مقالہ جات

تکفیری قاتل گروہ لشکر جھنگوی ملعون حق نواز جھنگوی سےملعون ملک اسحاق تک (4)

malon mallik ishaqلدھیانوی اور ملک اسحاق : ایک موازنہ
تکفیری جماعت سپاہ صحابہ کو نیٹو سپلائی بند کروانے کے لیے بنائی جانے والی دفاع پاکستان کونسل میں شامل کرنے کے حوالے سے خصوصی طور پر جنرل حمید گل کہتے ہیں کہ ہم ان کو مین اسٹریم میں لانا چاہتے ہیں، تاکہ یہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کافی حد تک یہ بات درست ہے اور سپاہ صحابہ نے امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے ساتھ یہ طے کیا ہے کہ وہ کافر کافر کے نعرے نہیں لگائیں گے اور نہ ہی قتل و غارت کی حمایت کریں گے۔ تکفیری جماعت میں ملک اسحاق اور لدھیانوی گروپ کے درمیان اختیارات اور وسائل کی تقسیم کے علاوہ اختلافات کی ایک وجہ سپاہ صحابہ کی یہ پالیسی بھی ہے۔ میڈیا کے ذرئع بتاتے ہیں کہ تحریک تحفظ ختم نبوت کے جلوسوں میں بھی سپاہ صحابہ کے قائدین ہر جگہ اپنے کارکنوں کو منع کرتے رہے تھے کہ کافر کافر کے نعرے نہ لگائیں بلکہ صرف ان نعروں کا جواب دیں جو اسٹیج سے لگائے جاتے ہیں۔ سنی شیعہ جماعتوں کے ان مشترکہ جلوسوں میں احمد لدھیانوی بذات خود اسٹیج سے یہ اعلان کرتا رہا ہے۔ اسی طرح کافر کافر کے نعروں سے ان اجتماعات میں بھی روکا جا رہا ہے جو خالص سپاہ صحابہ کے پلیٹ فارم سے منعقد ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن تکفیری جماعت کے کارکن ملک اسحاق کے گرد اکھٹے ہو رہے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کافر کافر کا نعرہ ہی جماعت کے وجود کا جواز ہے، ورنہ جماعت سرے سے ختم ہو جائے گی۔

لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے لدھیانوی گروپ کے درمیان تنظیمی اشتراک اور ہم آہنگی اب ناممکن ہے۔ تنظیمی اختلافات کے علاوہ ذاتیات کی چھاپ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ملک اسحاق مکمل طور پر ان پڑھ ہے اور کسی مدرسے نہیں پڑھا، احمد لدھیانوی ایک مدرسے کا پرنسپل ہے۔ ملک اسحاق کو بات چیت کرنے کا کوئی ڈھنگ نہیں، لدھیانوی اردو میں بات کرسکتا ہے اور اردو لکھ بھی سکتا ہے۔ ملک اسحاق دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتا ہے، لدھیانوی بزدل ہے۔ جی ایچ کیو پر حملے کے بعد ملک اسحاق کی رہائی اس شرط پر ہوئی ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات پر حملے کرنے والے پختوں اور پنجابی عسکریت پسندوں کے متعلق معلومات فراہم کرے گا، لدھیانوی نے پاکستانی اداروں سے ڈیل کی ہے کہ سپاہ صحابہ تکفیری روش چھوڑ دے گی اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کرے گی۔ ملک اسحاق جیل جانے کی وجہ سے موذی بیماریوں کا شکار ہے اور آسانی سے چل پھر نہیں سکتا، لدھیانوی قانون نافذ اداروں کی ناراضگی مول نہیں لیتا نہ ہی جیل جانا چاہتا ہے۔

