مقالہ جات

تکفیری قاتل گروہ لشکر جھنگویحق نواز جھنگوی سے ملک اسحاق تک (3)

malon mallik ishaqتکفیری جماعت کی طرف سے امام مہدی (ع) کی شان میں گستاخی کی مہم
طالبان حکومت کے ساتھ ملکر جنگ میں شریک ہونے والے پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد تربیت مکمل کرنے کے بعد افغانستان میں موجود سپاہ صحابہ کے دہشت گرد ریاض بسرا سے ہدایات لیکر واپس آجاتے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور تخریبی کارروئیاں کرتے۔ ان میں کچھ دہشت گرد پکڑے گئے لیکن پہلے کی طرح اب سپاہ صحابہ کے دہشت گرد حرکت الانصار کے تربیتی کیمپوں کا نام لیکر اپنی جماعت سے لاتعلقی ظاہر نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ حرکت الانصار اب کمزور ہوکر اپنی دہشت کھوچکی تھی اور گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد پاکستان کی ریاستی پالیسی میں تبدیلی کی بدولت تمام شہروں سے دیگر درجنوں جہادی اور عسکری تنظیموں کی طرح حرکت الانصار کے دفاتر اور تشہیراتی مہموں کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا۔ اس لیے سپاہ صحابہ کو انتظامی طور پر مشکلات پیش آنے لگیں، لیکن سپاہ صحابہ کے مراکز، مدارس، عہدیداروں کے گھر اور دفاتر تمام پکڑے جانے والوں سے کسی نہ کسی رابطے کی وجہ پولیس کے چھاپوں کی زد میں آنے لگے۔ تکفیری جماعت زبردست اختلافات کا شکار ہونے لگی، لیکن کافر کافر کے نعروں میں کوئی کمی نہیں آئی۔

1994ء میں تکفیری جماعت کے سالار اعظم طارق نے مبینہ طور پر شیعہ مسلک کے بارہویں امام حضرت امام مہدی (ع) کی شان میں نازیبا الفاظ کہے۔ اس کے ردعمل میں بریلوی اور شیعہ دونوں مسالک کے جید علماء اور عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور شیعہ عسکری تنظیم سپاہ محمد نے اعظم طارق کے لیے سزائے موت کا اعلان کرتے ہوئے اسے واجب القتل قرار دے دیا۔ سپاہ محمد نے اعظم طارق پر کئی قاتلانہ حملے کیے لیکن وہ اسے قتل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

لشکر جھنگوی کی ٹارگٹ کلنگ، ریاض بسرا کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنیکا اعلان اور آئی ایس آئی کا پی پی حکومت کو انتباہ
افغانستان میں ریاض بسرا نے اپنے گروپ کو مزید مضبوظ بنا لیا اور سپاہ صحابہ سے الگ ہو کر لشکر جھنگوی کے نام سے شیعہ مسلک کے پیروکاروں کے خلاف قاتلانہ حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب ریاض بسرا نے شیعہ علماء اور شیعہ عزاداروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کر دی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کشمیر میں مجاہدین بھارتی فوج کے خلاف اپنی عسکری کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال خانہ جنگی کا منظر پیش کرنے لگی اور پوری دنیا میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور جانا جانے لگا۔ اس گھبیر صورتحال کو بھانپتے ہوئے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی نے پی پی پی حکومت کو مشورہ دیا کیا کہ لشکر جھنگوی پر فوراً پابندی لگا دی جائے اور اسے سختی کے ساتھ کچل دیا جائے، کیونکہ یہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے اور کھلی بغاوت ہے۔ پی پی پی کی حکومت نے سپاہ صحابہ کے ساتھ سیاسی معاہدوں کے ذریعے قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے لیے تکفیری جماعت کا واحد ووٹ لیا اور سپاہ صحابہ کے خلاف کریک ڈاون ختم ہوگیا اور لشکر جھنگوی کے خلاف بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ شیعہ مسلک کے پیروکاروں کی قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہا۔

