سانحہ عاشورا راولپنڈی کے حقائق اور معلومات
دنیا بھر میں پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) کے پیارے نواسے حضرت امام حسین (ع) اور ان کے رفقاء کی عظیم قربانی کی یاد میں یوم عاشورا کو عزاداری کے جلوس نکالے جاتے ہیں اسی طرح پاکستان بھر کے تمام شہروں اور قصبوں میں بھی یوم عاشورا کو شہدائے کربلا کی یاد میں اور امام حسین (ع) کی عظیم قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جلوس عزا برآمد ہوتے ہیں ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی راولپنڈی میں یوم عاشورا کا انعقاد ہے کہ جہاں قیام پاکستان سے قبل اور ڈھائی سو سال سے ایک قدیمی جلوس عزاء آج بھی برآمد ہوتا ہے، یہ جلوس مرکزی راجہ بازار سے گزرتا ہو اپنے مقررہ مقام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
رواں سال میں یوم عاشورا پر جہاں پاکستان بھر میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا وہاں راولپنڈی میں ڈھائی سو سالہ قدیم جلوس عزاء ناصبی یزید ی دہشت گردوں کا نشانہ بنا ہے۔اس کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما تھے ، ان حقائق کو مشتہر کرنا ہم سب کی اولین ذمے داری ہے۔
راولپنڈی کے جلوس عزاء میں کیا ہوا؟
یہ جاننے کے لئے کہ وہاں کیا ہوا سب سے پہلے مسجد ضرارکے بارے میں جاننا ضروری ہے ۔ قران شریف کے مطابق :
اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کریں اور مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے پہلے جنگ کرچکے ہیں ان کے لیے گھات کی جگہ بنائیں۔ اور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصود تو صرف بھلائی تھی۔ مگر خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔
عزاداران امام حسین علیہ السلام کا جلوس عزاء مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ رواں دواں تھا کہ راستے میں موجود مسجد ضرار (غلا م اللہ) کے ناصبی یزیدی خطیب قاری شاکر نے جمعہ کے خطبے کے دوران کفریہ کلمات کہے اور نقل کفر کفر نباشد کے مطابق اس ملعون خطیب کے وہ گستاخانہ جملے نقل کئے دیتے ہیں: ملعون خطیب نے کہا کہ نواسہ رسول اکرم(ص) کا یزید کے خلاف قیام درست اقدام نہیں تھا اور امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف قیام کر کے بہت بڑی غلطی کی ، ملعون خطیب نے یزید ملعون کو شہزادہ کہا اور کہا کہ اگر امام حسین (ع) یزید کے خلاف قیام نہ کرتے اور اس غلطی سے دور رہتے تو آج زمانے میں خرافات نہ ہوتی۔مسجد ضرار کے خطیب نے شہدائے کربلا کی یاد میں برآمد ہونے والے جلوس عزاداری کو خرافات کہا ۔
اس پر رد عمل میں عزاداران امام حسین علیہ السلام نے لبیک یا حسین(ع) کے نعرے بلند کئے اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ مسجد ضرار کے خطیب کو خاموش کروایا جائے جو نواسہ رسول اکرم (ص) کی شان میں گستاخی کر رہا ہے، مسجد ضرارکے اس ملعون خطیب نے مزید کہا کہ بارہ ربیع الاول کو نکالے جانے والے عید میلاد النبی (ص) کے جلوس بھی خرافات ہیں ، جس پر علاقہ مکین سنی مسلمانوں نے بھی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ مسجد ضرار کے خطیب کے خلاف توہین رسالت (ص) کا مقدمہ درج کیا جائے اور اسے گرفتار کیا جائے لیکن موقع پر موجود پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔
یہاں یہ حقیقت یاد رہے کہ مسجدضرار کی انتظامیہ کو حکومت اور مقامی انتظامیہ نے حکم دیا تھا کہ مسجد سے صرف اذان اور عربی خطبہ کے لئے لاؤڈ اسپیکر استعمال کئے جائیں گے اور اردو میں کوئی خطاب نہیں ہوگا۔ لہٰذا قانونی اعتبار سے مسجد ضرار کی یزیدی انتظامیہ اور خطیب نے پاکستان کے قانون اور اسلامی قوانین اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کی۔ اورقانون کی خلاف ورزی بھی ایسی کہ اشتعال انگیز غلط بیانی اور کفر و شرک کے فتوے بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جوانان جنت کے سردار نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کو (نعوذ باللہ) غلطی ]پر قرار دے کر یزید اور یزیدیت کی حمایت کی۔
