مقالہ جات

سیاست علی علیہ السلام

imamaliہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مولائے متقیان علی ابن ابیطالب (ع) کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں اور شاید بقیہ آئمہ علیھم السلام سے زیادہ معرفت رکھتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔۔۔۔ ہماری معلومات حضرت کی حیات و سیرت کے بارے میں بہت محدود ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ذات علی علیہ السلام کی معرفت ہم درک نہیں کر پائے۔ اس کا سب سے بڑا سبب مولائے کائنات کی ذات اسقدر درخشاں اور وسیع ہے کہ صفحہ حیات پر پھیلے ہوئے آپ کی حیات کے نقوش کا احاطہ مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔

آپ (ع) کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کی بہترین مثال نظر آتے ہیں۔ آپ کی زندگی کہ تمام پہلو ہم پر آشکار نہیں ۔۔۔۔۔ حضرت کی حیات کا وہ دور جب رسول خدا (ص) حیات تھے، جسے خود مولائے کائنات نے بہار سے تعبیر کیا ہے ہم احاطہ نہیں کر پائے یا 25 سالہ خاموشی کا وہ دور کہ جب مظلوم و تنہا علی (ع) اسلام اور امت مسلمہ کی نجات کیلئے کوشاں ہیں، یا شب ضربت سے لیکر شہادت تک کے وہ 36 چھتیس گھنٹے جنہیں آقائے مطہری نے سب سے اہم قرار دیا ۔۔۔۔۔ آخر مولا (ع) کے کن پہلووں کو ہم نے درک کیا ہے۔؟

ہم اس بحث میں نہیں الجھیں گے کہ مولا سب سے پہلے رسول خدا (صّ) کی آواز پر لبیک کہنے والے تھے، ہم مولا علی (ع) کی جنگی فتوحات کا ذکر بھی نہیں کریں گے، ہم یہاں کوشش کریں گے کہ مولا علی (ع) کی سیاسی روش پر روشنی ڈالیں کیونکہ موجودہ حالات میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے سیاست علوی!!!

حضرت علی علیہ السلام کی سیاسی روش
رسول اکرم (ص) سے آپ کی قربت اور حیات اسلام کے روز اول سے پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت تک اسلام کے لیے آپ (ع) کے ایثار اور جانفشانیوں کے درخشاں نقوش یہ بات پوری طرح روشن و واضح کر دیتے ہیں کہ آپ (ع) پیغمبر اسلام کی حیات میں سب سے زیادہ با نفوذ شخصیت کے مالک تھے۔ اس کے باوجود دوسرے افراد ۔۔۔۔ جو ان فضائل کے حامل نہ تھے مختلف طریقوں سے بر سرکار آگئے، ان لوگوں نے امام علیہ السلام پر عرصہ کار و عرصہ حیات تنگ کرکے اپنی مخصوص سیاسی چالوں کے ذریعے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔۔۔۔

اس سلسے میں انکی سب سے نمایاں مہم یہ تھی کے مولا علی علیہ السلام کی ممتاز اور بے داغ حیثیت و شخصیت کو اسلام کے جواں سال معاشرے میں مٹا کر رکھ دیں ۔۔۔۔۔ اور انہوں نے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو ضعیف کرکے انھیں گوشہ نشینی پر مجبور کر دیا ۔۔۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسکا اظہار خود امام علیہ السلام اور دوسرے افراد نے واضح لفظوں میں جا بجا کیا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ جب امام علی علیہ السلام سے آپ کا حق چھینا جا رہا تھا تو آپ نے آواز نہیں اٹھائی ۔۔۔۔ آواز اٹھائی تھی، لیکن جب عرب کے گوشہ و کنار سے اسلام مخالف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں تو اسلام کی بقا کی خاطر آپ نے خاموشی اختیار کی ۔۔۔۔۔ حالا نکہ آپ مختلف موقعوں پر درد بھرے انداز میں اس حقیقت اور ظلم کا اظہار فرماتے رہے کہ خلافت انہی کا حق تھی ۔۔۔۔۔ اکثر و بیشتر جب خلفاء امام علی سے مشورے طلب کیا کرتے تھے تو آپ جہاں راہنمائی لازم دیکھتے تھے وہاں مشورے دیا کرتے تھے اور اسلام کے اصولوں سے منحرف نہیں ہونے دیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔

