مقالہ جات

طالبان ۔۔‘ ‘پاکستان کے بیٹے؟‘‘

choanلاہور میں 32 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 2 سو سے زیادہ جید علماء و مشائخ کی مولانا سمیع الحق کی صدارت میں منعقدہ ’’علماء و مشائخ کانفرنس‘‘ اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ کانفرنس میں شریک علماء و مشائخ نے کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں ’’فتویٰ‘‘ دے دیا کہ ’’طالبان پاکستان کے بیٹے ہیں۔‘‘ ’’فتویٰ‘‘ نہ ہوا موم کی ناک ہو گئی! جب چاہا‘ جس طرف پھیر لو۔ 9 ستمبر 2013ء کو اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان کو ہمارے اپنے لوگ اور ’’STAKE HOLDERS‘‘ تسلیم کر لیا گیا تھا۔ کسی کا بھی ماتھا نہیں ٹھنکا کہ قاتلوں اور دہشت گردوں کو تسلیم کرکے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے پاکستان کی بنیادوں پر کلہاڑا مار دیا گیا ہے۔ اگر طالبان کہلانے والے دہشت گرد ’’پاکستان کے بیٹے‘‘ ہیں تو ان کے ہاتھوں قتل (شہید) ہونے والے پاک فوج کے 8 ہزار افسران اور جوان اور 42 ہزار معصوم اور بے گناہ لوگ کون تھے؟ اور ان کے لواحقین کس ملک کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں؟۔ شاعر نے کہا تھا؎
وہی قتل بھی کرے ہے‘ وہی لے ثواب الٹا!!
مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کے قائدین تو خیر اپنے بزرگوں کے مخصوص سیاسی/ مذہبی پس منظر کی وجہ سے طالبان کو ’’پاکستان کے بیٹے‘‘ قرار دے رہے ہیں لیکن پاکستان کی باقی 30 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 2 سو سے زیادہ علماء و مشائخ خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اعلان کریں کہ کیا واقعی وہ ریاست پاکستان کے خلاف بغاوت اور قتل غارت کا بازار گرم کرکے ’’آداب فرزندی‘‘ بجا لا رہے ہیں؟ مشترکہ اعلامیہ میں یہ مطالبہ بھی دلچسپ ہے کہ اگر حکومت اور طالبان میں مذاکرات ناکام بھی ہو جائیں تو بھی ریاست پاکستان دہشت گردوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے! قربان جائیے! شاعر نے کہا تھا؎
’’تیر نگاہ ناز کے‘ قربان جایئے!
ثابت کسی جگہ سے‘ کلیجہ نہیں رہا!‘‘
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے جس لچک اور رواداری کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ہم مذاکرات کی کامیابی کے لئے انتہائی پرامید ہیں۔‘‘ سبحان اللہ!
مکرر ارشاد! بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ عین ہندوؤں کے باپو گاندھی جی کی پالیسی کے مطابق۔ ادھر مذاکرات کا دکھاوا اور ادھر قتل و غارت۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم طالبان اور حکومت کو اللہ کا واسطہ دے کر ان سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے!! ’’جنگ بندی‘‘ کی ترکیب بھی خوب ہے۔ طالبان دہشت گردی کے مجرم ہیں اور سکیورٹی فورسز کبھی کبھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتی ہیں۔ ابھی حکومت تو گومگو کی حالت ہے۔ اس نے تو ابھی کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔ اسے تو عوام کے معاشی مسائل کے حل کا بھی موقع نہیں ملا۔ جن مذہبی جماعتوں کے قائدین نے ’’ملحد سوویت یونین‘‘ کو افغانستان سے نکال باہر کرنے کے لئے ’’اہل کتاب‘‘ (عیسائیوں اور یہودیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کیلئے ’’مجاہدین اسلام‘‘ کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا تھا‘ وہ اب اس جنگ کو نارِ نمرود‘‘ کہہ رہے ہیں۔ نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ کو تیز کون کر رہا ہے؟