ملک اسحاق مقامی سطح پر بھتہ خوری پر انحصار کرتا ہے، لدھیانوی سرکاری اور غیر ملکی پیسوں کو ترجیح دیتا ہے۔ ملک اسحاق کے ساتھ اجڈ اور ٹرک ڈرائیور ذہنیت کی ٹیم ہے، لدھیانوی جنرل حمید گل اور منور حسن جیسے لیڈروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ ملک اسحاق نے لدھیانوی کے ہاتھ پر بیعت کرکے اسے پھنسانے کی کوشش کی، لدھیانوی نے ملک اسحاق کی گرفتاری پر ہمیشہ خوشی کا اظہار کیا۔ ملک اسحاق کہتا کہ دشمنوں کے لیے خطرہ تھا اور رہوں گا، لدھیانوی کہتا کہ پاکستان میں شیعہ سنی دونوں مسالک کے لوگ قتل ہو رہے ہیں یہ فرقہ واریت نہیں دہشت گردی ہے۔ ملک اسحاق کا کہنا ہے کہ کسی کو امن کی نیند نہیں سونے دوں گا، لدھیانوی کو امن کا سفیر کہا جاتا ہے۔ ملک اسحاق کا موقف ہے کہ شیعوں کے لیے کوئی رعایت نہیں، لدھیانوی مناظرے اور ڈائیلاگ کا قائل ہے۔ ملک اسحاق کے نزدیک سنی بھی کافر ہیں، لدھیانوی کافر کافر کے نعروں کے خلاف ہے۔ اس ساری صورتحال کے نتیجے میں دونوں گروپوں نے الگ الگ بینکوں میں اکاونٹ کھلوا رکھے ہیں اور ایک دوسرے کو خائن اور غدار قرار دے کر پیسے بٹورنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ان کے درمیان خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

لشکر جھنگوی اور سیاسی ،مذہبی جماعتیں:
لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرح پڑھی لکھی قیادت اور ملکی و قومی معاملات کی فہم و فراست سے عاری گروہ ہیں۔ تشدد کے حربے استعمال کرکے پروان چڑھنے والے یہ ٹولے سیاسی طور پر بلیک میلنگ کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ مشرف کے دور میں پابندی کے بعد سیاست اور پارلیمنٹ میں سیٹ کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ متحدہ دینی محاذ کے پلیٹ فارم سے مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں انتخابات میں گھسنے کی کوشش کی لیکن نامراد رہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ انتخابات کے فوری بعد مولانا سمیع الحق شیعہ جماعت کے سربراہ علامہ ساجد نقوی کے ساتھ آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے بغلگیر ہوتے دکھائی دیئے۔ یہ سپاہ صحابہ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور اس کے بعد پاکستان میں کوئی بھی قابل ذکر انہیں اپنے ساتھ بٹھانے کا روا دار نہیں۔
لشکر جھنگوی کی طرف سے ء2013، 2012ء میں کوئٹہ میں دہشت گردی کی ذمہ داریاں قبول کیے جانے کے بعد نون لیگ سمیت کسی سیاسی جماعت کے لیے ممکن نہیں رہا کہ دہشت گرد ٹولے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں، رہی سہی کسر اندرونی اختلافات نے نکال دی۔ جب ریاض بسراء، اکرم لاہوری اور ملک اسحاق نے سپاہ صحابہ چھوڑ کر لشکر جھنگوی بنانے کا اعلان کیا تو سپاہ صحابہ کو اپنی سیاسی اور قانونی حیثیت بچانے میں کافی مدد ملی، لیکن یہ حکمت عملی 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

