مقالہ جات

کون سی شریعت؟

ttp womenایک حالیہ ٹاک شو میں پاکستان کے لئے قابل قبول اسلامی قوانین کی شکل پر گفتگو کے دوران، پینل میں شامل ایک رکن کے محتاط سوالات کو اینکر نے یہ کہہ کر نظر اندازکر دیا، کہ؛

"پاکستان میں ہر شخص شریعت کا نفاذ چاہتا ہے جو چیز طے ہونا باقی ہے وہ ہے اس کی شکل و صورت”-

یہ بیان، خصوصاً بیان کا پہلا حصہ، جب سے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع ہوئی ہے خاصے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہے- ہر روز شام کو ہر طرح اور ہر نوع کے مذہبی حضرات ان مذہبی قوانین کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں جو نجات کا راستہ پیش کرتے ہیں- لیکن ان مشکلات کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے جو ان قوانین کی تشریح اور ان پر عمل درآمد میں ہوتی ہے- اس اسلامی جمہوریہ میں آزادی اظہار کا انتخاب بس اتنا ہی ہے-

اس مطالبے کی آفاقیت کی تہہ میں جو پیغام چھپا ہوا ہے وہ یہ ہے؛ "ہر شخص شریعت چاہتا ہے، کسی کو اس کی بنیادی روح سے اختلاف نہیں، بس صرف طریقہ کار کے تعین کی ضرورت ہے-"

درحقیقت، تھوڑا عرصہ پہلے 2011ء میں، ایک سیاسی جماعت کے سربراہ (جن کا نام لینے میں ہتک عزت کے مقدمے کا ڈر ہے) نے مبہم طریقے سے یہ اعلان کیا تھا کہ شریعت ایک ایسا نظام ہے جو انسانوں اور جانوروں کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے، اور یہ کہ سوات میں تشدد پر تشویش — یعنی”شریعت” کا نفاذ اس کے محرک افراد کی نظر میں — "خودساختہ آزاد خیال” لوگوں کی طرف سے بلاوجہ شک و شبہہ پیدا کرنا ہے-

آفاقیت کے اس دعوے کے سیاق وسباق میں، یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان کی ایک بڑی اکثریت اپنے "بےدین” سیاسی-قانونی نظام کی کمزوریوں کے بارے میں واقعی سوچتی ہے؟

اور، کیا یہ عوام دلی خواہش ہے کہ اس کی جگہ ایک ایسا نظام آئے جسکی بنیاد "سچے” اسلامی طریقوں پر ہو؟

اس کے باوجود کہ مولوی اور اینکر حضرات سمجھتے ہیں کہ انہیں ہر شخص اور ہر چیز کی طرف سے بولنے کا حق ہے، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقین سے اس بارے میں کہنا مشکل ہے-

بہرحال، جو بات ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے:

پاکستان کی کم ازکم 95 فیصد آبادی اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے- زیادہ تر لوگ مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں، یہ دین کی ہدایات کے مطابق ہیں- جزوی طور پر وہ یہ سب عادتاً کرتے ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ ایک بہتر اگلی زندگی کی امید میں۔

اس کے علاوہ، بہرحال، پاکستانی روز ایسے سینکڑوں کام کرتے ہیں جن کا کسی عقیدے سے یا عبادت کرنے کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- لاہور میں ایک بیس سالہ نوجوان اپنے فیس بک پر مولانا طارق جمیل کا لکچر پوسٹ کرنے کے بعد کٹرینہ کیف کے ایک گرما گرم ناچ میں مگن ہوجاتا ہے- ہر شہر میں تاجر انجان گاہکوں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں، ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ چہرے پر شرعی داڑھیاں سجائے ‘شریعت’ کے بارے میں لیکچر بازی فرماتے رہتے ہیں!

پاکستان میں زندگی دوغلے پن کا شکار ہے اور ہمیشہ رہی ہے، رواجوں اور خواہشات، قناعت اور ذخیرہ اندوزی کے بیچ ایک نازک اور اکثر لاشعوری حدبندی- اور یہی دوغلا پن ریاست میں بھی اسی طرح موجود ہے-

پاکستان نے شروع سے ہی مذہبی رسوم کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرکے اپنی شناخت سے متعلق سوالات کو سلجھانے کوشش کی ہے، کبھی قرار داد مقاصد، کبھی دوسری ترمیم کی صورت میں — ہر ایک کا نتیجہ مزید مسائل لیکن کسی قدر مستحکم توازن کے ساتھ-

لبرل مبصرین نے ان حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اکثر پاکستان کے دہرے پن کو منافقت سے تشبیہہ دی- اور ممکن ہے ایسا ہو بھی، کیونکہ یہ اسی طرح کی منافقت ہے جو ایک ایسے ملک میں ممکن ہے جو مذہب کے نام پرتشکیل دیا گیا ہو، جہاں ہر آنے والی نئی حکومت کیلئے، کئی وجوہات کی بنا پر، مذہبی رسومات کی بڑی اہمیت ہے-

اس وقت جو بحران ہے، وہ یہی ہے کہ طالبان اچھی طرح سے اس دہرے پن کی نوعیت اور اس کی وسعت کو سمجھ چکے ہیں- جس کی وجہ حکومت کا معاملات کو حل کرنے میں تذبذب، اور ٹی ٹی پی کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا ایک تسلسل ہے ٹی ٹی پی نے قومی دھارے کی سیاسی گفتگو کو ایک نئی سمت دیدی ہے اور اب بدعنوانی، معاشی ترقی اور نئی تقسیم سے ہٹا کر اس سوال کی طرف اس کا رخ کر دیا ہے کہ ہمارا قانونی-سیاسی نظام روحانی زندگی کے تابع ہے یا نہیں-

متعلقہ مضامین

Back to top button