مقالہ جات

امام عدل و عدالت امیر المومنین حضرت علی (ع) ابن ابی طالب ع

hazrat aliمیرے ذہن میں جب بھی عدل علی (ع) کا تصور وارد ہوتا ہے تو میری سماعتوں سے حضرت عمر کا وہ جملہ سب سے پہلے ٹکراتا ہے کہ جب ایک بے گناہ شخص محض چند جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر کوڑوں کی سزاu وصول کرنے کے لئے لایا جارہا تھا اور پھر امیر المومنین حضرت علی (ع) نے اس کو واپس لاکر ایسا تاریخی اور منصفانہ فیصلہ فرمایا جس پر حضرت عمر بے ساختہ کہہ اٹھے کہ یا علی (ع) آج اگر آپ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔

حضرت عمر کے دور خلافت کا وہ مشہور و معروف واقعہ بھی پوری امت مسلمہ کے اذہان میں موجود ہے کہ جب دو عورتوں کا ایک بچے پر تنازعہ ہوا, وہ دونوں اس کی ماں ہونے کی دعویدار تھیں اور جب سرکاری عدالتیں اس تنازعہ کا کوئی حل تلاش نہ کرسکیں تو ایک بار پھر دروازہ عدل علی (ع) کی طرف رجوع کیا اور انصاف کی ایسی شاندار مثال حاصل کی کہ آج بھی دنیا ششدر و حیران ہے۔

اگر ہم عدل علی (ع) کے اپنی ذات پر نفاذ کا جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں آپ (ع)کی حیات طیبہ میں متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ جب آپ (ع) نے اپنے آپ کو بھی عدل سے مستثنی قرار نہیں دیا بلکہ سب سے پہلے احتساب کے لئے خود کو پیش کیا۔ یہودی کے ساتھ زرہ کی چوری کے تنازعے میں اپنے ہی دور حکمرانی میں شرعی عدالت کے قاضی کے روبرو حاضر ہوئے اور اپنے خلاف ہونے والے فیصلہ کو خوشدلی سے قبول فرمایا۔ آپ (ع) کے اس عادلانہ رویے سے متاثر ہوکر یہودی نے آپ (ع) کی زرہ بھی واپس کردی اور حلقہ بگوش اسلام بھی ہوا کہ جس مذہب کے حکمران عدل و انصاف کے اس معیار پر فائز ہیں اس مذہب کی دیگر تعلیمات سے کس طرح انکار ممکن ہے؟

عدل علوی کی ایک اور مثال پیش کرکے ہم آگے بڑھتے ہیں تاکہ ہمیں اپنی ذاتی و اجتماعی اور عدالتی خرابیوں کی نشاندہی میں آسانی ہو۔ ایک مرتبہ امیر المومنین (ع) کے غلام خاص حضرت قنبر (ع) نے عرض کیا \’\’یا علی (ع) چونکہ آپ بیت المال کی ساری رقم مسلمانوں پر صرف فرمادیتے ہیں اور اپنے ذاتی مصرف کے لئے اس میں سے کچھ نہیں لیتے اس لئے میں نے اپنے ذاتی حصے میں سے کچھ رقم بچاکر آپ (ع) کے لئے علیحدہ رکھ دی ہے, اگر وہ قبول فرمالیں تو اس غلام کے لئے باعث سرفرازی ہوگی\’\’ آپ (ع) نے فرمایا وہ رقم کہاں رکھی ہے میرے ساتھ چلو اور مجھے دکھائو۔ حضرت قنبر آپ (ع) کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے جہاں انہوں نے وہ رقم دو تھیلیوں میں سی کر رکھی تھی۔

امیر المومنین (ع) ان تھیلیوں کو دیکھ کر شدید غصہ ہوئے اور نہایت سخت لہجے میں حضرت قنبر (ع) سے فرمایا \’\’اے قنبر کیا تو میرا گھر دوزخ کی آگ سے بھرنا چاہتا ہے؟ اس وقت تلوار نکال کر ان دونوں تھیلیوں کے ٹکڑے کردیئے جس سے سارے سکے زمین پر بکھر گئے۔ آپ (ع) نے فرمایا اے سونا اور چاندی تیری چمک علی کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ اس کا فریب کسی اور کو دے جو تیرا دلدادہ ہو میں تیرے فریب میں نہیں آسکتا۔ پھر حکم فرمایا کہ ان سکوں کو جمع کرکے مسجد میں لے چلو جب حکم کی تعمیل ہوئی اور سکے مسجد میں پہنچے تو آپ (ع) نے وہ برابر حصوں میں مسجد میں موجود مسلمانوں میں تقسیم فرمادیئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اس فریضے سے سبکدوش ہوئے اور انصاف کا تقاضا پورا کیا۔

