مقالہ جات

سپاہ محمد پاکستان، حقیقت یا افسانہ

khuram zakiگذشتہ کئی سالوں سے جاری دہشتگردی ملک کی نظریاتی بنیادوں اور جغرافیائی سرحدوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف ابھی تک اس بات کا ہی فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اس دہشتگردی کے اسباب کیا ہیں۔ ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے اور حد یہ ہے کہ جن کی ذمّہ داری لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے ان کی اپنی زندگیوں کے لالے پڑے ہیں۔ جی او سی سوات میجر جنرل ثناءالله خان نیازی اور چوہدری اسلم کا کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں قتل اسی حقیقت کا شاخسانہ ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہونی بہت ضروری ہے کہ بہت سے لوگوں کے خیالات کے برعکس ہمارے ملک میں دہشتگردی کا گیارہ ستمبر 2001ء میں امریکہ پر ہونے والے حملے اور اس کے جواب میں افغانستان پر امریکی قبضہ سے محض ایک رسمی اور واجبی سا تعلق ہے۔

بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ خود نائن الیون ایک نتیجہ تھا ان عوامل اور پالیسیز کا کہ جن کے تحت امریکی اور پاکستانی حکومتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے "جہادی فکر و نظریہ” کی پرورش و حوصلہ افزائی کی اور "جہاد” کو ریاستی تزویراتی اہداف کے حصول کے لئے بطور کارگر ہتھیار افغانستان اور چیچنیا میں استعمال کیا گیا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ایران میں جنداللہ اور شام میں القاعدہ سے منسلک دہشتگرد گروہوں بشمول جبہۃ النصرہ کی امریکی حمایت اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ "جہاد” کو اپنے فوجی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی امریکی روش فی الحال جاری رہے گی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا اس حوالے سے امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کا حصہ ہے، جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ جن لوگوں سے آج امریکہ افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے، کل انہی لوگوں کو سپورٹ کر رہا تھا اور وہابی "اسلام” کو اسی مقصد کے امپورٹ کیا گیا، تاکہ سابقہ سوویت یونین کے خلاف امریکی فوجی مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے۔

اس بات کی تصحیح بھی ضروری ہے کہ جس "جہادی” فکر کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اس کا تعلق براہ راست ایران اور سعودی چپقلش سے نہیں تھا بلکہ سابقہ سوویت یونین ہی اس "جہاد” کا اصل ہدف تھا۔ البتہ ساتھ ساتھ پاکستان میں بڑھتے ہوئے ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات کو روکنا بھی اس کا ایک ضمنی فریضہ قرار دیا گیا اور وہ یوں ممکن ہوا کہ جن مدارس اور مولویوں کی ذمّہ داری افغانستان میں جاری جنگ کے لئے نظریاتی اور افرادی وسائل فراہم کرنا تھی، انہی کی مقامی ڈیوٹی یہ لگائی گئی کہ انقلابی شیعہ نظریات کا مقابلہ کیا جائے اور کسی طور اسلامی انقلابی روش کو یہاں پنپنے نہ دیا جائے، اس ہدف کو پانے کا اس سے بہتر کیا طریقہ ہوسکتا تھا کہ پاکستانی عوام میں شیعہ سنی منافرت کو ہوا دی جائے۔ مولانا منظور نعمانی اور علامہ احسان الہی ظہیر کی کتابیں جو امریکی پٹھو سعودی حکومت کی مالی امداد سے چھپوا کر تقسیم کرائی گئیں، ان کا ہدف اصلی ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ہی تھا۔ آہستہ آہستہ انقلابی اثرات کو امام بارگاہوں تک محدود اور پھر ٹرسٹیز کی مدد سے امام بارگاہوں سے بھی باہر دھکیل دیا گیا۔

