مقالہ جات

کیا خلیفہ دوم عمر ،مولا علی علیہ السالام کے داماد تھے؟افسانہ یا حقیقت،ضرورپڑھیں

abnaجناب ام کلثوم(س) کی وفات کی مناسبت سےجناب ام کلثوم بنت امیر المومنین علی علیہما السلام کی رحلت کی مناسبت سے ابنا نے تاریخ اہلبیت(ع) کے محقق حجۃ الاسلام و المسلمین عبد الحسین بندانی نیشاپوری کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی ہے۔
جناب ام کلثوم (س) کے بہت جلد رحلت پا جانے کی وجہ کیا تھی؟ /کیا خلیفہ دوم، علی علیہ السلام کے داماد تھے؟
حضرت ام کلثوم (س) کی ولادت کب ہوئی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ رسول اسلام (ص) کے بعد عالم اسلام کو در پیش مشکلات مخصوصا نقل حدیث کی حرمت اور تاریخی وقائع کے بیان پر بندش اور اہل تشیع میں تقیہ کا وجود جیسی وجوہات کی بنا پر بہت ساری چیزیں آنے والی نسلوں کے لیے یا تو بالکل پوشیدہ رہ گئیں یا پھر اختلافات کا شکار ہو گئیں لہذا انہی وجوہات کی بنا پر جناب ام کلثوم (س) کی تاریخ ولادت بھی دقیق طور پر معلوم نہیں ہے۔ اور یہ مشکل بعض آئمہ(ع) کے سلسلے میں بھی ہے جیسا کہ چوتھے امام، زین العابدین علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں ۱۳ قول نقل ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ آپ ایک معصوم امام ہیں لیکن آپ کی تاریخ ولادت مورد اختلاف ہے۔ اسی طرح جناب ام کلثوم (ع) کی تاریخ ولادت بھی دقیق طریقے سے معلوم نہیں ہے۔

 کیوں بعض بزرگ شخصیات کی ولادت کی تاریخیں دقیق معلوم نہیں ہیں؟
بعض آئمہ معصومین (ع) اور ان کی اولاد کی ولادت کی تاریخوں کے دقیق معلوم نہ ہونے کی چند وجوہات ہیں:
۱: کسی دوسری شخصیت کے زیر سایہ قرار پا جانا
حضرت ام کلثوم (س) جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کے زیر سایہ قرار پا گئیں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے بعض درخشاں صفات جیسے آپ کا سن میں ان سے بڑا ہونا، واقعہ کربلا میں سید الشہدا(ع) کی جانشین اور پیامبر ہونا، ایک خاتون ہونے کے باوجود اس قدر دلیری اور شجاعت کا ثبوت دینا، جگہ جگہ لہجہ علی (ع) میں خطبے دینا وغیرہ وغیرہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے جناب ام کلثوم کسی حد تک آپ کے زیر سایہ واقع ہو گئیں۔ مثال کے طور پر جناب زینب (س) کے بارے میں ۷۰ سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن جناب ام کلثوم (س) کے بارے میں صرف ۸ یا ۹ کتابیں ہیں۔
یا مثال کے طور پر جناب ام البنین(س) کے چار بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام ہیں لیکن باقی تینوں آپ کے زیر سایہ واقع ہو گئے اور جتنا تذکرہ جناب عباس (ع) کا ہوتا ہے اتنا باقی والوں کا نہیں ہوتا۔
اور یہ چیز بعض اوقات خود ایک شخصیت کے بارے میں بھی رونما ہوتی ہے جیسے خود جناب عباس (ع) کی شخصیت صرف شجاعت، بہادری، علمبرداری اور وفاداری کی عنوان سے معروف اور مشہور ہے جبکہ آپ کی شخصیت صرف انہیں صفات اور ابعاد میں منحصر نہیں ہے آپ "كان فقيهاً عالماً‘‘ ایک عالم اور فقیہ تھے، "كان فقيهاً زاهداً‘‘ ایک زاہد فقیہ تھے "بین عینیه اثر السجود ‘‘ آپ کی پیشانی پر سجدوں کے نشان تھے لیکن یہ تمام چیزیں اور صفات آپ کی شجاعت اور بہادری کے نیچے دب گئیں۔
۲: شیعی اسناد و مدارک کا ضائع ہو جانا
بہت ساری شیعی اسناد و مدارک ضائع ہو گئیں کنتے کتب خانوں کو جلا دیا گیا جیسے بغداد، رے، نیشاپور میں لائبریریوں کو جلایا گیا۔ تاریخ میں آیا ہے کہ اس دور میں کل ۳۲ دانشگاہیں تھیں جن میں سے ۲۳ صرف نیشاپور میں تھیں۔ جب مغلوں نے نیشاپور پر حملہ کیا تو ان کے لشکر کے سردار نے پوچھا کہ حمام کا پانی کس سے گرم کیا جاتا ہے؟ تو کہا: لکڑیوں سے۔ اس نے حکم دیا کہ اس کے بعد ایک ہفتے تک حمام کا پانی کتابوں سے گرم کیا جائے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ کتنی لائبریریاں اس میں جلاد دی گئی ہوں گی؟!