انصاف و عدل کا یہی معیار آپ (ع) نے اپنی اولاد اور اپنے اصحاب و رفقائے کار کے ساتھ بھی اپنایا۔ اپنے بھائی حضرت عقیل ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ بیت المال کی تقسیم اور اس میں سے ان کے حصے سے زائد نہ دینے کا معاملہ بھی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے جبکہ اپنے بیٹے حضرت امام حسن (ع) کی طرف سے ایک مرتبہ شہد کے بلااجازت استعمال کا معاملہ بھی آپ (ع) کے عدل کی ایک اعلی مثال ہے جبکہ اپنے دور حکمرانی میں آئین و قانون کی پاسداری نہ کرنے والے عمال حکومت کی برطرفیاں بھی عدل علی (ع) کی روشن مثالیں ہیں۔

تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ دو عورتیں ایک ہی بچے کی ماں ہونے کی دعویدار بن کر امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہ دونوں ایک ہی شوہر کی بیویاں تھیں اس لئے دونوں کا دعوی کا تھا کہ مذکورہ بیٹا اُن کی حقیقی اولاد ہے۔ آپ (ع) نے متعدد دلائل کے ذریعے انہیں سمجھایا کہ ایمانداری اور سچ سے کام لیتے ہوئے غیرحقیقی ماں اپنے دعوے سے دستبردار ہوجائے، جائیداد کے لالچ میں آکر گناہ کی دلدل میں نہ جائے اور خدا کے غضب کو دعوت نہ دے۔ آپ (ع) نے گواہان بھی طلب کئے لیکن ان سے بھی معاملہ حل نہ ہوا۔ آپ (ع) نے کافی وعظ و نصیحت بھی کی لیکن اس پر کسی قسم کا اثر نہیں ہوا۔

بالآخر آپ (ع) نے حکم جاری فرمایا کہ بچے کے دوٹکڑے کرکے دونوں عورتوں میں برابر تقسیم کردئیے جائیں۔ یہ فیصلہ سنتے ہی بچے کی حقیقی ماں فطری محبت کی وجہ سے تڑپی اور درخواست کرنے لگی کہ میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوتی ہوں آپ اس بچے کو ذبح نہ کریں بلکہ دوسری عورت کے حوالے کردیں۔ اس کے مقابلے میں دوسری عورت ٹس سے مس بھی نہ ہوئی اور اس نے بچے کے دو ٹکڑے کرنے کے حکم پر کسی قسم کا ملال نہیں کیا۔ اس رویے اور انداز سے ثابت ہو گیا کہ وہ بچے کی حقیقی ماں نہیں ہے۔ اور محض لالچ کی خاطر بچہ ہتھیانا چاہتی ہے۔ لہذا امیرالمومنین (ع) نے حکم دیا کہ بچہ اُس عورت کے حوالے کیا جائے جس نے مامتا کے فرط محبت میں آکر بچے کو بچانے کے لیے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔یہ فیصلہ بھی فطرت اور منطق کے عین مطابق تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ علی (ع) فطرت سے بھی کاملاً آگاہ ہیں اور منطق پر بھی مکمل دسترس رکھتے ہیں۔

اوراق تاریخ میں اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بھی ملتا ہے، جس میں آپ (ع) کی خدمت میں دو عورتیں اور دو بچے (ایک لڑکا اور ایک لڑکی) لائے گئے۔ دو عورتوں نے دعوی کیا کہ وہ لڑکے کی حقیقی اور اصلی مائیں ہیں جبکہ لڑکی کے بارے کوئی عورت ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھی۔ ہر عورت کا کہنا تھا کہ دوسری عورت نے اُس کا بیٹا چوری کرکے اپنی بیٹی اُس کی جھولی میں ڈال دی ہے۔ امیر المومنین علی (ع) ابن ابی طالب (ع) نے یہاں بھی قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے گواہان طلب کئے لیکن کوئی موثر گواہی سامنے نہ آسکی۔

آپ (ع) نے انہیں بھی بہت وعظ و نصیحت کی اور محض اولاد نرینہ کے حصول کے لیے آخرت برباد کرنے سے بہت منع کیا لیکن دونوں عورتیں باز نہ آئیں۔ اس مرتبہ آپ (ع) نے ایک دوسرا فطری راستہ اختیار فرمایا اور دو ہم وزن شیشیاں منگوائیں۔ ایک شیشی میں ایک عورت کا دودھ حاصل کیا اور دوسری شیشی میں دوسری عورت کا اُتنا ہی دودھ حاصل کیا۔ پھر آپ (ع) نے دونوں شیشیوں کا الگ الگ وزن کرایا۔ جس عورت کے دودھ والی شیشی کا وزن دوتہائی زیادہ تھا لڑکا اس کے حوالے کردیا اور جس عورت کے دودھ والی شیشی کا وزن دوتہائی سے کم تھا لڑکی اس کے حوالے کردی۔ حاضرین نے اس فیصلے کی وجہ دریافت کی تو آپ (ع) نے عورت اور مرد کے حصے کے بارے میں قرآنی آیت کی صورت میں موجود نص صریح کا حوالہ دیا تو حاضرین عش عش کر اٹھے۔

