مقالہ جات

اور اب عسکری رضا بھی شہید،ذمہ دار کون؟

askari-raza2پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی میں ایک عرصے سے گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور پاکستان کی اس تجارتی شہ رگ کو کبھی لسانی فسادات کی آگ میں جھونکا جاتا ہے تو کبھی یہاں بوری بند لاشوں کے ذریعے امن و امان کی صورت حال مخدوش بنائی جاتی ہے۔ کبھی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے، بھتہ خوری کی جاتی ہے تو کبھی فرقہ وارانہ کشدگی کو ہوا دی جاتی ہے۔ امن و امان کی اس مخدوش صورت حال سے جہاں ملک میں مختلف کھیل کھیلنے والی طاقتیں فائدہ اٹھاتی ہیں وہیں غیرملکی طاقتیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کرتیں۔
اس تمام تر کھیل میں سب سے زیادہ نقصان خود پاکستان اور اس کے باسیوں کا ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات کی وجہ سے ایسے لوگ جو ملک کی کریم قرار دیے جاتے ہیں جن میں ڈاکٹر انجینیئر اور دیگر ہنرمند افراد شامل ہیں، پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہو رہے ہیں اور اب پاکستان ایک ایسے ملک میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے جو بہترین افرادی قوت تیار کر کے خود اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے دوسرے ملکوں کو برآمد کر دیتا ہے۔ سیاسی سماجی اقتصادی اور سلامتی سمیت ہر شعبے میں عدم استحکام کا شکار پاکستان غلط پالیسیوں اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے مشکلات کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور امن و امان قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے خود ہی اس کی سلامتی کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اور عدلیہ بھی اپنی آزادی کے تمام تر دعووں کے باوجود اب بعض حق پسند اور حریت پسند حلقوں میں شک و شبہہ کی نگاہ سے دیکھی جا رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پاکستان کی ممتاز قانون دان اور عدلیہ بحالی تحریک میں پیش پیش محترمہ عاصمہ جہانگیر کا عدلیہ کے بارے میں حالیہ بیان ہے۔ 
سپریم کورٹ میں زیر سماعت میمو اسکینڈل کیس میں سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اس اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے قائم عدالتی کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وہاں پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے، صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے موکل کو بتا دیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو کوئی اور وکیل کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد عدلیہ کے لئے ہماری ساری قربانیاں رائیگاں چلی گئیں، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میمو کیس کے فیصلے میں نواز شریف کو سیاسی فائدہ دینے کی کوشش کی گئی کیونکہ بقول ا ن کے درخواستیں تو قابل سماعت ہی نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ممیو کمیشن پر مجھے اعتبار ہے نہ انصاف کی کوئي توقع ہے میں اپنے موکل کے لیے انصاف کی توقع کیونکر اور کس سے رکھوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میمو گيٹ کا فیصلہ دیتے ہوئے نو جج متفق ہوں، کسی ایک جج نے بھی اختلافی نوٹ نہیں لکھا، آزاد عدلیہ کے لیے دی جانے والی ہماری ساری قربانیاں رائیگاں چلی گئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے ایک انتہائی اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایجنسیوں کے کردار سے سب لوگ واقف ہیں وہ تو کسی مسئلے کو راتوں رات قومی سالمیت اور سلامتی کا مسئلہ بنادیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حسین حقانی خفیہ اداروں کے خوف سے وزیراعظم ہاؤس میں رہ رہے ہیں حقانی کو خطرہ ہے کہ خفیہ ادارے انہیں اٹھا کر لے جائيں گے اور ان سے اپنی مرضی کا بیان لے لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میمو کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کی فتح ہے فیصلے دینے والے جج آزاد نہیں تو کمیشن کیسے آزاد ہو گا۔ انہوں نے کہا عدالت کہتی ہے کہ فوج نہیں آئے گی لیکن میں کہتی ہوں کہ فوج گئي ہی نہیں فوج نے ابھی بھی اقتدار نہیں چھوڑا۔
یہ بیان پاکستان کی ایک ایسی شخصیت کا ہے کہ جو ایک قانون داں ہے اور جو ایک عرصے تک انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ بھی رہی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اصل حکومت کس کے ہاتھ میں ہے اور کس طرح ایجنسیاں اپنے ایجنٹوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
حالیہ دہشت گردی کی کارروائی میں کراچی کے ایس ایس پی چوہدری اسلم کا نام سامنے آیا ہے جو اس سے پہلے بھی دہشت گردوں کی سرپرستی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ لیکن کیا چوہدری اسلم خود سے یہ کام کر رہا تھا یا اس سے کام لینے والے درپردہ ہاتھوں کو بھی بےنقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
Source: Radio Tehran

متعلقہ مضامین

Back to top button