عزاداران امام حسین علیہ السلام احتجاجاً لبیک یا حسین (ع) کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے تھے، کہ اچانک مسجد ضرار کی چھتوں پر کچھ ناصبی دہشت گرد نمودار ہوئے جنہوں نے شرکائے جلوس پر پتھر اور اینٹوں کی بارش شروع کر دی جس پر عزاداران امام حسین علیہ السلام کے احتجاج میں شدت آگئی اور پتھرو ں اور اینٹوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسجد ضرار کے ملعون یزیدی خطیب کے گستاخانہ جملوں کے خلاف لبیک یا حسین (ع) کے فلک شگاف نعروں کا سلسلہ جاری رکھا ، چھتوں پر موجود ناصبی دہشت گردوں نے کچھ دیر پتھر اور اینٹیں برسانے کے ساتھ ساتھ بھاری اسلحے سے فائرنگ کرنا شروع کر دی۔
دفاع ہر انسان کا حق ہے:
جلوس عزاء پر ناصبی دہشت گردوں کی فائرنگ کے جواب میں دفاع کے طور پر چند افراد نے پولیس سے کہا کہ کے اسلحے کی مدد سے لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کریں لیکن یہاں بھی یہ بات مد نظررہنی چاہئیے کہ جب آپ نہتے ہوں اور آپ پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہو تو ایسے حالات میں دفاع واجب ہوتا ہے۔اس کے بعد یزیدی ٹولے نے سنی شیعہ مسلمانوں کی دکانیں جلادیں ۔راجہ بازار راولپنڈی کے تاجر اتحاد کے صدر شرجیل میر نے اس راز کو فاش کردیا ہے کہ راجہ بازار کی دکانیں جلانے میں مسجد ضرار اور مدرسہ جامعہ تعلیم القران ملوث ہے۔
جھوٹا پروپیگنڈا:
سانحہ راولپنڈی کے فوری بعد جھوٹا پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ مسجد ضرار میں موجود بچو ں کو ذبح کیا گیا، خواتین کو قتل کیا گیا، مسجد ضرار کے خطیب کو قتل کر دیا گیا، اور اسی طرح کے متعدد جھوٹے بیانات سامنے آتے رہے لیکن ان جھوٹ کے پلندوں کا سرا ایک کے بعد ایک کر کے کھلتا ہی چلا گیا، جہاں تک بچوں اور خواتین کے قتل کی بات تھی اس حوالے سے ناصبیوں کے اپنے ہی ایک مولوی طاہر اشرفی نے اس بات کی تردید کر دی جو کہ براہ راست ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران کہا کہ راولپنڈی سانحے میں مسجد ضرار میں نہ تو بچوں کو قتل کیا گیا اور نہ ہی خواتین کو بلکہ یہ سب جھوٹ ہے۔اسی طرح دیوبندی مدارس اور دیو بندی ناصبی یزیدی مولویوں نے جھوٹ کے ایسے پل باندھے کے جن کا سرپیر نہیں، دیوبندی مولویوں کاکہنا تھا کہ مسجد ضرار میں نوے افراد کو قتل کر دیا گیا لیکن حقیقت اس کے بر عکس رہی در اصل تین سے چار ناصبی دہشت گرد مارے گئے جو کہ خود اپنے ہی دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔آزاد ذرائع ابلاغ میں کل نو (۹) افراد کی ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے اور ان میں سے صرف چھ کی شناخت ہوئی اور تین کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی، ان میں سے کسی کو بھی ذبح نہیں کیا گیا۔ یہاں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کی ایک اہم حدیث نقل کرنا ضروری ہے جس میں آنجناب (ص) نے فرمایا کہ سارے گناہوں کی جڑ شراب نوشی ہے اور شراب نوشی سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے ۔ قران کہتا ہے کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔
دیو بندی مدارس کا فرقہ واریت کو پھیلانے میں کردار:
