مقالہ جات

کچھ لوگ طالبان اور سپاہ صحابہ کے دھشت گردوں کی دیوبندی تکفیری شناخت سے انکاری کیوں؟

m qasimتعمیر پاکستان ویب سائٹ کے بانی مدیر عبدل نیشاپوری ،معروف پشتون تجزیہ کار فرحت تاج ،پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے طوری قبیلے کے شیعہ نژاد پشتون سکالر صادق علی ،معروف صحافی دفاعی تجزیہ کار عارف جمال اور دیگر کے درمیان تحریک طالبان پاکستان،اہل سنت والجماعت،لشکر جھنگوی وغیرہ کی مذھبی شناخت کے حوالے سے بعض پشتون قوم پرستوں کے متضاد رویوں پر ایک مباحثہ اس وقت شروع ہوا جب عبدل نیشاپوری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر لکھا

چند پشتون دوست (تمام نہیں) پاکستان آرمی کی بمباری سے وزیرستان میں مرنے والوں کی پشتون شناخت کو لکھ کر اور بول کر بمباری کی مذمت کررہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی طالبان،سپاہ صحابہ /اہل سنت والجماعت، لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کو واضح طور دیوبندی طالبان/اہل سنت والجماعت لشکر جھنگوی کے دھشت گرد نہیں کہتے چند پشتون قوم پرست اور سیکولر افراد کی جانب سے طالبان/لشکر جھنگوی کی دیوبندی شناخت پر خاموشی کئی سوال ان کے اصل ایجنڈے بارے کھڑے کردیتی ہے اور ان کے فرقہ پرست تضاد کو بھی ظاہر کرتی ہے

اگر پنجابی جرنیلوں اور ان کے سعودی مددگاروں کی شناخت اور ان کا نام لیکر مذمت کی جاسکتی ہے تو طالبان وغیرہ کو دیوبندی دھشت گرد مشین کیوں نہیں جوکہ نہ صرف شیعہ و سنی نسل کشی میں ملوث ہے بلکہ سیکولر بلوچ اور پشتون کی نسل کشی میں بھی ملوث ہے

اس تھریڈ سے فرحت تاج سمیت کئی ایک پشتون قوم پرست دانشوروں اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ بہت ہی اہم ایشوز پر بحث کا آغاز ہوگیا

اس ساری بحث سے میرے سامنے یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آئی کہ عبدل نیشاپوری کی یہ بات ٹھیک ہے کہ

پاکستان میں آج دائیں بازو اور بائیں بازو کے لوگوں کی یہ روش عام سی ہوتی جارہی ہے کہ وہ کراچی میں شیعہ نسل کشی مہاجر نسل کشی،کوئٹہ میں اسے ہزارہ نسل کشی،فاٹا خیبر پختون خوا میں اسے پشتون نسل کشی قرار دیکر ایک طرف پورے ملک میں تمام نسلی،ثقافتی گروپوں کے شیعہ کی نسل کشی پر پردہ ڈالتے ہیں تو دوسری طرف وہ یہ حقیقت بھی چھپاتے ہیں کہ شیعہ نسل کشی ،سنّی بریلوی،اعتدال پسند دیوبندی،ہندؤ،عیسائی اور احمدیوں کے قتل میں دیوبندی دھشت گرد ملوث ہیں جو پاکستان کی مختلف نسلی برادریوں،مختلف لسانی شناختوں اور پاکستان کے مختلف علاقائی پس منظر کے باوجود دیوبندی شناخت میں اشتراک رکھتے ہیں

عبدل نیشا پوری بالکل ٹھیک سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر دیوبندی تکفیری خارجی شناخت کو تحریک طالبان پاکستان،اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان،لشکر جھنگوی وغیرہ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے شرمایا کیوں جاتا ہے ؟اور ان کے ساتھ غلط طور پر سنّی کیوں لکھا جاتا ہے