۳: اہلبیت(ع) کی مظلومیت
اسلام کے دشمنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اہلبیت(ع) کے نام و نمود کو مٹا دیا جائے۔ مثال کے طور پر امام حسین علیہ السلام کی قبر کو ۱۳ مرتبہ ویران کرنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ آپ امام معصوم اور نواسے رسول تھے۔ ایسے میں آپ خود ہی سوچیے کہ جناب ام کلثوم (س) تو بہر حال ایک خاتون تھیں اور اتنی زیادہ معروف بھی نہیں تھیں۔
متوکل نے اپنے دوران حکومت امام حسین علیہ السلام کے ۷۰ ہزار زائرین کا قتل کیا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں جیلوں کے علاوہ قتل کیا گیا تھا۔ لوگوں کی انگلیاں کاٹی گئیں بازوں کاٹے گئے خون کی بوتلیں لی گئیں۔
یہ تمام چیزیں باعث بنیں کہ اگر کوئی اہلبیت (ع) کے بارے میں کوئی حدیث بیان کرتا یا ان کا کہیں کوئی تذکرہ کرتا تو اسے اس طرح کی بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جاتا۔
مثال کے طور پر مرحوم شہید ثانی مذاہب اربعہ کی فقہ کا مسجد الحرام میں درس دیتے تھے لیکن فقہ جعفریہ کا کھلے عام درس نہیں دے پاتے تھے دوسری فقہوں کے درمیان فقہ جعفریہ کو بھی بیان کرتے تھے یا مرحوم کلینی کو کافی لکھنے میں اس طرح کی کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ ۲۰ سال لگ گئے۔ لہذا ان شرائط کو پیش نظر رکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کے ماننے والے کس گھٹن کے ماحول میں رہتے تھے۔
 پس ان تمام مشکلات کے باوجود اتنی معلومات تک پہنچنا بھی بہت بڑا کمال ہے۔
جی ہاں، اہلبیت(ع) کی تواریخ ولادت زیادہ تر ’’ سینہ بہ سینہ‘‘ ہم تک پہنچی ہیں اورجو کچھ کسی کتاب کے ذریعہ نقل ہوا ہے تو وہ واقعا ایک معجزہ رہا ہے۔
اہلبیت (ع) کی مظلومیت کو درک کرنے کے لیے آپ واقعہ کربلا کو ہی دیکھ لیجیے۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ہمارے مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں کو شام میں لے گیے‘‘۔ شام میں اس لیے نہیں لے گئے کہ انہیں وہاں پناہ دیں۔ بلکہ اس لیے لے گئے کہ ان کا شام میں مذاق اڑائیں، تفریح اور شراب کی محفلیں لگائیں اور ان میں ان اسیروں کا مذاق اڑائیں۔ شام میں اہلبیت (ع) کو اس لیے لے گئے تھے کہ ان کو قتل کر کے ان کا نام و نشان ختم کر دیں۔ یزید اور معاویہ کھلے عام یہ کہتے تھے ’’ دفنا دفنا‘‘ یعنی ہم اشھد ان محمدا رسول اللہ کو دفن کر دیں گے۔
 شیعوں کے محدثین اور راویوں نے بھی کتنی مشکلات اٹھائیں ہوں گی!