لیکن ساتھ ہی جہاں ان سے مختلف موقعوں پر مدد طلب کی جاتی تھی اور وہ امر مولا (ع) کی نظر میں صحیح نہیں ہوتا تھا تو مدد کرنے سے گریز کرتے تھے اور اسی بابت آپ کی ذات کو تہمتوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔۔۔ خلیفہ سوم سے آپ کے تعلقات کشیدہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ آپ (ع) خلیفہ کے بہت سے فتووں اور احکام کے سلسلہ میں مخالف نظریات کا اظہار فرماتے تھے، گو کہ آپ کی مخالفت عین اسلام کے مطابق ہوتی تھی۔

خلافت علی علیہ السلام
خلفاء اور انکے علمی و سیایسی حلیف جب بھی کسی مشکل سے دوچار ہوتے تھے اور ان مسائل کے حل سے عاجز ہوتے تھے تو مولا (ع) کے حضور ہی دست دراز کیا کرتے تھے۔ یہ باتیں سبب بنیں کہ اسلامی معاشرہ میں حضرت علی علیہ السلام کی علمی شخصیت، لوگوں کی نگاہوں کو اپنی طرف جذب کرے اور لوگ دوبارہ آپ کو اسلام کے نجات بخش اسرار و علوم کا گنجینہ سمجھنے لگیں۔ سیاسی نقطہ نظر سے بھی معاشرے کے آگاہ و دیدہ ور افراد نے جو موجودہ سیاست کو اسلامی مصالح کیخلاف دیکھ رہے تھے، مولا علی علیہ السلام کی ذات کو اگلی مستحق خلافت کی حیثیت سے نظر میں رکھ لیا ۔۔۔۔۔ مزید حضرت کے شیعوں نے بھی جب حالات اور ماحول کو مناسب دیکھا تو امام کے درخشاں چہرے کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے لگے اور امام علیہ السلام کو بروئے کار لانے کیلئے سیاسی جدوجہد تیز کر دی ۔۔۔۔

معاشرے کے عام افراد بھی معاشرے میں رائج حاکمیت کو دینی و سیاسی اعتبار سے اپنے اغراض و مقاصد کے خلاف دیکھ رہے تھے اور مولا علی علیہ السلام کی طرف مائل ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ یہی وہ وجوہات تھیں کہ خلیفہ سوم کے بعد لوگ حضرت علی علیہ السلام کو تخت خلافت پر متمکن کرنے کیلئے آپ کے گھر پر جمع ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ اور اس بار گزشتہ روش کے برخلاف ۔۔۔۔۔۔ کہ خلفاء پہلے خلافت پر براجمان ہوتے تھے اور عوام بعد میں انکی بیعت کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ اس دفع پہلے لوگوں نے مولا علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے بعد مولائے کائنات نے خلیفہ کی حیثیت سے خلافت کی ضمام اپنے ہاتھوں میں لی۔

دور حکومت میں سیاست علوی
امیر المومنین علیہ السلام کی پانچ سالہ حکومت میں سب سے مقدم کام یہ تھا کہ آپ امور مملکت اور معاشرہ کے دھارے کو اس سیاست کے مطابق واپس موڑنے میں مصروف تھے، جس کا انحصار عین اسلامی ضوابط اور انسانی اقدار کی بنیاد پر تھا اور امام علیہ السلام ذرہ برابر بھی ان اصولوں سے عدول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔

اسلامی حاکمیت کی اصلاح مشرکین سے جنگ پر مقدم
امام علیہ السلام کا پورا دور حکومت اسی قالب میں ڈھلا نظر آتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے درمیان سیاسی فساد کی اصلاح کو ملکی فتوحات اور زمینوں کی تسخیر پر مقدم قرار دیتے تھے اور اس سیاست کے پیش نظر اس بات کو ترجیح دیتے تھے کہ اسلامی مملکت بھلے اسی جغرافیائی حدود میں باقی رہے، لیکن ملک کے اند سیاسی فساد کی حکمرانی نہ ہو اور ایسے عناصر عوام کی خدمت پر مامور ہوں، جن کی دینی و سیاسی صلاحیت و قابلیت میں کوئی شک و شبہ نہ پایا جائے، یہی وجہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام کو بعض افراد مشورے دیا کرتے تھے کہ معاویہ اور معاویہ صفت دوسرے افراد کو انکے حال پر چھوڑ دیں، بلکہ انہیں اپنے ساتھ ملانے کی سیاست پر عمل کریں ۔۔۔۔ تو مولا علیہ السلام اسیے افراد کو جواب دیتے تھے کہ: ’’میں اس سلسلہ میں دو راہ کے علاوہ کوئی تیسری راہ نہیں پاتا ۔۔۔۔ یا اس قوم (قاسطین) سے جنگ کروں یا پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت سے انکار کر دوں‘‘ (انساب الاشراف ج ۱، صفحہ ۲۳۶ و دیگر)