مجھے اس بحث کے دوران فرحت تاج جوکہ بلاشبہ ایک معتبر اور غیر متعصب سیکولر ترقی پسند دانشور ہیں کی گفتگو سے بھی یہ اندازہ ہوا کہ واقعی جس مسئلے کی طرف عبدل نیشاپوری نے زکر کیا وہ ایسا ہے کہ اچھے بھلے دانشور بھی اس پر الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہیں

فرحت تاج کا ابتداء میں خیال یہ تھا کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر بالقوہ تشدد اور دھشت گردی کا رجحان نہیں پایا جاتا اور وہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر اس رجحان کو باہر سے درآمد کردہ ایک عنصر گردانتی ہیں ،ان کے خیال میں اصل میں جب سعودیہ عرب،امریکہ،پاکستان نے پشتون علاقوں کو اپنے سٹریٹجک مقاصد کے لیے چنا اور یہاں ایک جہادی سسٹم کو قائم کرنے کے لیے سرمایہ لگایا تو یہ علاقہ چونکہ دیوبندی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کی اکثریت پر مشتمل تھا تو اس لیے دیوبندی مکتبہ فکر کا چہرہ زیادہ تشدد اور زیادہ عسکریت پسندانہ ہوگیا،فرحت تاج کا یہ بھی خیال تھا کہ پاکستانی ریاست اور جی ایچ کیو نے دیوبندی مکتبہ فکر کو سارے وسائل جہادی مشین قائم کرنے اور اس کے زریعے انتہا پسندی پھیلانے کے لیے مہیا کئے اگر ایسے وسائل اور سٹریٹجک مفادات کی خاطر سرمایہ کاری پاکستان کے کسی اور علاقے میں کسی اور مسلک پر ہوتی تو اس کا رنگ بھی اسی طرح متشدد اور دھشت گردانہ ہوتا

فرحت تاج نے اسی دوران یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ہم دھشت گردی کو دیوبندی دھشت گردی کہتے ہیں تو پھر بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ممتاز قادری کے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کو کس خانے میں فٹ کریں گے

عبدل نیشا پوری نے فرحت تاج کے ان سوالات اور توضیحات پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے پہلی دلیل تو یہ دی کہ اعداد و شمار یہ بتلاتے ہیں کہ پاکستان کے اندر بریلوی یا صوفی ٹیررازم ایک نارم نہیں ہے جبکہ دھشت گردی پر سلفی وہابی آئیڈیالوجی غالب ہے اور اس کا ذیلی ٹھیکہ افغانستان و پاکستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے پاس ہے