جی ہاں، جیسے ابن ابی عمیر کو شیعت کا نام لینے کی وجہ سے کتنی بار جیل میں جانا پڑا!۔ کس قدر جیلوں میں شکنجے برداشت کرنا پڑے! ایک مرتبہ آپ جیل میں تھے تو آپ کی بہن نے کتابوں کے ضائع ہو جانے کے خوف سے آپ کی تمام کتابوں کو ایک تابوت میں رکھ کر کالا کپڑا ڈال دیا اور محلے میں اعلان کر دیا کہ ان کے یہاں کسی کی وفات ہو گئی ہے تشییع جنازہ کیا جائے اس طرح تابوت کو لے جا کر ایک کھجوروں کے ایک باغ میں دفنا دیا اور اس کے اوپر گھاس لگادی۔ کچھ سالوں کے بعد جب ابن ابی عمیر جیل سے رہا ہوئے آپ نے جا کر تابوت سے کتابیں نکالیں۔ ابن ابی عمیر اور ان کی بہن کا یہ کام کوئی معمولی کام نہیں تھا۔
آپ ’’وسائل الشیعہ ‘‘ میں دیکھتے ہیں کہ کتنی حدیثیں ’’ عن ابن ابی عمیر‘‘ کے عنوان سے نقل ہوئی ہیں۔
لہذا یہ تمام چیزیں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ اہلبیت (ع) میں کے بعض افراد کی تاریخ ولادت مخفی رہ جائے۔
ابنا: جناب ام کلثوم کی زندگی کے سلسلے میں ایک اہم بحث آپ کی شادی کے بارے میں ہے کہ آپ کی شادی خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب سے ہوئی ؟ بعض کا عقیدہ ہے کہ یہ غلط ہے اور تاریخی تحریف ہے اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں درست ہے آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟
بزرگ شیعہ علماء کی نظر میں جناب ام کلثوم کے شوہر آپ کے چچازاد بھائی عون بن جعفر طیار تھے۔ جیسا کہ جناب زینب (س) کے شوہر بھی آپ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن جعفر طیار تھے علاوہ از ایں سادات کی سادات سے شادیوں کی رسم اس دور میں بھی پائی جاتی تھی جیسا کہ اس دور میں ہندوستان، پاکستان، افغانستان میں یہ سادات کے درمیان موجود ہے سید غیر سید کو رشتہ نہیں دیتا۔
لہذا اس گھر میں بھی یہی ہوا دونوں بھائیوں کے اولادوں میں آپس میں شادیاں ہوئیں یعنی عبد اللہ بن جعفر نے جناب زینب (س) اور عون بن جعفر نے جناب ام کلثوم (س) کے ساتھ شادیاں کیں۔ اور جناب عون بن جعفر بھی کربلا میں شہید ہو گئے۔
ابنا: پس جناب ام کلثوم کا خلیفہ دوم کے ساتھ شادی کا قصہ کہاں سے شروع ہوا اور کیسے اس قدر مشہور ہو گیا؟
جناب ام کلثوم (ع) کی خلیفہ دوم کے ساتھ شادی کا قصہ ان کے جناب زہرا(س) کے گھر پر حملہ کرنے اور دروازہ جلانے کے بعد گھڑا گیا اس لیے کہ خانہ وحی پر حملہ کرنے کے بعد خلافت بے آبرو ہو گئی تھی مخصوصا جب حضرت زہرا (س) کی شہادت واقع ہو گئی اور انہیں رات میں دفنا دیا گیا اور انہیں جنازہ میں شرکت کی دعوت نہیں دی تو خلفاء نے سوچا کہ اب لوگ اس واقعہ کی جستجو کریں گے کہ کیوں حضرت زہرا(س) کو رات میں دفنایا گیا؟ لہذا انہوں نے اپنی کھوئی ہوئی آبرو کو واپس لانے اور ان اعتراضات سے لوگوں کے ذہنوں کا رخ موڑنے کے لیے اس واقعہ کو گھڑا۔