ایک سال پہلے فروری 2013ء کے اواخر میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کی رجسٹریشن پر مامور وفاقی ادارے ’’NATIONAL ALIENS REGISTRATION AUTHORITY‘‘ (NARA) کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’پاکستان میں 36 لاکھ غیر ملکی تارکین وطن ملکی سلامتی کے لئے سخت خطرہ ہیں‘‘ رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’’صرف کراچی اور اس کے گردونواح میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 14 لاکھ ہے لیکن ’’NARA‘‘ میں صرف ایک لاکھ لوگوں کی رجسٹریشن ہے لیکن پولیس اور ایف آئی اے غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار نہیں کر رہی۔‘‘ یہ رپورٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور کی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف کے دور میں جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف (کراچی میں) مہم میں رینجرز بھی شامل ہو گئے ہیں لیکن غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق تو ’’برادر ملک افغانستان‘‘ سے ہے جن کی رجسٹریشن بھی ’’NARA‘‘ کے پاس نہیں۔ ان سے کیسے نمٹا جائے گا؟ وہ اگر طالبان کی طرح’’پاکستان کے بیٹے‘‘ نہیں ہیں تو کم از کم ’’عم زاد‘‘ تو ہوئے۔ حیرت کی بات ہے کہ طالبان قبل ازیں صرف ’’مولانا سمیع الحق کے بیٹے‘‘ کہلاتے تھے لیکن اب وہ پاکستان اور اہل پاکستان کی خدمت کرتے کرتے ’’پاکستان کے بیٹے‘‘ تسلیم کر لئے گئے۔ کل کلاں مولانا سمیع الحق ’’بابائے قوم ‘‘ کہلانے لگیں تو کوئی ان کا کیا بگاڑ لے گا؟ مولانا سمیع الحق کی صدارت میں ابھی دوسرے شہروں میں بھی ’’علماء مشائخ کانفرنسیں‘‘ ہوں گی۔
مذاکرات کے ذریعے امن کے خواہشمند وزیر اعظم نواز شریف کو مذاکرات کے دوران طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر بہت مایوسی ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ ’’اسی طرح کی کارروائیوں سے مذاکرات کو دھچکا لگا‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے‘‘ ادھر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ ’’طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں ختم نہ ہوئیں تو ان کے خلاف آپریشن ہو گا۔ حکومت پر کافی دبائو ہے۔ ’’دبائو‘‘ کس طرف سے ہے؟ ظاہر ہے کہ پاک فوج کی طرف سے اور پاک فوج پر فوجی شہدا کے لواحقین اور طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم اور بے گناہ لوگوں کے ورثاء کی طرف سے بھی سوال ریاست پاکستان کی خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ کا ہے۔ آئین جمہوریت پارلیمنٹ اور عدلیہ کی بقا کا کسی بھی مدرسے کا ڈگری یافتہ عالم دین پاکستان کے آئین اور جمہوری نظام کا مذاق اڑانے کا حق رکھتا ہے۔ مولانا عبدالعزیز بھی جولال مسجد کے خلاف آپریشن کے دوران برقع پہن کر فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے تھے وہ بھی؟
وزیر اعظم نواز شریف کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ ’’حکومت اور فوج میں ہم آہنگی ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’دہشت گردوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تو عوام ہم سے باز پرس کریں گے‘‘۔ جناب والا ! غیر فطری موت مرنے سے ہر شخص ڈرتا ہے۔ مولانا عبدالعزیز نے تو عوام کو یہ کہہ کر بھی ڈرا دیا ہے کہ ’’طالبان نے 5000 خود کش حملہ آور خواتین کی فوج تیار کر رکھی ہے‘‘۔ کل کلاں مولانا سمیع الحق اور ان کے ہم نوا یہ بھی کہہ دیں گے کہ ’’خودکش حملہ آور خواتین بھی قوم کی بیٹیاں ہیں‘‘۔ علماء مشائخ کی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں تمام مسلمانوں، علمائ، مشائخ، دینی مدارس، مساجد اور خانقاہوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ 21 فروری بروز جمعہ کو ’’یوم دعا‘‘ منائیں۔ اگر دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لئے ، حسب سابق اور حب روایت کسی کی بھی دعا قبول نہ ہوئی تو کیا ’’پاکستان کے بیٹے‘‘ تسلیم کئے گئے طالبان اپنی یا اپنے بزرگوں کی مرضی کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھیں گے؟

متعلقہ مضامین

Back to top button