامیابی کے بعد ۱۴مارچ کو سعودی عرب نے دل کھول کر مدد کی جن میں اس کی کوشش یہ تھی کہ حزب اللہ کو کسی نہ کسی طرح روکا جائے جو ایران کا حلیف ہے ۔ اس کام کے لئے سعودی عرب نے اپنے حلیفوں سے مل کر دوحہ معاہدہ کے مطابق لبنانی حکومت میں ویٹو کروائی اس کے بعد اسی دن ۱۴ مارچ کو وزیر اعظم نجیب میقاتی سے قربت حاصل کی ۔ جبکہ عراق میں سعودی عرب بھرپور کوشش کے باوجود ایاد علاوی کو اکثریتی سیٹ رکھنے کے باوجود وزیراعظم بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا جبکہ اس کے مقابلے میں تہران سے قربت حاصل کرنے والے نوری المالکی اس منصب کے لئے کامیاب قرار پائے جو ۲۰۱۰ء اب تک اسی منصب پرفائز رہے۔
ادھر سر زمین فلسطین میں شاہ عبد اللہ نے مکہ معاہدہ میں الفتح اور حماس کو جمع کرنے کی کوشش کی جس کے پیچھے یہ مقاصد بھی تھے کہ حماس کو ایرانی تأثیر سے آزاد کرائے مگر یہ معاہدہ چند مہینوں کے اندر کھٹائی میں پڑگیا جب حماس نے غزہ کی باگ ڈور سنبھالنے میں کامیابی حاصل کی اور اس میں ایرانی مدد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مختصرطورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان تمام کوششوں میں سعودی عرب خطے میں بری طرح ناکام ہوا ان کے لئے آٹھ سالوں سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے۔ عین اسی دوران امریکی مبصر GrygoriGhos جو خلیج اور جزیرہ عرب کے امور کے ماہر ہیں کے مطابق اس وقت کامیابی صرف ایران ہی کو حاصل ہورہی ہے۔
۲۰۱۱ء کے اوائل میں عرب بیداری تحریک کے واقعات نے تو خطے کے طاقت کے توازن کو تبدیل کر کے رکھ دیا اس میں بھی سعودی عرب اپنے غم وغصے کو نہ چھپا سکا جسمیں حالات کے تقاضے کو مدنظر رکھنے تیونس کے بجائے مصر کی طرف اپنی توجہ کی جہاں مبارک کی حکومت کو گراکر جو نقصان سعودیوں نے اٹھایا اس کا کبھی بھی ازالہ ممکن نہیں۔ اس لئے کہ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ ایک مضبوط نظام ہے جو ایران کی بڑھتی ہوئی قوت کے برابر ہے لہٰذ ااسے کسی بھی صورت گراکر رکھنا ہے۔
ریاض اور اوبا کے درمیان فاصلے دن بدن بڑھتے جارہے تھے جو سعودیوں کے لئے واقعاً پریشان کن مرحلہ ہے، ان کے خیال میں انہوں نے عرب بیداری کو سمجھنے کے حوالے سے غلطی کی ہے سو وہ اپنے مقاصد کو واقعات کے مطابق پرکھنے میں ناکام ہورہے ہیں جیساکہ سعودی عرب یہ اس بات کے اوپر کبھی بھی نہیں سوچے گا کہ شاہ بحرین کا بھی وہی حشر ہوگا جو مصر میں حسنی مبارک کا ہواتھا کیونکہ بحرین میں کسی
بھی متوقع سیاسی صورت حال سے پیدا ہونے والی تبدیلی سعودی عرب کے لئے ایران کے سامنے بڑانقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے کہ مشرقی علاقہ میں بسنے والے شیعہ اکثریت آبادی بحرین میں پیداشدہ بیداری کو کامیاب کرنے کے لئے سعودی عرب کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا یقین سے کم نہیں ہے۔
مذکو رہ بالا مباحث میں ہم نے دیکھا کہ سعودی عرب امریکہ پر کبھی بھی تنقید کرتے ہوئے نظر نہیں آیا ۔
جاری ہے۔۔

تحریر: ڈاکٹراحمدملی 
شعبہ بین الاقوامی سیاسیات لبنان یونیورسٹی
پہلی قسط

متعلقہ مضامین

Back to top button