کتاب’’ المودۃ‘‘ تالیف قندوزی، ’’ استیعاب‘‘ تالیف عبد البر، ’’ المعارف‘‘ تالیف ابن قتیبہ میں آیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے ان سے فرمایا: میں خدا اور ملائکہ کو گواہ بناتی ہوں کہ تم لوگوں نے مجھے اذیت دی ہے اور مجھے ناراض کیا ہے۔ خدا کی قسم اگر میں بابا کی خدمت میں حاضر ہوئی تو تم لوگوں کی ان سے شکایت کروں گی‘‘۔
حتیٰ ایک عیسائی مورخ اور دانشمند یہ سوال کرتا ہے کہ اگر صدر اسلام میں کوئی اختلاف نہیں تھا تو کیوں دختر رسول (س) کی قبر آج تک مخفی ہے؟ اور کیوں انہوں نے کہا میں نہیں چاہتی کہ یہ لوگ میرے جنازے میں شریک ہوں اور مجھ پر نماز پڑھیں؟
لہذا انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اب ماجرا اس قدر سنگین ہو گیا ہےتو اب حضرت علی (ع) کے گھر کے ساتھ کسی نہ کسی طریقہ سے کوئی رابطہ برقرار کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کی زبانیں بند کی جا سکیں۔ لہذا انہوں نے یہ شائع کر دیا کہ خلیفہ نے حضرت زہرا(س) کے گھر شادی کر لی ہے اور ان کے داماد ہو گئے ہیں۔ تاکہ لوگ یہ سمجھ جائیں کہ ان کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں تھا یہ صرف خاندانی جھگڑا تھا۔
ابنا: کیا حضرت ام کلثوم (س) کی خلیفہ دوم سے شادی کے قصہ کی تردید اہل سنت کی کتابوں سے بھی ثابت ہے؟
جی ہاں، ان کی بہت سی کتابوں میں موجود ہے۔ علامہ امینی کے بیٹے محمد امینی نجفی نے خلیفہ دوم کی حضرت ام کلثوم کے ساتھ شادی کی جعلی داستان کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اہل سنت کی کتابوں سے ۱۲۱۴ مدارک جمع کئے ہیں جن میں اس قصہ کی تردید اور اس کے جعلی ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں خلیفہ دوم کی زندگی کو اہلسنت کی کتابوں سے مورد تنقید قرار دیا گیا ہے۔
ابن سعد نے کتاب طبقات کی تیسری جلد کے ص۱۸۳، ابن ہشام نے کتاب السیرۃ النبویۃ کی تیسری جلد کے ص۷۹۱ اور تاریخ طبری کی تیسری جلد کے ص ۲۶۹ میں نقل ہوا ہے کہ خلیفہ دوم کی ۱۴ بیویاں تھیں کہ جن میں سے ایک ام کلثوم بنت جرول خذاعی تھی۔ لہذا خلیفہ دوم کی ام کلثوم نام کی ایک بیوی تھی لیکن یہ ام کلثوم بن حضرت زہرا (ع) نہیں تھی۔
لہذا موجودہ دور کے بعض اہلسنت کے محقق اس بات کو مانتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم (س) کے ساتھ خلیفہ دوم کی شادی کھلا جھوٹ ہے۔
علاوہ از ایں، علماء شیعہ نے بھی تاریخی اسناد کی بنا پر اس مسئلے کی تردید کی ہے۔ جیسے سید محمد علی حلو نے کتاب ’’کشف البصر عن زواج ام کلثوم من عمر‘‘، سعید داودی نے کتاب ’’مسائل سوال برانگیز در تاریخ اسلام‘‘، کلب العباس محمد علی نے کتاب ’’ بزرگتر از دروغ‘‘ سید ناصر حسین لکھنوی نے کتاب "افهام العداء و الخصم في نفي عقد ام كلثوم”؛ علی محمد دوخبر نے کتاب "ام كلثوم بنت اميرالمومنين علی(ع)” (چاپ بيروت)؛ سید مرتضی علم الہدیٰ نے کتاب "انكاح اميرالمومنين ابنته من عمر”، اور سيدجعفر مرتضي عاملی نے کتاب "ظلامة ام كلثوم”میں اس مسئلے کی تردید کی ہے۔
