مقالہ جات

ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز ہر پاکستانی کی آواز ہے، انکی حمایت کرنا معتدل قوتوں کو مضبوط کرنا ہے، علامہ امین شہیدی

ameenshaheediملک میں اصلاحات کی ضرورت ہے جو ہر پاکستانی کا مشترکہ مسئلہ ہے، ناصر عباس شیرازی
نمائندہ: اپنے خصوصی انٹرویو میں ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ جب ہم نے یہ محسوس کیا کہ اس وقت طاہر القادری صاحب ایک خاموش اکثریت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اس ملک میں ایسی تبدیلی کے خواہاں ہیں جس سے حقدار کو اُس کا حق ملے، متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات منعقد ہوں اور اُس کے نتیجے میں صالح لوگ میدان میں آئیں تو پھر ہم نے اُنکی حمایت کرنے کو ضروری سمجھا۔ مرکزی سیکرٹری سیاسیات کا کہنا تھا کہ جب ملک میں طاقت اور اسلحے کے بل بوتے پر حکومت پر کنٹرول کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، وہاں اگر کوئی یہ کلچر دے کہ عوام کو عوامی رائے کیساتھ آگے چلنا چاہیے تو اُس کلچر کو پرموٹ کریں نہ کہ اسے روکیں۔

نمائندہ: مجلس وحدت مسلمین کو علامہ طاہرالقادری کے لانگ مارچ کی حمایت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟
علامہ امین شہیدی: پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سینکڑوں جماعتیں ہیں اور ہر ایک کا اپنا قبلہ ہے، نعرے سب کے پاس ہیں، لیکن عملاً وہ نعرے کہیں پر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اس وقت پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ دراصل ریاست کو درپیش ہیں جو کسی سیاسی پارٹی کو نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کو دہشت گردی، عالمی سامراجی قوتوں اور ملک میں موجود ان کے ایجنٹوں سے خطرات درپیش ہیں۔ امریکہ اس ملک کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا، برطانیہ اور بعض عرب ممالک پاکستان اور خیبر پختونخوا میں اپنے گماشتوں کے ذریعے سے دہشت گردی کی پرموشن میں مصروف ہیں۔ گذشتہ بارہ برسوں میں دہشتگردی کو اس ملک میں پرموٹ کیا گیا۔ اس وقت ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ہزاروں لوگ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں لیکن یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا، جبکہ دوسری طرف ملک کی واضح اکثریت خاموش لوگوں کی ہے، جو ان تمام چیزوں کو دیکھتے
” ایک انتخاب ہوتا ہے وہاں نوے فیصد لوگ ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتے، جبکہ دوسری طرف ایک آدمی دس ہزار ووٹ لیکر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے اور وہ قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے لگ جاتا ہے “
بھی ہیں اور درد محسوس بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے حل کیلئے قدم نہیں اٹھا پاتے۔

ہم نے نشتر پارک اور مینار پاکستان کے جلسے میں مذکورہ تمام ایشوز کو اٹھایا، ہم نے غربت، مہنگائی، دہشتگردی، ملک میں بڑھتی ہوئی جہالت، ریاست کو درپیش مسائل، کرپشن سمیت ان تمام ایشوز کو ایڈریس کیا، جن کا تعلق عام آدمی اور ریاست سے تھا۔ یہ تمام ایشوز تبدیلی کے متقاضی ہیں اور ہم نے ہر پلیٹ فارم پر ان پر بات کی۔ یہ وہ ایشوز ہیں جو کسی ایک پارٹی یا جماعت کے نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا مشترکہ مسئلہ ہیں، جنہیں حل ہونا چاہیے تھا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ وہ ایشوز ہیں جن کا حل فقط کسی پارٹی یا چہرے بدل جانے سے نہیں بلکہ نظام بدلنے سے ہے۔ اس کے بغیر اس ملک میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ انتخابی اصلاحات ہوں، انتخابات شفاف ہوں، جس میں عوام کی حقیقی نمائندگی سامنے آسکے۔