تکفیری جنگجووں کی وجہ سے کشمیر کی پاکیزہ عوامی اور عسکری جہدوجہد آزادی کو دھچکا
90ء کی دہائی کے آغاز میں افغانستان میں خانہ جنگی نے نہایت بھیانک صورت اختیار کرلی اور افغانستان میں موجود مختلف افغانی جہادی گروپوں سے تنگ آکر پاکستانی جنگجووں نے میران شاہ، چمن، لنڈی کوتل سے واپس پنجاب کے ذریعے کشمیر کا رخ کیا۔ 89ء سے باقاعدہ شروع ہونے والی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں شریک ہونے کے لیے افغانستان سے مایوس ہو کر آنے والے گروپوں نے کشمیری گروپوں سے ہٹ کر الگ تشخص کے ساتھ اپنے جہادی گروپ قائم کئے اور بعض نے اپنے افغانی تربیتی کیمپوں سے بیٹھ کر کشمیر کے لئے پرانے کمانڈروں اور عسکری تربیت کارون کے ذریعے نئی شاخیں کھول لیں۔ حرکت الانصار جو بعد میں حرکت المجاہدین اور جیش محمد کے ناموں سے مزید دو گروپوں میں تقسیم ہوجانے والی تنظیموں کے پہلے سے ہی پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں سے گہرے روابط تھے۔ ان جنگجووں نے مقبوضہ کشمیر میں جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے نئے جنگجو بھرتی کرنے کے لیے سپاہ صحابہ جیسی جماعت پر انحصار کیا، چونکہ افغان جہاد کے لئے افرادی قوت فراہم کرنے والی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق اور فضل الرحمان گروپ) جیسی جماعتوں نے کبھی حرکت الا انصار جیسے گروپوں کو اپنی صفوں میں نہیں گھسنے دیا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں میں جہاد کشمیر و افغانستان اور فرقہ واریت کی بنیاد پر سپاہ صحابہ کی قتل و غارت کو ایک نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اس تاثر کے پیدا ہونے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر کی جدوجہد آزادی کو جتنا نقصان پہنچ رہا ہے اور پہنچ چکا ہے، اس کا انداہ لگانا بہت مشکل ہے۔

لشکر جھنگوی کو سی آئی اے کی آشیر آباد:
1997ء میں خانہ فرہنگ ملتان پر حملے کی تفتیش کے دوران پولیس افسر اشرف مارتھ کو ان لمیٹڈ کریڈٹ کارڈز اور ڈالروں کی صورت میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے لشکر جھنگوی کی پشت پناہی کے ثبوت ملے تو انہوں نے تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر نواز بلوچ کا بھائی ایاز بلوچ امریکی سفارت خانے میں ملازمت کرتا ہے اور اس کے ذریعے لشکر جھنگوی کو رقم فراہم کی جاتی ہے۔ جس کے بعد اشرف مارتھ کو قتل کروا دیا گیا اور تفتیش رک گئی، لیکن حیرت انگیز طور پر ایاز بلوچ کو خفیہ اداروں نے گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا، لیکن نواز بلوچ نے سپاہ صحابہ سے لاتعلقی اختیار کرلی۔ لشکر جھنگوی کے گرفتار ہونے والے دہشت گردوں نے متعدد بار امریکی پشت پناہی کا ذکر کرتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ ہم امریکی پیسہ مال موذی سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔

وزیرستان اور لشکر جھنگوی
افغانستان پر امریکی یلغار اور شمالی اتحاد کی حکومت قائم ہونے کے بعد غیر ملکی دہشتگرد بڑی تعداد میں گرفتار ہوگئے اور جو بچ گئے وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھاگ آئے۔ 2004ء میں وزیرستان میں غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی افواج نے آپریشن شروع کیا۔ 2007ء میں لال مسجد کی جانب سے آپریشن کے خلاف پاکستان کے سینکڑوں دیوبندی علماء نے فتویٰ دیا اور پاکستانی فوج کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ وزیرستان کے ساتھ ساتھ حکومت نے لال مسجد انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی، جس کے نتیجے میں لال مسجد انتظامیہ نے اپنے کیے پر توبہ کرلی، لیکن تحریک طالبان پاکستان نے ملک بھر میں خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان تمام دھماکوں کی منصوبہ بندی کے لیے معلومات کی فراہمی اور خودکش حملہ آوروں کو ٹھکانے فراہم کرنے سے لیکر بارود کے ساتھ اپنے ٹارگٹ تک رسائی میں لشکر جھنگوی نے معاونت فراہم کی۔ جس کے بدلے میں وزیرستان میں لشکر جھنگوی کے تعلقات دہشت گردوں سے بہت زیادہ گہرے ہوگئے۔ لشکر جھنگوی نے پنجاب میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی اور فاٹا سے باہر دہشت گردی کی ذمہ داریاں قبول کرنا شروع کر دیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے سقوط کے بعد لشکر جھنگوی کی تربیت گاہ اور جائے پناہ وزیرستان اور بلوچستان ہیں اور افرادی قوت کی بھرتی کے لیے پنجاب اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے کافی زرخیز ہیں۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

Back to top button