طالبان کے ہاتھ حکومت آنے کے بعد لشکر جھنگوی نے کابل میں مستقل دفتر اور دیگر علاقوں میں اپنے تربیتی مراکز قائم کئے۔ جہاں گوریلا جنگ اور شہری علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور بارود سازی کے علاوہ خودکش حملوں کی تربیت بھی دی جانے لگی۔ اب حرکت الانصار پس منظر میں چلی گئی اور لشکر جھنگوی شیعہ مسلک کے افراد کی قتل و غارت کے علاوہ جہاد اسلامی العالمی کے ساتھ ملکر القاعدہ کے لیے پاکستان میں کام کرنے لگی، جس سے لشکر جھنگوی کے وسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی تنصیبات، شخصیات اور اہداف کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ اس وقت سے آج تک بدستور سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے تعلقات برقرار ہیں۔ سپاہ صحابہ کی دوسرے درجے کی قیادت اور کارکن لشکر جھنگوی کا مکمل ساتھ دیتے ہیں۔

مشرف کا مارشل لاء اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ
جنرل مشرف نے مارشل لاء لگا کر اگست 2001ء میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پر پابندی لگا دی، لیکن نومبر 2002ء میں اپنے حمایت یافتہ وزیراعظم کو ووٹ دلوانے کے لیے کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے اعظم طارق کو اس لیے رہا کر دیا گیا، تاکہ وہ ظفر اللہ جمالی کو ووٹ دے سکے۔ پابندی کے باوجود پاکستان کے چوہتر اضلاع میں کالعدم جماعت کا نیٹ ورک موجود ہے۔ لشکر جھنگوی کی تمام تر افرادی قوت سپاہ صحابہ ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ میں فرق کرنا ناممکن ہے۔ مشرف دور میں جب 2004ء میں جب قبائلی علاقوں میں غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا اور 2007ء میں تحریک طالبان کے نام سے دہشت گرد گروپوں نے پاکستان میں خودکش حملوں کا آغاز کیا اس وقت لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں سے آنے والے حملہ آوروں کو مکمل مدد فراہم کی، جس کے بدلے میں تحریک طالبان نے پنجابی طالبان کے نام سے لشکر جھنگوی کی افرادی قوت کو دہشت گردی کی تربیت کے ساتھ مزید فعال اور منظم ہونے میں مدد دی۔

تکفیری جماعت کا پی پی اور مسلم لیگ نون کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ
مشرف کے مارشل لاء سے پہلے پی پی حکومت کے برعکس مسلم لیگ نون کے دور اقتدار میں پنجاب میں اس وقت کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے لشکر جھنگوی کے خلاف موثر کارروائی کی تھی۔ جس سے لشکر جھنگوی کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور تکفیری جماعت کے تخریب کاروں نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو رائے ونڈ روڈ پر پل کے نیچے بوری بھر بارود رکھ کر دھماکے سے قتل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ کلثوم نواز اور مریم نواز اپنے ماڈل ٹاون کے گھر کے قریب واقع جامعہ المنتظر میں علم پر منتیں مانتی رہی ہیں اور بریلوی مسلک سے تعلق ہونے کی وجہ سے عید میلادالنبی اور عزادری کے اجتماعات میں بھی شرکت کرتی رہی ہیں، لیکن مشرف دور میں جیل سے رہائی اور بعد ازاں سعودی عرب میں طویل قیام کے بعد نون لیگ پر وہابی نواز ہونے کا لیبل لگایا جاتا ہے، حالانکہ نون لیگ میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی اور نون لیگ کے عہدیداروں کی معقول تعداد موجود ہے۔

رحیم یار خان میں سپاہ صحابہ نے ملک اسحاق کے بھائی کے ذریعے نون لیگ کے ساتھ انتخابی معاہدہ کیا کہ اگر نون لیگ اپنے ہم خیال ججوں کے ذریعے ملک اسحاق کو رہا کروا دے تو سپاہ صحابہ نون لیگ کی حمایت بھی کرے گی اور لشکر جھنگوی پنجاب حکومت کے خلاف عسکری کارروائی بھی نہیں کرے گا۔ یہ ڈیل کامیاب ہوئی اور لشکر جھنگوی العالمی نے بلوچستان کے شہر کوئٹہ، سندھ کے شہر کراچی اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں عاشورہ، چہلم اور یوم شہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے جلوسوں کو نشانہ بنایا۔ ٹارگٹ کلنگ کی اور خودکش دھماکے کروائے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

Back to top button