آخر اس معاہدے کے پیچھے کیا ہے؟
یہ یقیناً ایک دوست مسلم ملک کی طرف سے ایک بے حد فیاضانہ تحفہ ہے — 1.5 بلین ڈالر کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے خصوصا اس شدید مایوسی اور دیوالیہ پن کے زمانے میں- اس غیر متوقع رقم نے نہ صرف ہماری کرنسی کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی قیمت پر دباؤ کو کم کیا ہے، بلکہ یہ وزیراعظم کے پرشکوہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کرنے میں بھی مدد کرسکتی ہے لہٰذا اس بے مثال عالی ظرفی پر یہ بے پایاں خوشی بالکل ناقابل توجیہہ نہیں ہے-
لیکن اس خصوصی فراخ دلی کی قیمت ہم کیا ادا کر رہے ہیں؟ یہ ہمیں جاننے کی ضرورت نہیں ہے- ” شکریہ ادا کرکے پیسہ قبول کرلینا چاہئے اور اس کو متنازعہ نہیں بنانا چاہئے ،” وزیرمالیات فرماتے ہیں- شروع میں تو مدد دینے والے کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں فراہم کی گئیں- اس سے وہ ملک بلاوجہ شرمندگی محسوس کرے گا- ہمیں بتایا گیا-
خواہش تو یہی ہے کہ یہ بات اتنی ہی سادہ ہو- لیکن بات اس سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے جتنی شریف صاحب کی حکومت اسے سمجھتی ہے- ریاستوں کے درمیان تعلقات میں کوئی کام کچھ لو اور کچھ دو کے بغیر نہیں ہوتا ہے، چاہے کسی ہم مذہب دوست ملک کے پاس سے خیرات ہی کیوں نہ آئے- عالمی سیاست میں کوئی مفت لنچ نہیں ہوتا ہے- اور عموماً اس طرح کا معاملہ رازداری کے پردوں میں چھپا ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ اسمبلی میں بھی اس پر بات نہیں ہوتی ہے- تو یہ ہے حکومت کی شفافیت اور جمہوری طرزعمل کی پاسداری کے حکومتی وعدہ کا حال –
جب کہ اصل پیسہ دینے والے کا نام بھی مختلف ایجنسیوں ہی نے ظاہر کیا تھا- حکومت تو ابھی تک باقی دوسرے شراکت داروں کے بارے میں تفصیلات دینے میں بھی ہچکچا رہی ہے- کچھ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ رقم کا بڑا حصہ سعودی عرب نے دیا ہے جبکہ چند خلیجی ملکوں نے چھوٹی رقوم دی ہیں-
بادی النظر میں، "دوست”عرب ممالک کی جانب سے پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ کیلئے ایک بڑی مالی معاونت کی یہ صرف پہلی ہی کھیپ ہے- پاکستان کو یقیناً اپنی پوری تاریخ میں ایسی فیاضانہ غیر ملکی امداد ملتی رہی ہیں، لیکن اس قسم کی بھاری رقم اگر بے مثال نہیں، تو کمیاب ضرور ہے-
اگرچہ کہ حکومت نے سختی سے انکار کیا ہے، لیکن باور کیا جاتا ہے کہ یہ رقم پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اس رول کے عوض ملی ہے جو سعودی قیادت میں عرب گٹھ جوڑ کی جانب سے اس کو دیا گیا ہے-
اس تعاون کا پہلا اشارہ تو اس وقت ملا تھا جب پاکستان نے شام میں حکومت کی تبدیلی کے سعودی موقف کی حمایت کی تھی ،اس وقت جب سعودی ولی عہد نے اس سال کے شروع میں پاکستان کا دورہ کیا تھا- اس سے اسلام آباد کی شام کے معاملات کی ایک دیرسے قائم غیر جانبداری کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ملا- یہ تبدیلی پاکستان کو لازمی طور پر ایک بڑی فرقہ وارانہ جنگ میں ڈھکیل دیگی جو مشرق وسطیٰ میں جاری ہے اور اس کے نتائج ہماری قومی سلامتی کیلئے تباہ کن ہوسکتے ہیں-
شام کی طویل خانہ جنگی نے فرقہ وارانہ عصبیت کوبہت زیادہ ہوا دیکر اس علاقے میں طاقت کے کھیل کے اندازکو شدت سے تبدیل کردیا ہے- جہاں سعودی عرب سنی باغیوں کی تندہی سے حمایت کررہا ہے، ایران مسلسل صدربشار الاسد کا حامی ہے- یہ تنازعہ پورے مشرق وسطیٰ کواپنی لپیٹ میں لے کر بارود کے ڈھیر کی صورت اختیار کرگیا ہے-