انجمن سپاہ صحابہ بھی انہی کاوشوں کا ایک مظہر ہے، جس کے قیام کا مقصد شیعہ سنی منافرت کو ہوا دینا اور مکتب تشیع کی تکفیر ہے۔ گو دیوبندی مسلک کے اکابر علماء کی روش کبھی بھی تکفیر کی نہیں رہی اور اس حوالے سے ان کا منہج ہمیشہ احتیاط پر ہی مبنی رہا، جس کے مشاہدہ کے لئے فتاویٰ رشیدیہ اور فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، مگر سعودی اور امریکی امداد اس بات کا سبب بنیں کہ یہ معتدل روش بھی انتہاء پسندی کا شکار ہو اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر دہشتگردی کے پیچھے اسی مسلک سے وابستہ دہشتگرد نظر آتے ہیں۔ یہ تکفیری روش جو کہ القاعدہ سے وابستہ عرب "جہادیوں” کے ذریعہ ہمارے مدارس اور قبائلی علاقوں تک پہنچی ہے، اب مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے مدارس کے ایک بڑے طبقے کو کرپٹ کرچکی ہے۔ محدودے چند مدارس جو اس انحراف سے محفوظ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان میں مولانا تقی عثمانی صاحب کا دارالعلوم کراچی شامل ہے۔ مگر جو خلاف ہیں انہوں نے بھی عملی چپ سادھ رکھی ہے اور جو خلاف بولنے کی جرأت کرتا ہے اس کا حال مولانا حسن جان جیسا ہوتا ہے۔

ماضی میں جامعہ علوم اسلامیہ واقع گرومندر کراچی کے نائب مہتمم مولانا محمد بنوری الحسینی جو کہ مدرسہ کے بانی مولانا یوسف بنوری کے فرزند بھی تھے، ان کو اسی تکفیری روش کے خلاف سر اٹھانے پر ان کے گھر کے اندر قتل کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور پر تحریک طالبان پاکستان کا حملہ اور حکیم الله محسود (جس کو کل تک سید منور حسن پہچاننے تک سے انکاری تھے) کا ویڈیو بیان جس میں وہ قاضی صاحب کی معتدل روش کے خلاف ہرزہ رسائی کر رہا ہے، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جو شخص بھی اس تکفیری ایجنڈہ کے خلاف بولنے کی ہمت کرے گا، اس کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی جائے گی۔ یہاں پر مفتی سرفراز نعیمی مرحوم کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، جنہوں نے اسی انتہاء پسندانہ تکفیری روش کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں اپنی جان قربان کر دی۔

واضح ہوگیا کہ اس تکفیری دہشتگرد گروہ جس کو ہم تحریک طالبان پاکستان، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی یا القاعدہ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اس کا نشانہ فوج اور عام شہری سے لیکر ہر وہ عالم ہے (چاہے اس کا تعلق مسلک دیوبند ہی سے کیوں نہ ہو) جو اس دہشتگرد گروہ کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کرے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ تبرا اور مسلکی اختلافات اس قتل و غارت گری کا اصل سبب ہیں، یہ بات محض جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے بیٹے اظہار الحق جھنگوی کو بھی یہی تکفیری گروہ مخبری کے شبہ میں کراچی میں اغوا کرکے قتل کر دیتا ہے اور وہ جو حق نواز کے وارث ہونے کے مدعی ہیں دم سادھے بیٹھے رہے۔

یہ بات منظر عام پر آچکی کہ حق نواز جھنگوی کے قتل کے پیچھے جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک اور سنی سیاستدان شیخ اقبال کا ہاتھ تھا اور اسی وجہ سے انجمن سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے شیخ اقبال کے بھائی کو دن دھاڑے گھر میں گھس کر قتل کر دیا تھا مگر عمومی تاثر یہ دیا گیا کہ جیسے یہ قتل کسی فرقہ وارانہ منافرت کا نتیجہ ہے۔ بعد میں لاہور میں ایرانی قونصل جنرل صادق گنجی کی شہادت نے واضح کر دیا کہ اس دہشتگردی کا اصل ہدف اور اغراض و مقاصد کیا ہیں۔ اس قتل کے پیچھے ریاض بسرا اور حق نواز نامی دہشتگردوں کا ہاتھ تھا اور ان دونوں کا تعلق کالعدم دشت گرد تنظیم انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی سے تھا۔

