مقالہ جات

سعودی حکومت اور ملائیت مدینہ میں رسول پاک (س) کا مزار منہدم کرنے کے موقعہ کی تاک میں ہے

madina shiitenewsمکہ کے حج ریسرچ سینٹر کے بانی اور سابق ڈائریکٹر اور مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات کی تباہی کے مخالف سمیع علوی کے اندازے کے مطابق مکہ اور مدینہ میں 300 سے زائد کے تاریخی مقامات پہلے ہی تباہ کیا جا چکا جیسا کہ پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کا گھر جو کہ مکہ ہلٹن ہوٹل کے لئے جگہ بنانے کے لئے منہدم کیا گیا تھا. ( ہلٹن ہوٹل کے ایک ترجمان آیورمیک برنی کے مطابق ، “ہمیں سعودی عرب کی مذہبی سیاحت میں زبردست مواقع دکھائی دیے . ) ” یہ نبی کی کہانی کا ثبوت ہے ، صرف ہمارے ورثے کا نہیں ، ” اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں ؟ یہ پارکنگ اسلام کی پہلا سکول تھا ؟ ‘ ایک پہاڑ ہوا کرتا تھا جہاں محمدﷺ نے ایک تقریر کی تھی ؟ . تاریخ اور کہانی کے درمیان فرق ہے ثبوت . ” سعودی حکام نے ابراج البیت ٹاورز کے لئے راستہ بنانے کے لئے مکہ میں ایک اہم اٹھارویں صدی کے عثمانی قلعہ کےعلاوہ سینکڑوں آثار قدیمہ کو مسمار کرنے کی اجازت دی تھی، اس فعل کی مزمت کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے اسے ثقافتی نسل کشی ” قرار دیا۔ حضرت محمدﷺ سے تعلق رکھنے والے ایک قدیم گھر کو حال ہی میں ایک عوامی بیت الخلا کی جگہ بنانے کے لئے مسمار کر دیا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر سے تعلق رکھنے والی ایک قدیم مسجد کی جگہ اب ایک اے ٹی ایم مشین ہے ۔احد اور بدر میں محمدﷺ کی تاریخی جنگوں کی جگہوں پر ایک پارکنگ لاٹ بنا دیا گیا ہے . مکہ میں باقی تاریخی و مذہبی مقامات کو اب ہاتھ پر شمار کیا جا سکتا ہے اور اندیشہ ہے کہ اگلے حج تک یہ بھی باقی نہ رہیں “یہ حیران کن ہے کہ خدا کے گھر کے لئے کتنی کم تعزیم ہے” کویت پر عراقی قبضے کے دوران سعودی حکومت نے اسلامی عمارات کو منہدم کرنے کے کام کو تیز کردیا تھا۔ سعودی حکومت نے دنیا کی توجہ عراقی-کویتی بحران کی طرف ہونے کا فائدہ اٹھایا اور حضور پاک (ص) کا گھر مبارک اورمقبرات کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وزارتِ مذہبی امور نے ان دنوں ایک اشتہار چھاپا جس کو مسجدِ نبوی میں بانٹا گیا۔ اشتہار میں درج تھا کہ ” ہرا گنبد (گنبدِ خضرا) کو گرا دیا جائےگا اور وہاں موجود تین قبر مبارک کو ہموار کردیا جائےگا”، جب کہ وہاں حضرت عمر، حضرت ابوبکر اور حضرت محمد(ص) پردہ فرما رہے ہیں۔ اس اشتہار کو مفتی اعظم سعودی عرب کی تائید حاصل تھی۔ اس اشتہار کے پروپگینڈا کو وہابی مولوی محمد ابن العماین نے اپنی تقاریر و خطبات میں بھی خوب دہرایا، یہ مولوی 35 سال تک مکہ کی جامع مسجد میں خطبات بھی دیتے رہے۔ ایک خطبے میں انہوں نے کہا کہ ” ہمیں امید ہے کہ ایک دن ہم گنبدِ خضرا کو گرانے میں کامیاب ہو جائینگے”، جس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔ آرٹیکل کے جواب میں شہزادہ ترکی الفیصل نے لکھا کہ ” ہمیں معلوم ہے کہ ان عمارات کا تحفظ کتنا اہم ہے، نہ صرف ہمارے لئے اہم ہے بلکہ یہ تمام مسلمین کے لئے اہم ہے جو ہر سال یہاں ان 2 مساجد کی زیارت کرتے ہیں۔ انکو منہدم کرنے کی اجازت ہم ہرگز نہیں دیں گے۔”، انہوں نے مزید کہا کہ سعودی حکومت 19 ارب ڈالر سے دونوں مساجد کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ جو اسلامی تاریخی عمارات آج سے 1400 سال پہلے حضور پاک (ص) کے دور مبارک میں موجود تھیں ان میں سے صرف 20 بچی ہیں۔ جن تاریخی عمارات کو اب تک گرایا جا چکا ہے ان میں حضور (ص) کی زوجہ مبارک حضرت خدیجہ (رضہ) کا گھر بھی ہے جس کی جگہ اب عوامی بیت الخلاء لے چکا ہے۔ صحابی رسول اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر (رض) کے گھر کی جگہ اب ہلٹن ہوٹل لے چکا ہے۔ حضور (ص) کے نواسے علی اورید کے گھر اور مسجد ابو-قوبیس کی جگہ اب شاہی محل لےچکا ہے اس ڈاکومنٹری میں ایک پمفلٹ کے بڑے میں بتایا گیا ہے جو حج کے دنوں میں حاجیوں میں مسجد نبوی کی منھدمی کے بڑے میں تقسیم کیے گیے – یہ گھٹیا سوچ اور خیال یقیناً وہابی ذہنیت کی ہی اخترا ع ہے – وہابی مللہ اور مفتی جو نفرت اور شر پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے – وہ اپنی من پسند تشریحات کے حوالے سے اسلامی تاریخی مقامات کی منھدمی کو جائز قرار دے رہے ہیں – ان اثار کی مھدمی کا مقصد اسلامی تاریخ کو مٹانا ہے جس سے اسلام کی شانخت کو مٹا کر اسلام کو بھی ایک خیالی مذہب کے طور پر پیش کرنا ثابت کیا جا سکے – سعودی ارب کے وہابی حکمرانوں نے ایک ڈیل کے تحت حکومت پر قبضہ کر کے خلافت عثمانیہ کو توڑنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا اس وقت سعودیوں کی اس حرکت کے خلاف بر صغیر کے دیوبندی اور بریلوی مسلمانوں نے بہت زیادہ اجتجاج کیا تھا اور تحریک خلافت کے بعد سعودی حکمرانوں نے بر صغیر کے مسلمانوں سے ایک معاہدہ کیا تھا جس میں انھیں اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ مقدس مقامات پر تمام مسلمانوں کا یکساں حق تسلیم کیا جائے گا انہوں نے “اسلامی دنیا کے سب سے زیادہ احترام شخصیت کے طور پر امام کو ظاہر کرنے کے اردو میڈیا کی طرف سے چلائے جھوٹے پروپیگنڈے پر گہری تشویش کا اظہار کیا”. وہ بھی شاہ عبد العزیز (ابن سعود) کے ایک متولی کے تحت مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور حجاج کے دیگر شہروں کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا تھا جس میں میں بھارتی مسلم رہنماؤں اور سعودی امام مکّہ کے درمیان معاہدے پر وضاحت کے لئے امام سے مطالبہ کیا کہ جو کے خطے میں قیام امن کے لئے ضروری تھا مگر اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا انہوں نے امام کو یہ پیغام سعودی بادشاہ تک پہنچانے کا بھی کہا تاہم، آہستہ آہستہ وہ یہ زہریلا پروپیگنڈا اسلامی دنیا میں کر رہے ہیں اور اس پروپیگنڈہ پمفلٹ کے کی بمباری حجاج پر کرتے ہیں .اور یہ انتہا پسندی (دہشت گردی کے لئے ایک نرسری ہے)، شاید اسی لئے اس کو ایک اور لفظ سعودیت کہتے ہیں. کسی حاجی کو سعودی عرب میں کسی بھی کتاب کو لانے کے لئے کی اجازت نہیں ہے لیکن ان کو تاریخی مقامات کی منھدمی کے کے حق میں پمفلٹ بنتے جاتے ہیں آخری اسلامی خلافت کے یہ غدار، اسرائیلی ریاست کے بانی برطانیہ کے شریک بانی کے حامیوں کی حکمت عملی اور منافقت کی تاریخ مختصر نہیں ہے ابھی تک منہدم نہ کیے جانے کی وجہ : سعودی علما نے گنبند کا ایک ڈیزائن تیار کیے ہے جو کہ ” بدعت ” کے زمرے میں نہیں آے گا لیکن ابھی تک وہ علما اس پر متفق نہیں ہو سکے اور باقی گنبند کا رنگ بھی تبدیل کرنے کا سوچا جا رہا ہے – اب یہ حکام پر ہے کہ وہ کب علما کے فتووں پر عمل کرتے ہیں اسے منہدم نہ کرنے کی ایک وجہ فتنہ سے بچنے اور وہ لوگ ہیں جو عام لوگوں اور جاہل لوگوں کے درمیان افراتفری کی قیادت کر سکتے اور سعودیوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہ خوف بہت ہے . بدقسمتی سے عام لوگ گمراہ علما اور بدعت کے اماموں کی تبلیغ و کی قیادت کے نتیجے میں اس گنبد کی طرف محبت کے جذبات کو پوجا سمجھنے کی سطح تک پہنچ چکے ہیں . یہ وہی لوگ ہیں جو حرمین کی عظمت کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے اور مشتعل کرتے ہیں . وہ اپنی مرضی کے خلاف کیے جانے والے بہت سے کاموں کو خلاف شریعت سمجھتے ہیں مندرجہ بلا اقتباس سعودیوں کی انیس سو پچیس والی حکمت عملی کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے جو انہوں نے آج بھی اپنا رکھی ہے – وہ دیوبندی اور بریلویوں کو آہستہ آھستہ اپنی ترد میل کر کے ان کی حمایت لینے کی کوشش کرتے رہے گے جیسے وہ پہلے کر چکے ہیں اور آخر کار انھیں منھدمی پر راضی کر لینگے مسلمانوں جاگو اور اپنے مقدس مقامات کو ان غاصبوں سے آزاد کرا کے منہدمی سے بچاؤ

متعلقہ مضامین

Back to top button