مقالہ جات

کرم ایجنسی، پارہ چنار میں کیا ہو رہا ہے

Untitled-1کرم ایجنسی کا علاقہ فاٹا کا حصہ ہونے کے باوجود قابل ذکر شرح خواندگی کے باعث ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فاٹا کا یہ واحد علاقہ ہے، جہاں ہتھیاروں کے کارخانے نہیں۔ جہاں پوست افیون، چرس اور ہیروین کا کاروبار نہیں ہوتا۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش اغوا برائے تاوان، غیر قانونی گاڑیوں کی خرید و فروخت اور دیسی بارود یا کابلی انگور سے شراب کی تیاری نہیں ہے۔ یہ علاقہ اس وجہ سے بھی ممتاز ہے کہ یہاں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو خودکش حملوں یا سڑک کنارے نصب بموں سے نشانہ نہیں بنایا جاتا، بلکہ یہاں ہمیشہ ہی پاک اداروں کے سپوتوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ اس علاقے کے مکینوں نے کبھی دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم نہیں کیں، حالانکہ القاعدہ اور طالبان نے امریکی و نیٹو فورسز کی سرپرستی میں یہاں اپنے مضبوط ٹھکانے بنانے کی بے تحاشہ کوششیں کیں، مگر ناکامی سے دوچار ہوئے۔ ان تمام خصوصیات کے باوجود پاک حکومتوں اور اداروں نے اس علاقے کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کیا۔ جس کی ایک جھلک موجودہ حالات سے بھی ملتی ہے۔

1962ء سے لیکر 2012ء تک مختلف دہشت گرد تنظیموں اور اسلام و پاکستان دشمنوں نے اندرونی و بیرونی سرپرستی میں بار بار اپنے ہتھیاروں اور اوزاروں سے پاراچنار کے مظلوم عوام پر حملے کرکے انھیں اپنا مطیع اور خادم بنانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ مگر خُدا کے کرم سے ہر بار یہ عناصر ناکام رہے۔ بار بار ناکامی کے بعد جب ان کے سرپرستوں کو اس بات کا ادراک ہوا کہ اُن کا ہر منصوبہ ناکام جا رہا ہے تو انہوں نے اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کر دی اور ایک ایسی جنگ پاراچنار کے عوام پر مسلط کرنے کا سوچا کہ جس میں پاراچنار کے عوام کے نظریات، ثقافت اور اسلام پسندی کو شکست دے سکیں۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ وہاں امن و امان کی بحالی کے نام پر پارہ چنار کے عوام اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان جنگ بندی کا ڈرامہ رچایا گیا۔

کرم ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ سید شہاب علی شاہ کو مذموم کردار ادا کرنے کیلئے تعینات کر دیا گیا۔ شہاب علی شاہ نے آتے ہی نرم لہجہ اپنایا، امن و امان کا نعرہ لگایا اور جنگ سے لوگوں کو بیزار کرنا شروع کر دیا۔ امن وامان کے نام پر عوام جن میں اکثریت شیعہ آبادی کی تھی، کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے جدوجہد شروع کر دی اور پورے شہر کو فوج کے حوالے کر دیا۔ بظاہر تو یہ اقدام بہت اچھا تھا اور لوگ بہت خوش تھے، مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ پولیٹیکل ایجنٹ شہاب علی شاہ کی چالوں، پالیسیوں اور یکطرفہ کارروائیوں کا عوام الناس کو پتہ لگنا شروع ہوگیا۔

امن و امان اور ترقی کے نام پر عوام کو مغلوب کرنے کا راز تب کھل گیا، جب پاراچنار جانے والی مسافر گاڑیوں پر فوج کی موجودگی میں ایک نہیں بلکہ کئی حملے ہوئے اور بہت سارے افراد شہید اور اغوا بھی ہوئے، مگر فوج اور حکومت بالکل خاموش تماشائی بنی رہی اور ٹس سے مس نہ ہوئی۔ پاراچنار جیسے چھوٹے شہر میں تین خودکش دھماکے ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہوئے، حالانکہ شہر کو چاروں اطراف سے فوج نے گھیر رکھا ہے اور چوبیس گھنٹے فوج ڈیوٹی پر تعینات ہے اور شہر میں داخل ہونے والے ہر شخص اور ہر گاڑی کی چیکنگ ہوتی ہے۔

