مقالہ جات

تکفیری قاتل گروہ لشکر جھنگوی ملعون حق نواز جھنگوی سے ملعون ملک اسحاق تک (2)

malon mallik ishaqجھنگوی کی تکفیری جماعت اور جمعیت علمائے اسلام
1985ء تک حق نواز جھنگوی جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی کابینہ کا حصہ رہنے کے ساتھ ساتھ ضلع کا ذمہ دار رہا اور 85ء میں انجمن سپاہ صحابہ کے نام سے اپنی تنظیم بنا لی، لیکن 88ء کے انتخابات میں جمیعت علمائے اسلام نے حق نواز جھنگوی کا ساتھ دیا۔ جب انجمن سپاہ صحابہ کا اعلان کیا گیا تو اس انجمن کے بیشتر اضلاع کے عہدیدار بہ یک وقت جمیعت علمائے اسلام کے عہدیدار بھی تھے اور انجمن سپاہ صحابہ کے بھی۔ جس کی وجہ سے حق نواز جھنگوی کو پورے ملک میں اپنا نیٹ ورک بنانے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا اور جونہی حق نواز جھنگوی قتل ہوا، اس کے بعد جمیعت علماء اسلام کی سپاہ صحابہ سے ہمدردی کم ہونا شروع ہوگئی۔ چوں مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق پاکستان کے نمایاں مذہبی و سیاسی راہنما ہونے کے ناطے سپاہ صحابہ کی شرپسندانہ سرگرمیوں اور اپنے سیاسی کیریئر کو ایک ساتھ لیکر چلنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے اور نہ ہی دونوں قائدین ایرانی دوستوں اور پاکستان میں شیعہ لیڈرشپ علامہ عارف الحسینی اور بعد ازاں علامہ ساجد نقوی کو ناراض کرنا چاہتے تھے۔ اب تو جمیعت علماء اسلام واضح طور پر شیعہ سنی اتحاد پر مبنی قائم ہونے والے اتحادوں متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل کے روح رواں کے طور پر تمام مسالک کے قائدین کے ساتھ ایک فعال کردار ادا کر رہی ہے اور پورے ملک میں جمیعت کا کوئی عہدیدار سپاہ صحابہ کا رکن نہیں۔ جمعیت علماء اسلام فرقہ واریت، مسلکی تشدد، مذہب کے نام پہ قتل و غارت کو امت مسلمہ اور پاکستان کے لیے زہر قاتل سمجھتی ہے۔

جہاد افغانستان کا شیلٹر اور تکفیری جماعت سپاہ صحابہ کی عسکری طاقت کی تیاری میں حرکت الانصار کا کردار
روس کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پراکسی وار کے بانی امریکہ کی ریشہ دوانی اور افغان گروپوں کے درمیان سیاسی طاقت کی تقسیم پر تنازعات کی وجہ روس کے افغانستان سے نکل جانے کے باوجود ملک میں جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ ابھی تک جاری ہے۔ افغانستان میں کیمونسٹ نواز حکومت کی جگہ مسلح افغان گروپوں نے لی اور ہر گروپ نے پاکستان، مصر، سعودی عرب، اردن، ازبکستان، تاجکستان اور چیچینی مجاہدین سمیت کئی ایک غیر افغان ہم خیال جتھوں کو تربیت یافتہ افرادی قوت کے طور پر استعمال کیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ تمام افغانی اور غیر افغانی گروپ ملکر روس کے خلاف جہاد میں حصہ لے چکے تھے اور روسی انخلاء کے بعد ایک دوسرے کے خلاف جنگ کو بھی جہاد کا نام دیتے تھے۔