پھر فرماتے ہیں:
’’خداوند عالم ہرگز مجھے اس حال میں نہ دیکھے کہ میں گمراہوں کو اپنی حکومت کے بازوں کی حیثیت سے قبول کروں‘‘ (طبری ج۳، صفحہ ۴۶۰)
یہی وجہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام اپنے دور حکومت میں ملکی فتوحات کے بجائے اپنی سیاست کو عملی شکل دینے میں مشغول رہے، امام علیہ السلام اپنا فریضہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک کے اندرونی فساد پرور عناصر سے جنگ کریں، تاکہ یہ عناصر دین اسلام کو نقصان نہ پہنچا سکیں اور بارہا یہ فرماتے تھے کہ ’’میں عہد شکنوں، ظالموں اور دین سے منحرف لوگوں سے جنگ کرنے پر مامور کیا گیا ہوں۔‘‘

امام علیہ السلام کسی طرح بھی معاویہ کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھے، حتی آپ اس پر بھی آمادہ نہیں تھے کہ معاویہ ایک لمحہ کیلئے بھی ان کی طرف سے شام کا حاکم رہے۔ لہذا آپ نے اس فتنہ کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے پوری طاقت لگا دی، تاکہ دین اسلام کو تحفظ فراہم کیا جاسکے اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے، لیکن اہل عراق کی جانب سے کمزوری کے اظہار اور معاویہ کے پر فریب نعروں کا شکار ہونے کے بعد آپ اپنے اس مشن کو آگے نہ بڑھا سکے ۔۔۔۔۔ سپاہ کوفہ کی فکری کمزوری ۔۔۔۔۔ جس نے سپاہ کوفہ کی عملی طاقت کو صفر کر دیا تھا ۔۔۔۔ کا فطری نتیجہ یہی تھا کہ امام کی شہادت کے بعد معاویہ عراق پر حاکم ہوگیا، لیکن قاسطین اور ظالمین اور منافقین سے امام علیہ السلام کی جنگ کی سنت ایک دینی اصل کی حیثیت سے تمام مسلمانوں میں مقبول ہوگئی اور باغیوں کے خلاف جنگ سے مربوط شرعی احکام کی بنیاد قرار پائی۔

تمام کوششوں کا محور۔۔۔تحفظ اسلام
امام علیہ السلام کی سیاست کا محور تحفظ اسلام رہا ۔۔۔ آپ مسلسل کوششوں میں رہے کہ دین اسلام کو جتنا مضبوط سے مضبوط تر کیا جاسکے ۔۔۔۔ کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام اپنا حق پامال ہوتا دیکھتے رہے لیکن خاموش رہے۔ صرف اس لئے کہ کہیں عرب کے نئے نئے مسلمانوں کا ایمان متزلزل نہ ہو جائے اور اسلام کو نقصان نہ پہنچے، آپ نے محمد بن ابی بکر کو لکھے گئے ایک خط میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
’’۔۔۔۔۔۔میں خوفزدہ ہوا کہ اگر میں نے اسلام و مسلمانوں کی مدد نہ کی تو کہیں اس (اسلام) پر کوئی ضربہ نہ وارد ہو، جو میرے لئے تم لوگوں پر اس چند روزہ حکومت سے محروم ہو جانے سے کہیں بڑی مصیبت ثابت ہوتی۔۔۔۔۔‘‘

جی ہاں کون ہے جو اسلام کی بقا کی خاطر اپنے حق کو پامال ہو جانے دے لیکن خاموش رہے، کون ہے جو اسلام کی بقا کی خاطر اپنا پورا گھر بار لٹا دے اور پھر بھی خدا کا شکر بجا لائے، کون ہے جو اپنا سب کچھ راہ خدا و اسلام میں قربان کر دینے کے بعد بھی سجدہ شکر بجا لائے ۔۔۔۔۔ اسلام کی بقا اولیت رکھتی ہے ہر چیز پر ۔۔۔۔۔ صحیح کہا تھا شہید بہشتی نے کہ انقلاب کیلئے خون بہانا پڑتا ہے لیکن انقلاب کو بچانے کیلئے خون کے گھونٹ پینے پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارا سلام ہو ان پر جنہوں نے اسلام کی بقا کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔۔۔۔۔ خدایا ہمیں بقائے اسلام کی راہ میں زندگیاں نچھاور کرنے کی توفیق عطا فرما۔

متعلقہ مضامین

Back to top button