شہر کے اندرونی حالات کو پرامن کرنے کی بجائے مزید بگاڑ دیا گیا اور مخالفین کو کھلی آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں دہشت گردی کرلیں۔ امن و امان نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، بلکہ اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ بالش خیل کی ہزاروں ایکڑ زمین پر بیرونی طالبان اور پاڑا چمکنی کے لوگ قابض ہو چکے ہیں اور پولیٹیکل ایجنٹ شہاب علیشاہ، اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ، مُنیر اورکزئی، سینٹر رشید پاڑے اور پوری حکومتی مشنری کی سرپرستی میں قابض شدہ زمین پر ان کے گھر اور ٹریننگ کیمپس بنائے جا رہے ہیں اور زور و شور سے دہشت گردی کے یہ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ اسی طرح مقبل اور کُنج علیزئی کا بھی مسئلہ چل رہا ہے، پیہواڑ، شلوزان اور خیوص کے مسئلے بھی ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں۔ حکومت ان مسئلوں کو حل کرنے کے بجائے اُلٹا مخالفین کا ساتھ دے رہی ہے اور مخالف فریق کا کردار ادا کر رہی ہے، بلکہ طالبان کی جنگ اب وہاں کی حکومت لڑ رہی ہے۔

عوام کو حکومت کی اس دوغلے پن اور دیگر تمام پالیسیوں کا پتہ چل چکا ہے، لوگوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے، مگر افسوس کہ ہمارے کچھ اپنے ہی لوگ حکومت کی ان پالیسیوں سے خوش ہیں اور اُن کی ہر ہاں میں ہاں ملائے جا رہے ہیں، کیونکہ حکومت نے امن اور ترقی کا نعرہ جو لگایا ہے۔ اس طرح نوجوان نسل کی پوری توجہ تعلیم اور دیگر تعمیراتی کاموں سے ہٹا کر منشیات اور پیسے کی طرف موڑی جا رہی ہے۔ لوگوں میں آپس کے اختلافات کو جان بوجھ کے ہوا دی جا رہی ہے۔ مقامی افراد کو کمزور کرنے کیلئے ہر نیا طریقہ اپنایا جا رہا ہے، جبکہ بیرونی مخالفین کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جا رہا ہے اور امن کے نام پر وہ سب کچھ ہو رہا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

حکومتی مشینری کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی NGOs بھی ترقیاتی سکیموں کی مد میں دھڑا دھڑ پیسے خرچ کر رہی ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکہ اور انگریز بہت اچھے ہیں۔ وہ ہمیں مفت علاج، ادویات، کھانا پینا اور ضرورت کی دیگر اشیاء دے رہے ہیں، حالانکہ وہ ان ساری چیزوں کے بدلے میں وہ لوگوں کے نظریات لے رہے ہیں اور امریکہ کی غیر انسانی پالیسیوں کو انسان دوست قرار دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ الغرض پارا چنار کے جو موجودہ حالات ہیں اور جو سرد جنگ جاری ہے، تو ایسے میں ہر فرد اور خصوصاً پڑھے لکھے نوجوانوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمیں دشمن کی ہر چال سے باخبر رہنے اور آپس میں اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ حکومت جو بیرونی دہشت گردوں کی ہم خیال اور حامی ہے، وہ یہاں کی عوام کی ہرگز خیر خواہ نہیں ہوسکتی۔

کروڑوں روپے خرچ کرنے والی NGOs کے مقاصد کیا ہیں۔؟ یو ایس ایڈ کی مدد سے لوگوں کو بھکاری بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے بہت سارے سوالات ہیں کہ جس کے بارے میں ہم سب کو سوچنا اور جاننا چاہیئے اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر ان سارے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیئے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پارہ چنار کے غیور عوام مل بیٹھ کر ان مسائل کا ادارک کریں اور متفقہ طور پر ان کے حل کی کوششیں کریں اور مشترکہ پلیٹ فارم سے حکومت وقت کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں، کیونکہ حالات کو اگر آج کنٹرول نہ کیا گیا تو کرم ایجنسی کے حالات بھی خدانخواستہ وزیرستان کا روپ دھار لیں گے اور یہاں کی فضائیں بھی پھل و پھولوں کی خوشبو کے بجائے بارود و منشیات کے دھواں سے آلودہ ہو جائیں گی۔ پھر شائد سانس لینا بھی محال ہو جائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button