سپاہ صحابہ کے تعلقات 80ء کی دہائی میں ان گروپوں سے نہیں تھے۔ البتہ ایسا ضرور ہوا کہ کچھ لوگ جو کسی نہ کسی ذریعے سے اس وقت افغانستان کے کیمپوں میں تربیت حاصل کرچکے تھے، بعد میں سپاہ صحابہ میں شامل ہوئے، لیکن ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ لیکن 90ء کی دہائی کے شروع میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کا آغاز ہوا۔ پنجاب کے شہروں سیالکوٹ اور ساہیوال میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مولانا سجاد حسین اور ایک اور عالم دین کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد قتل و غارت کا یہ سلسلہ بلووں اور مقامی سطح کی آپسی غیر مسلح لڑائیوں سے بڑھ کر خونی شکل اختیار کرنے لگا۔ اس قتل و غارت کا آغاز کرنے والے پنجاب کے مختلف علاقوں، بہاولپور، ملتان، جھنگ، سرگودھا، لاہور، بہاولنگر، منڈی بہاوالدین، لیہ، تلہ گنگ، سمندری وغیرہ سے تعلق رکھنے والے وہ تربیت یافتہ نیم خواندہ تنگ نظر مجاہدین تھے، جو افغانستان میں حرکت الانصار کے تربیتی کیمپوں سے عسکری ٹریننگ حاصل کرکے واپس آئے تھے۔ یہ تکفیری دہشت گرد گھات لگا کر ٹارگٹ کو قتل کرنے کی خصوصی تربیت لیکر آئے تھے۔

تکفیری جماعت سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے حرکت الانصار کے یہ ہم خیال جھتے زیادہ تر کم عمر نوجوانوں پر مشتمل تھے، لیکن قتل و غارت کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے ان کے استاد خصوصی طور پر ان کے ساتھ افغانستان سے پنجاب آتے اور ایک عرصے کے بعد واپس فرار کر جاتے۔ لیکن سپاہ صحابہ نے اپنا نیٹ ورک وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کیمپوں سے کم عمر نوجوانوں کی تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ جہاں جہاں سپاہ صحابہ اپنی تنظیم کی تشکیل کرتی گئی، وہان وہاں سے ان ہم خیال عسکری گوریلوں کو افغانستان کے لیے کھیپ ملنا شروع ہوگئی۔ یوں حرکت الانصار جیسی پنجاب سے تعلق رکھنے والی جہاد افغانستان میں شریک عسکری تنظیموں کا افرادی قوت اور تازہ بھرتی کا دروازہ کھل گیا اور سپاہ صحابہ کو اپنے کارکنوں کو کھلے بندوں تمام ہتھیاروں کی سکھلائی، ٹارگٹ سے متعلق معلومات اکھٹی کرنے، بارود تیار کرکے بم بنانے، گھات لگا کر ٹارگٹ کو نشانہ بنانے اور کامیابی سے فرار ہونے کی تربیت جاری رکھنے کا موقع ملا۔ 90ء کی دہائی کے وسط تک سپاہ صحابہ ایک متشدد تکفیری جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست عسکری تربیت یافتہ قوت بھی بن چکی تھی، لیکن 94ء تک سپاہ صحابہ کی طرف سے کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

جو لوگ کسی تخریب کاری یا اقدام قتل کی واردات میں پکڑے جاتے، وہ سپاہ صحابہ سے زیادہ افغانستان کے کیمپوں کا ذکر کرتے۔ حرکت الانصار اور افغانستان کے کیمپوں کا ذکر سن کر زیادہ تر پولیس افسروں کی دلچسپی تفتیش سے کم ہو کر اپنی جان اور اپنے بچوں کی زندگیاں بچانے کی فکر میں تبدل ہوجاتی۔ جو لوگ پکڑے جاتے وہ پولیس کو دھمکیاں دیتے اور حرکت الانصار کے مقامی دفتر سے جیل، عدالت میں پیشی کے دوران اور تھانوں کے حوالات میں گرفتار شدہ دہشت گردوں کے لیے کھانا، کپڑے اور تحائف لیکر آتے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں ان عسکری گروہوں کی طرف اشتہار، پمفلٹس، رسالے اور آڈیو کیسٹ تقسیم کئے جاتے، جن میں عسکری کارروائیوں کا بھرپور ذکر ہوتا کہ کشمیر اور افغانستان میں اس جماعت نے کتنی جگہوں پہ گھات لگا کر، دھماکہ کرکے اور کراس فائرنگ کے مقابلے کرکے کتنے دشمنوں کو قتل کیا ہے۔ جس سے پولیس اور بعض ججوں اور وکلاء بلواسطہ یہ پیغام جاتا کہ اس کیس کی تفتیش، پیروی اور فیصلہ سنانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