بعد میں حق نواز کو صادق گنجی کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ہوئی مگر ریاض بسرا مدتوں آزاد گھومتا اور قتل و غارت گری کرتا رہا۔ اس حقیقت کو بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی میں فکری اور عملی اعتبار سے کوئی جوہری فرق نہیں۔ دونوں کا ہدف اسلامی مکتب تشیع ہے۔ ملک اسحٰق جو کہ لشکر جھنگوی کا سربراہ رہا ہے، کی انجمن سپاہ صحابہ میں موجودگی اس کا ثبوت ہے، اسی طرح بلوچستان میں رمضان مینگل کی کالعدم سپاہ صحابہ سے وابستگی بھی سب کے سامنے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب جلسے کرنے ہوتے ہیں، سیاسی کام کرنا ہوتا ہے تو انجمن سپاہ صحابہ اور آج کل مکتب اہل سنت کا نام استعمال کیا جاتا ہے اور جب دہشتگردی کرنی ہوتی ہے اور شیعہ مسلمانوں کی قتل و غارت گری مقصود ہوتی ہے تو لشکر جھنگوی کا نام سامنے لیا جاتا ہے۔ یہ کم و بیش ایسا ہی ہے جیسے آیئرلینڈ میں شین فین اور آئرش ریپبلکن آرمی تھی۔

90 کی دہائی میں پاکستان میں ایرانیوں پر حملے خطرناک حد تک بڑھ گئے تھے۔ ملتان میں خانہ فرہنگ پر حملہ ہو یا راولپنڈی میں ایرانی فضائیہ کے اہل کاروں کا قتل عام، ہر جگہ ایرانی ان تکفیریوں کا ہدف تھے۔ ایسے میں سپاہ محمد منظر عام پر آتی ہے۔ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر قرار پاتا ہے اور یہ اعلان ہوتا ہے کہ اب شیعہ مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا، کیونکہ ریاست اس مسلک اور مکتب سے وابستہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ ایک عمومی تاثر بعض حلقوں میں یہ پیدا ہوا کہ جیسے انجمن سپاہ صحابہ کو سعودی امداد و پشت پناہی حاصل ہے، اسی طرح سپاہ محمد کو ایرانی سپورٹ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس تنظیم کی مالی امداد کے پیچھے اس وقت بھی زرداریوں کا نام لیا جاتا رہا۔

سپاہ محمد اور تحریک جعفریہ کے درمیان فکری و عملی فرق 180 درجہ کا ہے۔ تحریک جعفریہ ہی اسلامی انقلاب کے نظریات و افکار کی ترویج و فروغ کی ذمہ دار تھی اور سپاہ محمد کے حلقوں کی اس جماعت سے بیزاری و لاتعلقی ریکارڈ پر ہے۔ سپاہ محمد ایک ری ایکشنری رویہ کا نام تھی اور خود شیعہ مکتب کے اعلٰی اصول و اہداف کے جہاں دشمن و قاتل کو شربت پلانے کا چلن ہو، سے میل نہیں کھاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بعض واقعات میں عام اہل سنت کو نشانہ بنایا گیا تو اس جماعت کی پوپلر اپیل شیعہ نوجوانوں میں کم ہونے لگی اور پھر اندرونی اختلافات اور کچھ شہباز شریف کے آپریشن نے اس تنظیم کی کمر توڑ دی۔ اس تنظیم سے وابستہ علامہ غلام رضا نقوی صاحب گذشتہ 15 سالوں سے جیل میں اسیری کے ایام گزار رہے ہیں۔

پورے ملک سے اس کا نیٹ ورک عرصہ دراز پہلے اکھاڑ پھینکا گیا ہے، مگر ایرانی سعودی پراکسی وار کا وہ تصور جس کو 90 کی دہائی میں شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کو "علمی” پردہ ڈالنے کے لیۓ پیش کیا گیا تھا اور حقیقت سے جس سے کوسوں کی دوری پر تھی، ہر تھوڑے دنوں بعد اس بات کا متقاضی بنتا ہے کہ ہر تھوڑے دنوں بعد جب انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ہاتھوں شیعہ مسلمانوں کے خون کو ہولی اچھی طرح کھیلی جاچکی ہوتی ہے تو منہ کا ذائقہ بدلنے کو اور عام عوام کو یہ تاثر دینے کے لئے کہ یہ کوئی یکطرفہ جنگ نہیں بلکہ دہشتگردی دونوں طرف سے ہو رہی ہے، سپاہ محمد کا شوشہ بلند کر دیا جاتا ہے، سرکاری ذرائع ابلاغ اور میڈیا میں پبلسٹی کی جاتی ہے کہ دیکھو کچھ سپاہ محمد کے دہشتگرد بھی پکڑے گئے ہیں، گویا آگ دونوں جانب سے برابر کی لگی ہے۔

کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جناب یہ جو دوسری طرف سے بھی برابر کی آگ لگا ہونے کا جو منظر تراشنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس میں یہ بسوں سے لوگوں کو اتار کر، لوگوں سے ان کا مسلک پوچھ کر قتل کرنے کا منظر کیوں نظر نہیں آتا؟ کیوں برادران اہل سنت کی مساجد پر خودکش حملے نظر نہیں آتے؟ یہاں بتاتا چلوں کہ راولپنڈی میں پاکستان کی مسلح افواج سے منسلک مسجد ہو یا جمرود کی مسجد جہاں خاصہ دار نماز ادا کرتے تھے، ان دونوں مساجد پر اسی تکفیری دہشتگرد گروہ نے حملے کیۓ جو اہل تشیع کی تکفیر اور قتل عام میں ملوث ہے. یہ صحیح ہے کہ جیسے اس تکفیری گروہ کے بعض افراد پاک فوج کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے، اسی طرح بعض شیعہ نوجوانوں کے ردعمل کا بھی نشانہ بنے ہوں، لیکن یہ جو حال میں اس گروہ کے کچھ لوگوں کو پنجاب میں قتل کیا گیا، وہ اس تکفیری گروہ کے اندرونی اختلافات کا شاخسانہ ہے، جس میں لدھیانوی اور ملک اسحق کی چپقلش اور اسی گروہ کی بعض بیوہ خواتین سے منسلک مسائل کا ہاتھ ہے۔

سنہ 2010ء دسمبر میں بھی اسی طرح سے کچھ شیعہ نوجوانوں کو گھر سے گرفتار کرکے ان کی گرفتاری پولیس مقابلہ میں ظاہر کی گئی اور بعد میں ان کو سپاہ محمد اور لشکر مہدی سے وابستہ ظاہر کرکے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یونیورسٹی روڈ کے کسی تھانے میں اس تاریخ کو ایسے کسی پولیس مقابلے کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہ تھا۔ بعد میں وہ سارے لڑکے عدالتوں سے عدم ثبوت پر رہا ہوگئے، لیکن ان کے وکلاء جن میں مختار بخاری اور شہید عسکری رضا شامل تھے، کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ابھی کچھ روز قبل جن لڑکوں کو سپاہ محمد کا قرار دے کر گرفتار کیا گیا ہے ان کا بھی حال کچھ یہی ہے۔

جوہر حسین ایک عام غریب محنت کش فرد، جس کا تعلق پہلوان گوٹھ سے ہے اور ڈرائیونگ اور دیگر مزدوری کرکے گھر چلاتا ہے، آج سے لگ بھگ دو مہینے قبل گرفتار کیا گیا اور جب دوسرا اس کی خبر گیری کرنے سی آئی ڈی سینٹر پہنچا تو اسے بھی ساتھ بیٹھا لیا گیا، محض ٹوٹل پورا کرنے کے لئے۔ سانحہ مستونگ کے بعد جب کراچی میں دھرنا جاری تھا تو مولانا شہنشاہ حسین نقوی کی پاک محرم ہال میں پریس کانفرنس کے درمیان مولانا جعفر سبحانی نے راجہ عمر خطاب کو مخاطب کرکے کہا کہ یا تو لڑکوں کی گرفتاری ظاہر کرو یا ان کو رہا کرو، جس کے بعد دوسرے ہی دن ان جوانوں کو سپاہ محمد کا دہشتگرد قرار دے کر منظر عام پر لایا گیا۔ مقصد یہی ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے اس قتل عام پر پردہ ڈالا جاسکے اور یہ تاثر دیا جاسکے کہ شائد یہ کوئی ایرانی اور سعودی پراکسی وار ہے، لیکن لوگ اب جاگ چکے ہیں اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے ایک متبادل فراہم کر دیا ہے، سو یہ جهوٹ اب نہیں چل سکے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button