دوسرا عبدل نیشاپوری نے دیوبندی ازم کے اندر دھشت گردی کی جڑوں کا تاریخی بنیادوں پر ایک جائزل پیش کیا اور اس ضمن میں اکبر کی جانب سے ہندوستان کے اندر صلح کلیت اور تکثریت پسندی کے ایک حکومتی ماڈل کو رائج کرنے کی 16 ویں صدی میں کوششوں اور ان کوششوں کے راستے میں شیخ احمد سرہندی اور ان کے عقیدت مندوں کی روکاوٹوں کا زکر جہاں کیا وہیں جہانگیر کے دور میں اس متشدد رجحان کی جہانگیر بادشاہ کے ساتھ ہم آہنگی اور پھر عالمگیر کے دور میں اس طرف مزید جھکاؤ اور عالمگیر کے بعد مشرق میں انگریز،مغرب میں مرہٹہ،سکھ اور جاٹ کا چیلنج سامنے آنے پر شاہ ولی اللہ کی تحریک اصلاح اور اس کے بطن سے سید احمد اور اسماعیل دھلوی کی تحریک جہاد اور اسی دوران شاہ عبدالعزیز کا فتوی دارالحرب اور پھر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد 1867ء میں دارالعلوم دیوبند کا قیام ،قاسم ناناتوی بانی مدرسہ کے رجحانات ،ان کے بعد رشید گنگوہی اور پھر مفتی محمود حسن کے دور میں تحریک جہاد کا ابھار اور اس مدرسے کی شاخوں کا موجودہ فاٹا،خیبرپختون خوا اور افغانستان میں پھیلاؤ،ضمنی طور پر خان عبدالغفار خان کی جانب سے دیوبندی مدارس کے قیام کی حوصلہ افزائی اور پھر یہاں پر دیوبندی تحریک جہاد کے زیر اثر ایک نئی دیوبندی عسکریت پسندی اور اس کا 80 ء کی دھائی میں سعودی-امریکی-پاکستانی جہادی تثلیث سے اتحاد کا جائزہ لیتے ہوئے میرے خیال میں عبدل نیشاپوری یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر کیسے تشدد اور دھشت گردی کے بالقوہ عناصر موجود تھے جو سعودی سلفی وہابیت کی حمائت اور امداد سے پوری طرح میچور ہوکر سامنے آگئے
(میرے خیال میں دیوبندی دھشت گردی کی جڑوں کے تاریخی جائزے میں اگر یہ بات بھی شامل کردی جائے کہ کیسے شاہ ولی اللہ اپنے دورہ حجاز کے دوران سلفی وہابیت کے خیالات سے آشنا ہوئے اور یہ اثر ان کے بیٹوں اور خاص طور شاہ عبدالعزیز میں آیا اور پھر شیعہ کے بارے میں بہت زیادہ متشدد رویہ بھی دیکھنے کو ملا اور جدید دور میں یہ مولوی شبیر عثمانی اور بعد کے پاکستانی دیوبندی مولویوں کی تعداد تھی جو آل سعود کے ساتھ گہرے رابطوں میں آئی اور ماضی کا قدرے دبا دبا سا خارجی تکفیری رجحان دیوبندیت میں زیادہ گہرا ہوتا چلا گیا،اس کے برعکس برصغیر کے اہل سنت صوفی اور شیعہ کے ہاں دھشت گردی ایک نارم کے طور پر کبھی نظر نہیں آئی ،ویسے شیخ احمد سرہندی کی شدت پسندی میں اس وقت کے محدث اعظم اور اہل سنت کے امام سمجھے جانے والے شیخ عبدالحق محدث دھلوی سمیت جشتی،قادری سلسلے کے صوفیاء کی اکثریت نے حصّہ دار بننے سے انکار کردیا تھا)

یہاں سے بحث نے ایک اور رخ اختیار کیا اور یہ سوال بھی عبدل نیشاپوری نے اٹھایا کہ

اگر دیوبندی تکفیری دھشت گرد تنظیموں اہل سنت والجماعت،طالبان ودیگر کی آئیڈیالوجی سے دیوبندی علماء کو اختلاف ہے اور وہ اس آئیڈیالوجی کی تائید نہیں کرتے اور اسے دیوبندی مکتبہ فکر میں باہر سے آئی ہوئی خیال کرتے ہیں تو اس کے خلاف واضح اور اعلانیہ فتوی جاری کرتے ہوئے یہ فتوی کیوں نہيں دیتے کہ تحریک طالبان پاکستان،اہل سنت والجماعت،جنداللہ،لشکر جھنگوی یہ سب غیر دیوبندی خارجی تکفیری تنظیمیں ہیں اور ان کے داخلے اپنی مساجد و مدارس میں بند کیوں نہیں کرتے؟

فرحت تاج اس کا سبب ایک تو دیوبندی عسکری تنظیموں کا خوف بتلاتی ہیں اور دوسری اس کی وجہ ریاست ،جی ایچ کیو کی جانب سے ان دھشت گردوں کی حمائت یا ان کی عجیب وغریب مبہم پالیسی بتلاتی ہیں وہ اپنی دلیل کا ثبوت مولانا حسن جان کی طالبان کے ہاتھوں ہلاکت بتلاتی ہیں

لیکن عبدل نیشا پوری کا کہنا یہ ہے کہ بریلوی اور شیعہ کو بھی یہ خطرات ہیں لیکن ان کی جانب سے اس بنیاد پر دیوبندی دھشت گردوں کی مخالفت ترک نہیں کی گئی