ان چند مثالوں کے تذکرے کا مقصد عدل علی (ع) کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے معاشرے اور ملک میں عدل کی صورت حال کا جائزہ لینا ہے۔ ہمیں سوچنا اور دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی ذات سے لے کر اپنے اجتماعی معاملات تک عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں یا نہیں؟ موجودہ دور میں اگر ہم دنیا بھر میں عدل و انصاف کی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کی شدت سے کمی محسوس ہوتی ہے کہ کہیں بھی عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جارہا۔ دنیا کی سب سے بڑی عدالتیں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اس کا پہلا بڑا ثبوت ہیں جہاں بے عدلی اور ناانصافی کے کھلے عام مظاہرے ہورہے ہیں۔ عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔

اس کی واضح مثالیں مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر، مسئلہ عراق، مسئلہ افغانستان اور دیگر مسائل ہیں، جن کے حل کے لئے اس لئے توجہ نہیں دی جاتی کہ ان کا حل ان اداروں کی بقاء کے لئے سود مند نہیں ہے۔ ہمیں یہاں اپنے پیارے وطن کے نظام عدل و انصاف کا جائزہ ضرور لینا ہوگا۔ ہم اپنے عدالتی نظام کے اسلام سے ہم آہنگ ہونے یا نہ ہونے پر بھی بات نہیں کرتے صرف اتنا جائزہ لیتے ہیں کہ جس شکل میں آئین اور قانون موجود ہے کیا اس کی بنیاد پر ہی ملک میں عدل وانصاف کا نفاذ کیا گیا ہے؟ ماضی میں اعلی اور زیریں عدالتوں کے کردار اور فیصلوں کے مطالعے اور موجود دور میں عدالتوں کی کارکردگی سے ہمیں اس کا جواب واضح نفی میں ملتا ہے۔

پاکستان کے ایک عام شہری سے لے کر صدر مملکت تک اور ایک عام وکیل سے لے کر چیف جسٹس آف پاکستان تک اور ایک عام سپاہی سے لے کر چیف آف آرمی اسٹاف تک کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم کے قتل سے لے کر آج کے ہر سیاسی قتل تک کسی کا فیصلہ ہوا؟ ملک کو حکمران طبقے، سیاسی مداریوں، بیوروکریسی، مسلح افواج، خفیہ طاقتوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مذہبی جغادریوں، فرقہ پرست ملائوں، مفاد پرست مذہبی رہنمائوں، لبرل ازم کے نام پر لادینیت پھیلانے والوں، آزادی کے نام پر فحاشی اور ہم جنس پرستی کا بیج بونے والوں اور ترقی کے نام بیرونی اور یورپی ثقافت کو فروغ دینے والوں نے مختلف انداز میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔

جس کے بعد ان کے خلاف بڑے شوروغل سے مقدمات درج ہوئے لیکن ان کا فیصلہ کیا ہوا؟ ملک کی تاسیس سے لے کر آج تک کتنی مرتبہ فوجی اور سول بغاوتیں رونما ہوئیں اور ملک کے مقدر سے کھیلنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس جرم میں لوگ گرفتار ہوئے اور مقدمے قائم ہوئے لیکن ان میں سے کس کا فیصلہ ہوا؟

علی (ع) کے عادل ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ ایک عیسائی مورخ جارج نے امیرالمومنین (ع) کی شخصیت پر لکھی گئی اپنی کتاب کے سرنامے میں لکھا کہ \’\’اس کتاب کا انتساب اُس علی (ع) کے نام جو شدت عدل کی وجہ سے قتل کردیا گیا\’\’۔ علی (ع) کی زندگی، علی (ع) کا قیام، علی (ع) کی جنگیں، علی (ع) کی خاموشی اور علی (ع) کا کلام عین عدل ہے۔ ہمارے معاشروں میں عدل و انصاف کی ناگفتہ صورت حال کا تذکرہ طویل ہے لیکن ان غیر محدود اور طویل مصائب و آلام اور مشکلات و مسائل کا حل ہمیں صرف اور صرف امیر المومنین حضرت علی (ع) کے \’\’عادلانہ نظام عدل\’\’ کے نفاذ میں نظر آتا ہے جہاں حکمران سے لے کر ایک عام شہری تک سب کے ساتھ برابر اور مساویانہ سلوک ہو اور کوئی شخص قانون و آئین سے بالاتر نہ ہو بلکہ ہر وقت احتساب کے لئے آمادہ و تیار نظر آئے۔ یہی عدل و انصاف اصل اسلام اور حقیقی جمہوریت کی روح ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button