البتہ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ عمر نے کچھ لوگوں کو اس رشتہ کے لیے مولائے کائنات کے گھر بھیجا تھا لیکن مولائے کائنات نے انہیں منع کر دیا تھا اور یہ رشتہ طے نہیں پایا۔

 اس بات پر آپ کے پاس کیا دلائل ہیں؟
ایک عقلی اور منطقی دلیل ہے اور وہ یہ کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب المنتظم ج۴ ص۲۳۷ اور کتاب ذخائر العقبا اور ابن سعد نے کتاب طبقات کی آٹھویں جلد ص۴۶۱ پر بیان کیا ہے کہ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت واقع ہوئی اس وقت جناب ام کلثوم ۴ سال کی تھیں۔ جناب زہرا (س) کی شہادت کے بعد دو سال تک حضرت ابوبکر نے حکومت کی ہے اور اس کے بعد حضرت عمر تخت خلافت پر بیٹھے ہیں تو جناب ام کلثوم کی عمراس وقت چھے سات سال تھی جبکہ حضرت عمر ۶۰ سال کے بوڑھے تھے کیا کوئی عقل یہ قبول کر سکتی کہ چھے سات سال کی بچی کا بیاہ ۶۰ سالہ بوڑھے سے کرا دیا جائے؟
آپ خود بتائیے کیا کوئی باپ چھے سات سال کی بچی کو ۶۰ سالہ مرد کے نکاح میں دے سکتا ہے؟ وہ بھی امیر المومنین علی السلام جیسا باپ جو علم و حکمت کا دروازہ ہیں؟
علاوہ از ایں اہلسنت کی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ خلیفہ دوم عورتوں کے ساتھ بہت بد اخلاقی کرتے تھے۔ کیا حضرت علی (ع) خلیفہ کے اس رویے سے باخبرنہیں تھے اور اپنی نابالغ بچی کو اس کے عقد میں دے دیا؟
 بعض اس اشکال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اس زمانے میں بوڑھے مردوں کی کم سن بچیوں کے ساتھ شادی رائج تھی۔
اتفاق سے خلیفہ دوم کی سیرت اس کے برخلاف تھی اور وہ ہماری دوسری دلیل ہے۔ ابن قتیبہ نے کتاب غریب الحدیث کی پہلی جلد کے صفحے ۲۶۶ اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی بارہویں جلد کے صفحے ۱۶۳ اور کراجکی نے کنزل العمال کی سولہویں جلد کے صفحے ۴۹۹ اور کتاب تاریخ مدینہ منورہ کی دوسری جلد کے صفحے ۷۶۹ میں مرقوم ہے کہ عمر بن خطاب لوگوں کو نصیحت کرتے تھے کہ خدا سے ڈرو اور اپنے ہم سن و سال عورتوں کے ساتھ شادی کرو اور وہ کم سن لڑکیوں کو بھی نصیحت کرتے تھے کہ سن رسیدہ مردوں کے ساتھ شادی کرنے کے لیے راضی نہ ہوں۔
پس کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص خود اس بات کا قائل نہ ہو اور اس کی مخالفت کر رہا ہو اور دوسروں کوبھی اس کام سے منع کر رہا ہوں وہ خود ایسا کام انجام دے دے؟
 جو لوگ اس شادی کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اس کی وجہ خلیفہ دوم کی طرف سے حضرت علی (ع) کو دی گئی دھمکیاں تھیں۔ آپ کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے؟
کتاب اصول کافی کی پانچویں جلد کے صفحے ۳۴۶ میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جب امیر المومنین علی علیہ السلام سے حضرت ام کلثوم کا رشتہ مانگا گیا تو آپ نے قبول نہیں کیا عمر بن خطاب نے ابن عباس سے کہا: خدا کی قسم میں زمزم کے کنویں کو بند کر دوں گا اور آپ کے گھرانے کی کوئی فضیلت باقی نہیں چھوڑوں گا اور علی کے خلاف دو گواہ پیش کروں گا کہ انہوں نے چوری کی ہے اس بعد ان کے ہاتھ کاٹ دوں گا۔