ایک انتخاب ہوتا ہے وہاں نوے فیصد لوگ ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتے، جبکہ دوسری طرف ایک آدمی دس ہزار ووٹ لیکر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے اور وہ قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے لگ جاتا ہے۔ جبکہ نوے فیصد لوگوں کی کوئی نمائندگی ہی نہیں ہو پاتی۔ اس لئے ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سسٹم تشکیل دیا جائے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام طبقات کو اپنے نمائندے بھیجنے کا موقع بھی ملے گا اور حقیقی معنوں میں جمہوریت کی روح پر عمل بھی ہوگا، جس طرح سے دنیا کے مختلف نظاموں میں ہوتا ہے۔ اس وقت جو سیاست ہمارے ملک میں قائم ہے اُس میں صرف جاگیر دار، پیسے والے، سرمایہ دار اور کرپٹ عناصر ہی اسمبلی میں جا پاتے ہیں، جبکہ غریب آدمی وہاں نہیں پہنچ پاتا۔ لہذا اس پورے سسٹم کو بدلنے کی ضرورت ہے اور نظام کو بدلنے کی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے وہ نعرے تھے جو پہلے دن سے تھے اور اُس پر ہم اب بھی قائم ہیں۔

جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ
” اس وقت جو سیاست ہمارے ملک میں قائم ہے، اُس میں صرف جاگیردار، پیسے والے، سرمایہ دار اور کرپٹ عناصر ہی اسمبلی میں جا پاتے ہیں، جبکہ غریب آدمی وہاں نہیں پہنچ پاتا “
مارچ کی حمایت کی بات ہے تو جب ہماری ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی اور اُن سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ تو اُس گفتگو میں ہم نے ان نکات کو اپنے اور اُن کے درمیان مشترک پایا۔ ڈاکٹر طاہر القادری جیسی قوت جو نہ فرقہ واریت پر یقین رکھتی ہے اور نہ ہی شدت پسندوں کے سامنے سرنڈر کرتی ہے، اگر ایسی کوئی قوت سامنے آتی ہے تو ہمیں ملک کو بچانے کیلئے اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ لٰہذا جب ہم نے یہ محسوس کیا کہ اس وقت طاہر القادری صاحب ایک خاموش اکثریت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اس ملک میں ایسی تبدیلی کے خواہاں ہیں جس سے حقدار کو اُس کا حق ملے، متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات منعقد ہوں اور اُس کے نتیجے میں صالح لوگ میدان میں آئیں تو پھر ہم نے اُن کی حمایت کرنے کو ضروری سمجھا۔

نمائندہ: تمام پارٹیاں ان کے لانگ مارچ کی مخالفت کر رہی ہیں اور ان پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
علامہ امین شہیدی: قوم نے تمام سیاسی پارٹیوں کو دیکھ لیا ہے کہ ان کے پیش نظر فقط حکمرانی تک پہنچنا ہے، نظام میں تبدیلی نہیں۔ طاہر القادری صاحب نے جب سے اس نظام میں تبدیلی کی بات کی ہے اور اُس کو عوامی حمایت کی بنیاد پر تبدیلی لانے کا نعرہ لگایا ہے تو اُس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا کہ پاکستان میں موجود تمام اُن قوتوں نے جن کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں، اُنہوں نے چیخنا اور چلانا شروع کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظام میں تبدیلی سے اُن کے مفادات نقصان میں پڑ جاتے ہیں۔ جب ایک ایسی آواز اُٹھی تو ہم نے محسوس کیا ہمیں بھی اپنی حمایت کا اظہار کرنا چاہیے اور ہمیں اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، اس لئے کہ جو نعرہ ہم نے مینار پاکستان میں نعرہ لگایا تھا کہ ہم معتدل مسلمان اہل سنت بھائیوں کی حمایت کریں گے اور جو قوتیں پاکستان کی بقاء اور پاکستان کو غیر ممالک کے چنگل سے آزاد کرانے کا نعرہ بلند کریں گی، ہم اُن کی حمایت کریں گے۔
” طاہر القادری صاحب نے جب سے اس نظام میں تبدیلی کی بات کی ہے اور عوامی حمایت کی بنیاد پر تبدیلی لانے کا نعرہ لگایا ہے تو اُس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا کہ پاکستان میں موجود تمام ایسی قوتوں نے جن کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں، اُنہوں نے چیخنا اور چلانا شروع کر دیا ہے “
لہٰذا اب ہم نے اس نعرے پر عمل کیا ہے، اس میں کوئی مضائقے والی بات نہیں۔