صورتحال یہ تھی کہ پکڑے جانے والے دہشت گرد کچھ عرصہ جیل میں آرام کرتے اور نئے ساتھیوں کو ساتھ ملاتے۔ اسی اثنا میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جیل توڑ کر یا پیشی پر جاتے ہوئے دہشت گردوں کو ان کے ساتھی فرار کروا کر افغانستان لے جاتے اور وقتی طور پر انتظامیہ سکھ کا سانس لیتی۔ ایک حکمت علمی کے تحت پکڑے جانے والے دہشت گرد خود تو سپاہ صحابہ سے تعلق کا اقرار نہ کرتے، لیکن ان کی گرفتاری کے دوران اور مبینہ فرار کے بعد پولیس، سی آئی ڈی سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سپاہ صحابہ کی عسکری قوت کی دھاک بیٹھ جاتی، جس سے سپاہ صحابہ کو پھلنے پھولنے اور اپنا خلاف قرآن و سنت اور خلاف آئین تکفیری ایجنڈا آگے بڑھانے میں بہت مدد ملی۔

تکفیری قاتل گروہ لشکر جھنگوی کی تشکیل اور افغانستان میں اپنے مراکز اور کابل میں دفتر کا قیام
1994ء میں افغانستان کے اندر طالبان نامی افغان طلبہ گروپ سامنے آیا اور دو سال کے قلیل عرصے میں کابل سمیت افغانستان کے بیشتر حصوں پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ قطر کو مرکز بنا کر امریکی سی آئی اے نے طالبان کے ساتھ ملکر ایران کے خلاف زبردست اشتعال انگیز ماحول بنا دیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کو ایران کے بارڈر پر لاکھڑا کیا۔ ایران اور افغانستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے لیکن پاکستان کی مداخلت سے جنگ ٹل گئی۔ اسی دوران پاکستان سے فرار کرکے جانے والے حرکت الانصار کے تربیت یافتہ دہشت گرد ریاض بسرا نے حرکت الانصار کے کیمپوں میں تربیت پانے والے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کو طالبان کے دستوں کے ساتھ افغانستان کے شمال میں شیعہ اکثریتی شہروں میں جنگ کے لئے روانہ کرنا شروع کیا۔ جس سے طالبان حکومت کی نظروں میں ریاض بسرا کو خاص مقام حاصل ہوگیا۔

حرکت الانصار اور حرکت المجاہدین کے پاکستانی سرپرست مفتیان کرام نے اس سے پہلے کبھی افغانستان میں جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ گلبدین حکمت یار اور افغانستان کے صدر برہان الدین ربانی کے ساتھ نہ رابطہ کیا، نہ ان کی حمایت کی اور نہ ہی افغانستان کے معاملات سے سوائے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کی عسکری ٹریننگ کے کسی چیز میں دلچسپی لی۔ بنوری ٹاون سے تعلق رکھنے مفتی حضرات کو خلیجی ممالک سے ان کے سرپرستوں نے ہدایات دیں کہ وہ افغانستان میں ایران مخالف طالباں حکومت کا ساتھ دیں تو افغانستان میں مسلمانوں کے درمیاں خانہ جنگی کو طالبان کی قائم کردہ امارت اسلامی کے خلاف بغاوت قرار دیا گیا اور پورے پاکستان میں اشتہاروں اور پمفلٹس کے ذریعے عوامی سطح پر طالبان کی حکومت کے حق میں فتوے آنا شروع ہوگئے اور پورے ملک سے سپاہ صحابہ کے ہم خیال لوگوں کو بھرتی کرکے افغانستان بھیجا جانے لگا۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

Back to top button