ابن عباس ڈر گئے اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس گئے اور ساری بات بیان کی۔ حضرت نے فرمایا: اس سے کہہ دینا: وہ پیلے رنگ کی قمیص ابھی موجود ہے اگر وہ یہ کام کرے گا تو میں بھی اس پیراہن کو پہن لوں گا‘‘۔
پیلے رنگ کا لباس وہ لباس تھا جسے آپ جنگوں میں پہنا کرتے تھے لہذا جب خلفاء نے حضرت زہرا(س) کی نبش قبر کرنا چاہی تو آپ نے وہ لباس پہن لیا تھا اور ذوالفقار لے کر ٹوٹی ہوئی دیوار پر کھڑے ہو گئے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر ایک صحابی نے کہا کہ میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا: علی بن ابی طالب سے اس وقت ڈرنا جب وہ ٹوٹی ہوئی دیوار پر کھڑے ہوں اور پیلا لباس پہن رکھا ہو۔
یعنی حضرت علی علیہ السلام نے یہ بتا دیا کہ دیگر موقعوں پرتو علی خاموش ہو سکتا ہے لیکن حریم اہلبیت کو توڑنے کی نوبت اگر آ گئی تو علی خاموش نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ گھر پر حملہ تھا جب علی خاموش ہو گیا اور صبر کر لیا۔ ابن عباس نے آپ کا یہ پیغام خلیفہ تک پہنچا دیا تو خلیفہ صاحب سمجھ گئے کہ اس طریقہ سے دال گلنے والی نہیں ہے اب کوئی دوسرا طریقہ اپنایا جائے۔
ابو القاسم کوفی نے کتاب استغاثہ کی پہلی جلد کے صفحے ۷۸ ، بیہقی نے کتاب السنن الکبریٰ کی دسویں جلد کے صفحے ۱۴۴ اور بیاضی نے کتاب الصراط المستقیم کی تیسری جلد کے صفحے ۱۳۰ پر اس واقعے کو نقل کیا ہے لہذا اس شادی کو ثابت کرنے کے لیے یہ توجیہ کرنا فضول ہے۔
 ایک شبہہ یہاں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ بعض کہتے ہیں کہ اس طرح کے اختلافی مسائل بیان نہیں کرنا چاہیے جبکہ وہابیوں نے ہزاروں کتابیں چھپوا کر مفت میں لوگوں کے درمیان تقسیم کی ہیں جن میں انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ اس شادی کو ثابت کر کے اہلبیت (ع) پر کئے گئے ظلم و ستم کو جھوٹا ثابت کریں۔
جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ ہم اہلسنت کے ساتھ متحد ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے عقائد سے دست بردار ہو جائیں گے اور تاریخی حقائق کا انکار کر دیں گے۔
ہم کسی بھی مذہب یا کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین نہیں کرتے اور نہ اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔ یہ جو مطالب بیان کئے ہیں سب تاریخی حقائق ہیں۔ اور خود ان کی کتابوں سے بیان کئے ہیں۔

کیا حضرت ام کلثوم (س) واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور اس کے بعد اسراء میں بھی تھیں؟
جی ہاں، حضرت ام کلثوم (س) کربلا کے واقعہ میں موجود تھیں اور اس کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ ساتھ اسراء کے درمیان بھی تھیں اور اس سفر میں آپ نے بھی متعدد مقامات پر خطبے دئے ہیں۔ جیسے کوفہ، بعلبک، سیبور، نصیبیین، اور دیگر منازل پر جو آپ نے اس سفر میں طے کیں خطبے دئے ہیں۔