نمائندہ: میڈیا میں یہ بات اچھالی جا رہی ہے کہ طاہرالقادری کے پیچھے کچھ قوتیں ہیں، اگر ایسی کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو مجلس وحدت کہاں اسٹنڈ کرے گی۔؟
علامہ امین شہیدی: مجھے یہ بتائیں کہ کس پارٹی کے پیچھے فوج یا کوئی قوت نہیں رہی، جب ق لیگ کی حکومت بنی تو اس کے پیچھے فوج تھی، اسی طرح جب ن لیگ برسراقتدار میں آئی تو اسکے پیچھے فوج کا تعاون تھا، جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اُس میں بھی NRO موجود تھا۔ اسی طرح ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتوں کے پیچھے وہ قوتیں کارفرما رہی ہیں، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود تمام حکومتوں کی پارٹیوں کو آپ لوگوں نے قبول کیا کہ ٹھیک ہے ہمیں تو اپنے مفادات عزیز ہیں اور اپنے مقاصد کو دیکھنا ہے۔ اب رہی بات ڈاکٹر صاحب کی تو اب تک کوئی ایسی بات ان کے حوالے سے سامنے نہیں آئی، جس سے کوئی یہ بات ثابت کرسکے یا یہ کہہ سکے کہ ان کے پیچھے کون ہے۔ اُنہوں نے بہرحال ہمیں یہ یقین دلایا کہ میں اپنے اللہ کے بھروسے پر آیا ہوں اور اُسی کے بھروسے پر میں اپنے راستے پر آگے بڑھوں گا تو ہمارا بھی موقف یہ ہے کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے چاہیے، اپنے فیصلے دوسروں سے نہیں لینے چاہیے، اپنے نفع اور نقصان کا فیصلہ جب خود کرکے میدان میں آئیں گے تو اس طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی تو اُس پر ہم قائم ہیں اور انشاءاللہ تعالٰی قائم رہیں گے۔

نمائندہ: یہ حمایت کس حد تک ہے یا اس میں فقط آپ کی معاونت ہوگی۔؟
علامہ امین شہیدی: دیکھیں! یہاں میں کچھ چیزیں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم ڈاکٹر صاحب کے پاکستان میں اصلاحات کے حوالے سے لئے گئے اسٹنڈ کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہم ان کے لانگ مارچ کو جائز اور احتجاج کو اُن کا آئینی حق سمجھتے ہیں، ہم لانگ مارچ کی مکمل حمایت کرتے ہیں، تاہم ہماری طرف سے بھرپور شرکت کچھ امور کی متقاضی ہے۔ اگر کسی موڑ پر ہمیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا گیا تو پھر ہماری طرف سے بھرپور شرکت بھی یقنی ہوگی۔ دھرنے میں ہماری طرف سے نمائندہ وفد شریک ہوگا اور ان کے اعلان کیے گئے ایجنڈے کی مکمل حمایت کرے گا۔

مرکزی سیکرٹری سیاسیات کا
” ہم نے مینار پاکستان میں نعرہ لگایا تھا کہ ہم معتدل اہل سنت بھائیوں کی حمایت کرینگے اور جو قوتیں پاکستان کی بقاء اور پاکستان کو غیرnasir-sherazi ممالک کے چنگل سے آزاد کرانے کا نعرہ بلند کرینگی، ہم اُن کی حمایت کرینگے “
بھی اس بارے میں موقف جانا گیا جو پیش خدمت ہے۔

نمائندہ: کون سی چیز تھی، جس نے مجلس وحدت مسلمین کو لانگ مارچ کی حمایت کرنے پر مجبور کیا، دوسرا یہ ایک طرف آپ اس کی حمایت کر رہے ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے کہ لانگ مارچ کرنا، احتجاج کرنا، پرامن مارچ کرنا، دھرنا دینا، ایک جمہوری حق ہے جسے کوئی کسی سے نہیں چھین سکتا۔ جمہوری معاشرے کے اندر اس حق کا احترام کیا جانا چاہیے، جماعت اسلامی جو مختلف دھرنوں کی پاکستان کے اندر روح رواں رہی ہے، وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے بالکل اچھی نہیں لگتی۔ پاکستان پیپلزپارٹی جو پاکستان میں لانگ مارچ کے بانیوں میں سے ہے، وہ یہ بات کہتے ہوئے بالکل غیر جمہوری لگتے ہیں، اسی طرح عدلیہ اور بالخصوص میاں محمد نواز شریف جنہوں نے لانگ مارچ کے ذریعے عدلیہ کو بحال کرایا، اُن کا یہ کہنا بالکل ناحق لگتا ہے کہ مجھے تو یہ رائٹ ہے کہ میں لانگ مارچ کروں، لیکن کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔

دوسر یہ کہ اب بلیم گیم شروع ہوگئی ہے، شخصیات پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پتھر ماریں۔ ان میں کون ایسا ہے کہ جس کی شخصیت پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ طاہر القادری کوئی معصوم انسان نہیں ہے، خطا ان سے بھی ہوسکتی ہے۔ سوال اور ایشو یہ ہے کہ کیا اگر وہ پاکستان میں اصلاحات کی بات کرتا ہے، پاکستان میں وڈیرہ شاہی کے خاتمے کی بات کرتا ہے، تو کیا یہ اسکا قانونی اور آئینی حق نہیں۔؟ کیا یہ آئین کے بنیادی پیرامیٹرز سے تصادم ہے۔؟ اگر جواب نفی میں ہے تو اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔ جس طرح باقی جماعتوں کو اس ملک میں احتجاج اور دھرنا دینے کا حق ہے، اسی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی یہ حق ہے کہ وہ دھرنا دیں اور احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ انہوں نے گارنٹی دی ہے کہ ان کا احتجاج پرامن ہوگا اور کوئی پتہ بھی نہیں ہلے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ کسی
” ہم پاکستان میں استحصالی نظام کے خلاف ہیں، آپ نے دیکھا کہ تمام تکفیری گروہ آپس میں بدترین مخالف ہونے کے باوجود اکٹھے ہوگئے ہیں، تو معتدل قوتیں اکٹھا کیوں نہیں بیٹھ سکتیں “
آرمی کو بلانے کیلئے بلکہ اس ملک میں اصلاحات چاہتے ہیں۔ اب یہ لوگ اس کی بات کو نہیں سن رہے۔

نمائندہ: کہا جا رہا ہے کہ ان کے لانگ مارچ سے الیکشن ڈیلے ہو جائے گا۔؟
ناصر عباس شیرازی: میرا نہیں خیال کہ اس سے الیکشن لیٹ ہونگے۔ وہ لوگ جو ابھی تک نگراں سیٹ اپ کیلئے بات نہیں کر رہے تھے، اب فوراً کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ مارچ تک اعلان کر دیا جائیگا۔ ان کے لانگ مارچ سے تمام سیاسی عمل میں تیزی سامنے آ رہی ہے۔

نمائندہ: کس چیز نے آپ لوگوں کو حمایت پر مجبور کیا۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہم اُن لوگوں میں سے ہیں، جو حق کی حمایت کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ احتجاج کریں اور مطالبات کے حق میں آواز بلند کریں۔ وہ یہ سب ایسے معاشرے میں کرنا چاہ رہے ہیں، جہاں بدقسمتی سے ملکی اثاثوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلحہ کی نوک پر حکومتی مشینری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ طاقت اور اسلحے کے بل بوتے پر حکومت پر کنٹرول کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، وہاں اگر کوئی یہ کلچر دے کہ عوام کو عوامی رائے کیساتھ آگے چلنا چاہیے، تو اُس کلچر کو آپ پرموٹ کریں نہ کہ اسے روکیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری جہاں عوامی رائے کی بات کرتے ہیں، وہیں ملک میں ملٹری مداخلت کی بھی نفی کر رہے ہیں۔ وہ بندق کی نوک پر معاشرے کو یرغمال بنانے کی نفی کرتے ہیں۔

جب آپ کا جی ایچ کیو دہشت گردوں کے سامنے مذاکرات پر مجبور ہوتا ہے، جب طالبان کو غیر مشروط طور پر چھوڑ دیا جائے، طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں، اور انہیں سزا دئیے بغیر چھوڑ دیا جائے۔ وہاں کوئی احتجاج، عوامی طاقت کا کلچر متعارف کرائے تو وہ بہتر ہے۔ ہم پاکستان میں استحصالی نظام کے خلاف ہیں، آپ نے دیکھا کہ تمام تکفیری گروہ آپس میں بدترین مخالف ہونے کے باوجود اکٹھے ہوگئے ہیں، تو معتدل قوتیں اکٹھا کیوں نہیں بیٹھ سکتیں۔ ہم نے طاہرالقادری کے لانگ مارچ کی حمایت کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے نظام کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ ہمارا موقف ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button