مقالہ جات

ٹارگٹ کلنگ، سیاسی مداریوں کا کھیل

maqtalقوم پرستی اور لسانیت میں رنگی ہوئی کوئی جماعت کسی بھی مذھب و مسلک کو اپنے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے بل الکل اسی طرح جسطرح ایک مذھب، لسانیت اور قوم پرستی کو آفا قیت اور انسانیت کے لئے خطرہ قرار دیتا ہے۔ کیونکہ قوم پرستی اور لسانیت کاحتمی اور فوری نتیجہ نسلی برتری کے احساس کی صورت میں نکلتا ہے لہذا اس مرض میں مبتلا کوئی بھی جماعت یا پارٹی اپنے مد مقابل کسی اور کو پروان چڑھتے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی۔ رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر تعصب میں غرق کوئی بھی جماعت زیادہ دیر تک لوگوں کو اپنے ساتھ جڑا نہیں رکھ سکتی اور اس وجہ یہ ہے کہ حریفوں کو دیوار سے لگانے کے بعد برتری کا احساس حتی پارٹی کے اندر سنیئر اور جونیر، شہری اور دیہی، بانی اور غیر بانی جیسی رائج درجہ بندی کی صورت میں اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ اسی لئے اسلامی تعلیمات میں رنگ و نسل اور قوم قبائل کو ایک دوسرے کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ تو بتایا گیا ہے لیکن اس پر فخر و مباہات پر قد غن لگادیا گیا ہے۔ لا الہ الا للہ محمد الرسول اللہ کہنے والے کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نسلی بنیادوں پر دوسرے مسلمانوں یا اپنے جیسے دیگر انسانوں پر برتری جتائے اور اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے دھونس دھمکی اور طاقت کے استعمال کو جائز سمجھ لے۔ پاکستان میں حکمران طبقے کی غلط پالیسیوں اور اقتدار کے پجاریوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو میدان سیاست سے باہر کرنے کے لئے جو طریقے اپنائے اس کے نتیجے میں قومی نسلی تعصبات اور حتی فرقہ پرستی نے با آسانی اپنے پر پھیلا لیئے اور بتدریج اس کے سائے پورے پاکستان پر چھاگئے۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی ایک جماعت نے اپنے وجود کا اعلان کیا اور جلد ہی پورے سندھ میں اپنے پاؤں جما لئے اور ایک مضبوط سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور جہاں تک ممکن ہوا اپنے حریفوں کو دیوار سے لگادیا لیکن زیادہ عرصہ نہیں لگا کہ لسانی بنیادوں پر بننے والی اس جماعت میں پائے جانے احساس برتری نے ایک بار پھر ایک نئی جماعت کو وجود بخشا جس کا نتیجہ قلعہ بندیوں اور دیواروں کی شکل میں سامنے آیا اور ایک ہی زبان بولنے والوں نے خود کو دیواروں اور دروازوں کے پیچھے محصور پایا اور قلم و کاغذ سے سرو کار رکھنے والوں نے ہتیار سنبھال لئے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کا خون بہانا شروع کردیا۔ اقتدار کے نشے میں چور مرکز میں سیاست کرنے والوں نے اپنی آنکھیں موند لیں اور کبھی اس گروپ کی حمایت کی اور کبھی اس گروپ کی، ایک گروپ نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے لسانی سیاست چھوڑ کر ملکی سطح پر سیاست کرنے کی ٹھانی اور دوسرے گروپ نے جو نسبتا کمزور تھا انتہا پسند فرقہ پرست جماعتوں کے ساتھ میل جوڑ بڑھاکر خود زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ اول الذکر گروپ کہ جس کی اعلی قیادت لندن میں مقیم ہے، مذھبی تعصبات سے عاری سیاست کا داعی ہے اور شیعہ سنی اتحاد پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن چونکہ اس گروپ کی سرشت لسانی بنیادوں پر استوار ہے لہذا بعض مقامات پر اس جماعت اور دیگرمسالک کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ کراچی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جہاں سندھی اور بلوچی بولنے والے خود کو اس شہر کا اصل باسی سمجھتے ہیں جبکہ باقی اقوام جیسے گجراتی، میمن اور کچھی وغیرہ بھی نسل در نسل یہاں آباد ہیں۔ پشتون، پنجابی، سرائیکی اور وغیرہ بہت بعد میں آکر آباد ہوئے۔ تشکیل پاکستان کے بعد شہر قائد کی حیثیت سے اردو بولنے والوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور آج اردو بولنے والوں کی سب سے بڑی آبادی اسی شہر ساکن میں ہے۔ جس شہر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہوں وہاں لسانی بنیادوں پر کسی جماعت کے لۓ کام کرنا آسان نہیں اور ایسے میں فرقہ پرستی بھی اپنے عروج پر ہوتو وہاں لسانی بنیادوں پر کام کرنے والی جماعتوں حتی ملگیر سطح پر سرگرم سیاسی پارٹیوں کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب مختلف رنگ و نسل رکھنے کے باوجود اہلیان کراچی کسی ایک مسلک کے پرچم تلے جمع ہوجاتے ہیں۔ اس وقت کراچی کی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے کہ مسلک کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والا چونکہ اپنے مسلک کی بنیاد پر مارا گیا ہے لہذا اس مسلک کے پیرو رنگ و نسل کی پرواہ کئے بغیر ایک ایسےسیاسی مرکز پر جمع ہونے کی کوشش کرتے جو انہیں تحفظ فراہم کرے لیکن چونکہ پاکستان کی موجودہ سیاست میں اس کا امکان نہیں، لہذا مجبور ہوکر وہ خود اپنے تحفظ کے لئے اقدام کرتے ہیں جو نسلی و لسانی اور فرقہ پرست جماعتوں اور اقتدار کے حریص سیاسی مداریوں کو ہرگز گوارا نہیں اور وہ اسے اپنا حریف سمجھ کر میدان سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حریف کو میدان سیاست سے باہر کرنے کا سب سے آسان حربہ ٹارگٹ کلنگ ہے کہ جس میں کسی مجرم کی پکڑائی نہیں ہوتی اور عدلیہ کا سربراہ بھی یہ کہہ کر اپنی جان چھڑالیتا ہے کہ میری بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ بہرحال عدم تحفظ کا شکار اور روز جنازے اٹھانے والے شیعہ عمائدین اور رہبران قوم نے جمہوری اور سیاسی طریقے سے اپنے اور ملک و قوم کے دشمنوں کو مات دینے کا اعلان کرکے سیاسی مداریوں اور اقتدار کے پجاریوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔اس بے چینی کو، آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شھر کراچی میں کچھ زیادہ محسوس کیا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں بڑھتی ہوئی سیاسی بیداری سے خوفزدہ ہو کر شیعہ رہنماؤں اور اکابرین کو ٹھکانے لگانے کا ٹاسک دیدیا گیا ہے۔اسلام ٹائمز کے مطابق انتہائی باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ حماد فاروقی اور عرفان خان نامی دو سرکردہ افراد کو شیعہ اکابرین کی لسٹ فراہم کردی گئی۔ اطلاعات کے مطابق اس لسٹ میں 25 ایسے افراد کے نام شامل ہے کہ جںہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہمدردانہ بیانات اور مسلسل حمایتی ٹی وی شو کے پس پردہ مقاصد کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت شیعہ برادری کی سیاسی پارٹی کو اپنے وجود کے لئے خطرہ تصور کرتی ہے اور جس کا جہاں داؤ چل جائے وہ اسے پچھاڑنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی کارکردگی اور کراچی میں ایم کیو ایم کا کردار اس سلسلے میں کافی مشابہت رکھتا ہے اور پپلزپارٹی جیسی بڑی جماعت پر سے بھی ملت جعفریہ کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button