سانحہ راولپنڈی کے بعد پاکستان میں موجود بعض دیوبندی مدارس جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان میں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں اورا ن مدارس میں غیر ملکی بشمول افغانی، چیچن، ازبکستانی اور دیگر غیر ملکی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد زیر تربیت ہیں، انہی مدارس کے ایک اہم ترین ذمہ دارکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سرغنہ افضل اللہ نامی دہشت گرد نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور پاکستان میں فرقہ واریت کے بانی مولانا فضل الرحمان کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ اگر فضل الرحمان نے مسجد ضرار اورا س کے خطیب کی غلط حرکات کے باوجود بھی اس کا ساتھ نہ دیا تو پھر دیوبندی طلاب فضل الرحمان کو معاف نہیں کریں گے۔مولانا فضل الرحمان جو پہلے ہی طالبان دہشت گردو ں سے خوفزدہ ہیں انہوں نے اس بات کو منظور کر لیاکہ وہ جلوس کے راستے میں موجود مسجد ضرار کے خطیب کی نواسہ رسول (ص) کی شام میں کی جانے والی گستاخیکے باوجود اس کا ساتھ دیں گے۔
کراچی کے ایک دیو بندی مدرسے جامعہ بنوری سے تعلق رکھنے والے مفتی نعیم نے جلتی پر آگ کا کام کرتے ہوئے حقائق کا رخ اس طرح موڑا کہ ہر شخص کو پریشان کر دیا، مفتی نعیم کہتے ہیں کہ مسجد ضرار میں نوے افراد کو قتل کیا گیا، اگر نوے افراد قتل ہوئے تو پھر جنازے تین کے کیوں ہوئے؟
واضح رہے کہ ملک بھر میں دیوبندی ناصبی دہشت گردوں کے مدارس میں دس لاکھ سے زائد طلباء موجود ہیں جن میں پانچ لاکھ غیر ملکی دہشت گرد ہیں جو خود کش حملہ آور ہیں۔
حکومت او ر ذرائع ابلاغ کی ملی بھگت:
سانحہ راولپنڈی میں مسجد ضرار کو نذر آتش کیا جانا در اصل حکومت پنجاب اور ذرائع ابلاغ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے ،کیونکہ حکومت سمیت ذرائع ابلاغ نے مسجد ضرار کو نذر آتش کئے جانے کے واقعہ کو اس طرح بنا کر پیش کیا ہے کہ جیسے عزاداران امام حسین علیہ السلام نے نذر آتش کر دیا ہو بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ناصبی دہشت گردوں نے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کے لئے نہ صرف مسجد ضرار کو آگ لگائی بلکہ اپنے ہی دہشت گرد ساتھیوں کو بھی گولیوں سے چھلنی کر دیا، لیکن افسوس ہے حکومت اور ذرائع ابلاغ پر کہ جنہوں نے حقائق کو موڑ توڑ کر بیان کرنے کی کوشش کی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت اور میڈیا کے افراد کو مسجد ضرار تو جلتی ہوئی نظر آتی رہی لیکن راجہ بازار میں ہی موجود شیعہ مسلمانوں کی تین مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کر دیا گیا وہ میڈیا اور حکومت کو نظر نہیں آئی۔افسوس کی بات ہے کہ حکومت اور میڈیا مل کر ایک کالعدم دہشت گرد گروہ کو مظلوم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ جلوس عزاء کے راستے میں موجود تین مساجد اور امام بارگاہوں کو جلانے کی کسی بھی حکومتی اہلکا ر نے اور نہ تو میڈیا نے تذکرہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت او ر ذرائع ابلاغ ناصبی کالعدم دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ہیں۔
پاک فوج کی موجودگی اور مساجد اور امام بارگاہ سمیت گھر نذر آتش:
پنڈی میں ہونے والے عاشورا کا سانحہ ایسے حالات میں رونما ہوا جب جلوس عزاء عزاداران امام حسین علیہ السلام عزاداری کے لئے آئے ہوئے تھے کہ جن کے پاس نہ تو کوئی اسلحہ تھا اور نہ ہی کوئی آتش گیر مادہ تھاتو پھر مسجد ضرار کس طرح نذر آتش ہوئی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ فوج اور پولیس کی موجودگی میں رات گئے جب کرفیو نافذ کیا جا چکا تھا تو تین مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کر دیا گیا اور افواج پاکستان سمیت انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی؟
سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے ہمارے مطالبات اور موقف:
۱۔حکومت اور تحقیقاتی کمیشن اور کمیٹی اس حقیقت کو فراموش نہ کرے کہ سوشل میڈیا پر کالعدم سپاہ صحابہ (موجودہ نام اہلسنت و الجماعت ) نے اس پرامن جلوس عاشورا کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپنے دہشت گردوں اور جنونی انتہا پسندوں کو مسجد ضرار غلام اللہ میں جمع ہونے کی ہدایت کی تھی۔ لہٰذا پرامن جلوس عاشورا کو سبوتاژ کرنے کی سازش پہلے سے ہی تیار تھی۔