کسی ایک فریق کی حمایت کر کے، اسلام آباد اپنی اندرونی بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ تشدد کی صورت حال کو مزید بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے- اس میں ایک حقیقی خطرہ ہے کہ ریاض کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط پاکستان کے اندر جو (Proxy War) چل رہی ہے اس کو مزید شہہ دیکر، ریاست کی حاکمیت کو مزید کمزور کردے گی-
اس میں شک نہیں کہ سعودی حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات تاریخی نوعیت کے اور بے حد مستحکم ہیں، لیکن پچھلی تمام حکومتوں نے ہمیشہ ایک بہت نازک توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ ایران – عرب رقابت میں ہم کبھی الجھنے نہ پائیں- لیکن سعودی امداد کی وجہ سے شریف حکومت کی حکمت عملی میں حالیہ تبدیلی کے باعث یہ توازن اب خطرے میں ہے-
شریف کے مستحکم تعلقات خاندان سعود سے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں- یہ شاہ عبداللہ کی مداخلت ہی تھی جس کی وجہ سے وہ جیل سے رہا ہوئے تھے اور اس کے بعد سات سال تک سعودی حکومت نے ان کی مہمانداری کی تھی- سعودی حکومت نے اس سے پہلے بھی شریف صاحب کی دوسری حکومت کے موقع پر مدد کی تھی، جب پاکستان کو 1998ء کےنیوکلیئر بم دھماکوں کے بعد، زرمبادلہ کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا، تیل کی سپلائی رعایتی قیمتوں پر دے کر-
پی پی پی کی حکومت کے دور میں، ریاض اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے- اس کے بعد صدر زرداری کی ایران سے نزدیکی نے آپس کے تعلقات میں اور زیادہ مسائل پیدا کئے- لیکن نوازشریف کی حکومت میں واپسی پر حالات پھر تبدیل ہونا شروع ہوگئے- سعودی عرب کے ولی عہد کے دورے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان نئے سرے سے تعلقات میں گرم جوشی کا آغاز ہوا- دوسرا اہم عنصر جس نے ریاض-اسلام آباد دوستی کو اور گہرائی دی وہ ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کی کمی تھا –
ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر ایک اور تصفیہ اگر ہوگیا توایران کی سفارتی اور معاشی تنہائی ختم ہوجائیگی جو سعودی عرب کی تشویش اور مشرق وسطیٰ میں تعلقات کی نئی شیرازہ بندی کا سبب ہوسکتا ہے- القاعدہ کی سرکردگی میں شام اور عراق میں باغی گروپ کے زور کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ مغرب ایران سے سنی انتہا پسندوں کے خلاف شیعہ گروپوں کا تعاون مانگے-
سعودی عرب کے اپنے بعض علاقوں اور پڑوسی عرب ریاستوں میں شیعوں کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی ایسا عنصر ہے جو سعودی عرب کی بدترین تشویش ایرانی-امریکی مفاہمت کو طاقت بخشتا ہے- ایسی صورت میں، بادشا ہت کی داخلی سلامتی کیلئے پاکستان کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے-
ہمارے ریٹائرڈ فوجیوں نے بحرین میں شیعوں کی شورش کو ختم کرنے میں ان کی مدد کی اور ہم شاید پھر سے پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ جھگڑوں میں الجھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں- رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ممنوعہ فرقہ پرست سنی جماعتوں کے رضاکار شام میں پہلے ہی سعودی حمایت کے ساتھ باغیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں-
ریاض اور اسلام آباد کے درمیان قریبی فوجی اتحاد میں، جو کوئی نئی چیز نہیں ہے، ایران کی نیوکلیئر صلاحیتوں کے بعد ایک نئی گہرائی آ گئی ہے- مغرب میں اس بات پر کافی تشویش ہے کہ، سعودی عرب شاید ایران کے خلاف نیوکلیئر میدان میں پاکستان سے تعاون کا خواہشمند ہو، اس میں شک نہیں کہ، پیسہ کی کمی کی وجہ سے شریف حکومت کیلئے سعودی تحفہ ایک بڑی عنایت ہے- لیکن اس معاہدہ کی تہہ میں ہے کیا شاید سب سے زیادہ تشویشناک سوال ہے-