کوفہ میں جناب ام کلثوم نے جو خطبہ دیا اس نے تہلکہ مچا دیا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ صدقے کی روٹیاں اور خرمے اسیروں کے درمیان تقسیم کر رہے ہیں تو آپ آئیں اور بچوں کے ہاتھوں اور منہ سے خرمہ اور روٹیاں نکال کر پھینک دیں اور کہا: کیا تم لوگ ہمیں نہیں پہچانتے؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ صدقہ ہمارے اوپر حرام ہے؟
شام سے کربلا واپسی پر چہلم کے دن جب حضرت زینب (س) امام علیہ السلام کی قبر کے پاس پہنچیں تو بیہوش ہو گئیں اور حضرت ام کلثوم بھی ایسے ہی۔ یعنی یہ دونوں بہنیں کربلا کی تمام منازل میں ساتھ ساتھ رہیں۔ حضرت ام کلثوم(س) ہمیشہ اپنی بہن حضرت زینب (س) کا احترام کرتی تھیں اور کبھی آپ سے آگے قدم نہیں رکھتی تھیں اور آپ سے پہلے کلام نہیں کرتی تھیں لیکن جب حضرت زینب (س) مصائب پڑھ کر بیہوش ہو جاتی تھیں تو حضرت ام کلثوم مصائب بیان کرنے کا سلسلہ آگے بڑھاتی تھیں۔
جیسا کہ حضرت ام البنین (س) کے گھر میں خواتین کی مجلس ہو رہی تھی حضرت زینب(س) مصائب پڑھ رہی تھیں کہ بیہوش ہو گئیں تو جناب ام کلثوم(س) نے اٹھ کر مجلس کو تمام کیا۔ یعنی جناب ام کلثوم(س) ہمیشہ جناب زینب(س) کے شانہ بشانہ رہیں۔
( جناب ام کلثوم (س) کے خلیفہ دوم سے شادی نہ ہونے پر ایک دلیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر جناب ام کلثوم حضرت عمر کی زوجہ رہی ہوتیں تو کربلا میں کم سے کم ان کے ساتھ ویسا سلوک نہ کیا جاتا جیسا کہ کیا گیا چونکہ کربلا میں یزیدی اگر چہ امام حسین علیہ السلام کے دشمن تھے لیکن ان کے نزدیک صحابہ اور ازواج صحابہ کا احترام تو باقی تھا اور اگر آپ خلیفہ کی زوجہ رہ چکی ہوتیں تو ضرور کوئی نہ کوئی کربلا میں نہ سہی کوفہ یا شام میں اس بات کی مخالفت ضرورکرتا کہ خلیفہ کی زوجہ کے ساتھ بے احترامی ہو رہی ہے اسے اسیر کر کے پھرایا جا رہا ہے۔ لیکن کسی ایک کا بھی اعتراض نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شادی کا قصہ من گھڑت ہے اس کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہے) (مترجم)

 حضرت ام کلثوم کی وفات کب واقع ہوئی؟
کتاب ریاحین الشریعہ کی تیسری جلد کے صفحے ۲۵۶ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت ام کلثوم (س) اس وجہ سے کہ جیسا صبر اللہ تعالی نے جناب زینب کو دیا تھا ان کے پاس نہیں تھا کربلا سے واپسی کے چار ماہ بعد مدینہ میں دق کر کے دنیا سے رخصت ہو گئیں اور در حقیقت آپ کی رحلت کی وجہ سفر کربلا میں آپ پر توڑے گئے مصائب و آلام کے پہاڑ تھے بدن پر تازیانوں کے زخم تھے جن سے آپ جانبر نہیں ہو پائیں اور انہی تمام صدموں کی بنا پر آپ شہید ہو گئیں۔
 بہت بہت شکریہ آپ کا جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button