۲۔ اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کالعدم دہشت گروہ سپاہ صحابہ کے بدنام زمانہ دہشت گرد مسعود الرحمان عثمانی ، امان اللہ،اشرف علی، صادق آباد کا تنویر عالم، مدنی مسجد کا ثناء اللہ، عبدالرشید، اعوان کالونی کاقای نثار احمد ڈیڑھ سو سے دوسو یزیدی دہشت گردوں کے ساتھ مسجد ضرار میں موجود تھے۔اس اہم نکتے کو شامل تفتیش و تحقیق کیا جائے کہ یہ سب وہاں پرامن جلوس عاشورا کو سبوتاژ کرنے کے لئے کیوں جمع ہوئے تھے۔
۳۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی توہین کرنے اور یزید کی مدح سرائی پر مذکورہ تمام مولوی نما دہشت گردوں اور ان کی کال پر جمع ہونے والے تخریب کار دہشت گردوں کو توہین رسالت کے مقدمے میں گرفتار کرکے سزائے موت دی جائے۔
۴۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے علماء کے نام پر جن شخصیات نے وفد بنا کر راولپنڈی میں ملاقات کی اس میں مذکورہ دہشت گردوں میں سے اشرف علی اورعبدالرشید بھی شامل تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت صوبے کے شیعہ مسلمان شہریوں کو کافر کہنے والے اور یزید ملعون کو حق بجانب قرار دے کر رسول خدا حضرت محمد (ص) کی توہین کرنے والے مولوی نما دہشت گردوں کا ساتھ دے رہی ہے۔
۵۔ پنجاب کے وزیر قانون نے بھی پرامن عزاداران سید الشہداء پر انگشت نمائی کرکے ملک اسحاق اور احمد لدھیانوی جیسے بدنام زمانہ تکفیری یزیدی دہشت گردوں کے ساتھ اپنے پرانے مراسم اور حمایت کی تجدید کردی ہے۔
۶۔عدالتی تحقیقاتی کمیشن پنجاب حکومت کے متعصبانہ اور جانبدارانہ رویے کو بھی اپنی تحقیقات میں شامل کرے اور صوبہ پنجاب کے وزیر قانون سے پوچھا جائے کہ لاؤڈ اسپیکر پر اشتعال انگیز کفریہ جملے اور توہین رسالت (ص) اور عزاداران سید الشہداء پر فائرنگ اور پتھراؤ کون سے قانون کے تحت جائز قرار دیا گیا ہے۔شیعہ مساجد اورامام بارگاہوں اور راجہ بازار کی دکانیں کس قانون کے تحت جلائی گئی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سارا ڈرامہ شروع کیسے ہوا اور کس نے شروع کیا؟
۷۔یہ سارے ثبوت موجود ہیں کہ یہ ساری سازش پہلے سے تیار تھی، دہشت گردوں کو جمع کیا گیا تھا ، ان کے سرغنہ وہاں موجود تھے اور اس سانحے کے بعد
برما میں گذشتہ سال جولائی کے مہینے میں شہید ہونے والے بچے کی تصویر یزیدیوں نے جاری کرکے اسے مسجد ضرار کا شہید ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی اور اس جھوٹ سے ثابت ہو ا کہ ان پر اللہ کی لعنت برس رہی ہے۔
۸۔ ایک دیوبندی عالم نے سوشل میڈیا پر بیان میں سوال کیا ہے کہ راولپنڈی کی بدنام زمانہ مافیا کے سرغنہ تاجی کھوکھر کے مسلح افراد مسجد ضرار میں موجود تھے اور تاجی کھوکھر اور بدنام زمانہ دہشت گرد احمد لدھیانوی ایک دوسرے کے یار غار ہیں۔ لہٰذا سانحہ عاشور راولپنڈی کی تحقیقات میں اس مافیا کے کردار کی تحقیقات بھی کی جائے۔
۹۔ ڈھائی سو سال سے یوم عاشور کا جلوس اسی راستے سے گزر رہا ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ جلوس مکمل طور پر پرامن ہوتا ہے۔
۶۔اگر مسجد ضرار کو عزاداران امام حسین علیہ السلام نے نذر آتش کیا ہوتا تو پھر راستے میں موجود دیگر مساجد کو نذر آتش کیوں نہیں کیا گیا؟
۷۔مسجد ضرار کے خطیب کی ایماء پر راستے میں موجود تین مسجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا گیا جس میں نہ صرف نذر آتش کیا گیا بلکہ قرآن مجید کے نسخوں اور پیغمبر اکرم (ص) کے اسم مبارک کے پھریروں سمیت مقدسات کو بھی نذر آتش کیا گیا۔کیا یہ مساجد اللہ کا گھر نہیں تھے؟ یہ مقدماتبھی قائم کئے جانے چاہئیں۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_US/all.js#xfbml=1”; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, ‘script’, ‘facebook-jssdk’));