اسی دوران عارف جمال جوکہ شیڈو وار جیسی پاکستان ملٹری اور اس کی جہادی پراکسی پر لکھی جانے والی معروف کتاب کے مصنف بھی ہیں اور دیوبندی،سلفی وہابی عسکریت پسند تںطیموں سے بہت گہرائی تک واقف ہیں اس بحث میں شامل ہوئے

ان کا کہنا تھا کہ فرحت تاج نے مولانا حسن جان کو غیر تکفیری خارجی دیوبندی ثابت کرنے کی جو کوشش کی غلط ہے ،مولانا حسن جان سے انہوں نے جو انٹرویو کئے اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ حسن جان افغانستان اور دیگر ملکوں میں تو وہ سب کچھ کرنے پر رضامند تھے جو طالبان کررہے تھے وہ بس پاکستان میں خودکش بم حملے کے خلاف تھے

میں خود بھی جانتا ہوں کہ مولانا حسن جان شیعہ کے بارے میں دیوبندی تکفیری خارجی اور سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی حق نواز جھنگوی کی رائے سے متفق تھے اور بہت سخت خلاف تھے شیعہ کے اور اس حوالے سے ابھرنے والے متشدد گروہوں کے خلاف انہوں نے کوئی فتوی نہیں دیا
اس بحث کے دوران فرحت تاج،صادق علی نے کم از کم اصولی طور پر اس بات سے اتفاق کرلیا کہ آج شیعہ،بریلوی،اعتدال پسند عام دیوبندی،ہندؤ،عیسائی ،احمدیوں کو دھشت گردی کا نشانہ بنانے والے والے دھشت گرد گروپس دیوبندی تکفیری ہیں اور ان کی اس شناخت کو نہیں چھپانا چاہيے

شیعہ نسل کشی کو نسلی بنیادوں پر خانوں میں بانٹ کر دیکھنا اور پھر بریلوی،ہندؤ ،کرسچن،احمدی،اعتدال پسند دیوبندی و اہلحدیث کے قتل اور ان پر حملوں کے مرتکب گروہ کی دیوبندی شناخت کو چھپانا یا اس کو سنّی شدت پسند یا سلفی وہابی کہہ کر بیان کرنا اصل میں دھشت گردی کی جڑوں بارے کنفیوژن پھیلانا ہے

عبدل نیشاپوری اگر اس کو ہائی جیکنگ کا عمل کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے

یہ فرقہ پرستی ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کی فرقہ وارانہ جڑوں کو چھپانا فرقہ پرستی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ دھشت گردوں کو سنّی انتہاپسند دھشت گرد کہتے ہیں تو وہ اس پر زیادہ ردعمل نہیں دیتے لیکن جیسے ہی آپ ان کی دیوبندی شناخت کا پول کھولتے ہیں تو وہ آگ بگولا ہوجاتے ہيں

حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی مدارس اور مساجد پر اہل سنت والجماعت،تحریک طالبان پاکستان ،جنداللہ وغیرہ کے لیے کبھی دروازے بند نہیں ہوئے اور اس میں دارالعلوم کراچی،جامعہ بنوریہ،دارالعلوم کبیروالہ،حقانیہ اکوڑہ خٹک سے لیکر خیبر سے کراچی تک کے مدارس شامل ہیں اور کسی ایک مدرسے کے دارالافتاء نے آج تک کسی ایک دیوبندی دھشت گرد تنظیم اور اس کے کسی ایک لیڈر تک کے بارے میں یہ فتوی نہیں دیا کہ دیوبند مکتبہ فکر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے آخر کیوں؟یہایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ان تمام لوگوں پر فرض ہے جو ٹی ٹی پی،اے ایس ڈبلیو جے وغیرہ جیسی تنظیموں اور ان کے دھشت گرد ساتھیوں کی دیوبندی شناخت کو چھپاتے ،مسخ کرتے یا اس کے ظاہر ہونے پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کرنے لگتے ہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button