مقالہ جات

سپاہ محمد اُس وقت وجود میں آئی جب تشیعُ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی تھی، ابوتراب نقوی

296837 202080526521371 1000کالعدم سپاہ محمد کے سربراہ سید غلام رضا نقوی کے فرزند ابو تراب نقوی کانمائندے کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ والد صاحب کی کمی اس وجہ سے زیادہ محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اسیری ہمارے آئمہ ع کی سُنت ہے، دین کے نام پر تکالیف کو برداشت کرنا شیعت کی تاریخ ہے، اگر آج ہم اپنا مذہب چھوڑ دیں تو دشمن ہمیں سر آنکھوں پر بٹھا لے گا، ہم باغیرت قوم کے افراد ہیں، ہم تکالیف اور اذیتیں تو برداشت کر سکتے ہیں مگر ایک لمحہ کے لیے اہل بیت ع کی محبت سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، راہ حق میں موت ہمارے لیے سعادت ہے۔

کالعدم سپاہ محمد کے سربراہ سید غلام رضا نقوی محبت اہلبیت ع کے جرم میں پندرہ برسوں سے پابند سلاسل ہیں۔ ان کا آبائی علاقہ چک نمبر 463 سکنہ حسن شاہ، ٹوبہ روڈ ضلع جھنگ ہے۔ ان کے جیل جانے کے وقت ان کے بڑے فرزند ارجمند سید ابو تراب رضا نقوی کی عمر صرف آٹھ برس تھی، اس کمسنی میں والد گرامی کے سائہ شفقت سے محروم ہونے کے باعث تین بہنوں اور دو بھائیوں کی کفالت اور گھر کی دیگر اہم اور سنگین ذمہ داریاں ان کے ناتوان کندھوں پر آن پڑِیں۔ گھر میں والد گرامی کی عدم موجودگی کے باعث ان پندرہ سالوں میں کمسن ابو تراب رضا نقوی اور ان کے گھر والوں پر کیا گزری، ان کے والد گرامی کے اہم معاملات، ان کے کسیز کی موجودہ صورتحال، سپاہ محمد کی تشکیل اور فعالیت کے بارے میں اسلام ٹائمز نے سید ابو تراب رضا نقوی سے مفصل گفتگو کی ہے، قوم و ملت کے بارے میں ان کے عزم و ارادے اور درد دل پر مبنی یہ انٹرویو قارئین کے استفادے کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس انٹرویو کا مقصد قارئین کو کالعدم سپاہ محمد اور سید غلام رضا نقوی کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ ادارہ
نمائندہ:مولانا غلام رضا نقوی صاحب جب جیل میں گئے اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی اور آپ کتنے بہن بھائی ہیں۔؟
سید ابو تراب نقوی:جی اس وقت میری عمر تقریباً اٹھ برس تھی اور اب میں تیئس سال کا ہو گیا ہوں، میرے بابا کو جیل میں گئے ہوئے تقریباً پندرہ برس بیت گئے ہیں، میرے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، اس کے علاوہ گھر کا واحد کفیل ہوں اور والد صاحب کے کیسز کی بھی پیروی کر رہا ہوں۔
نمائندہ :مولانا غلام رضانقوی صاحب جب جیل میں گئے اس وقت آپ کی کتنی عمر تھی اور کتنے بہن بھائی ہیں؟
سید ابوتراب نقوی: جی اس وقت میری عمر تقریباً اٹھ برس تھی اور اب تیئس سال کا ہوگیا ہوں، میرے بابا کو جیل میں گئے ہوئے تقریباً پندرہ برس بیت گئے ہیں، میرے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، اس کے علاوہ گھر کا و احد کفیل ہوں اور والد صاحب کے کیسز کی بھی پیروی کررہا ہوں۔
نمائندہ:اس وقت گھر کے کیا حالات ہیں اور کہاں رہائش پذیر ہیں، دوسر یہ کہ رضا نقوی صاحب کے جیل جانے کے بعد اب ذریعہ معاش کیا ہے؟
سید ابوتراب نقوی:ہم لوگ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور میں رہائش پذیر ہیں، پہلے ہم لوگ کرائے کے مکان میں رہتے تھے تاہم چند سال قبل ایک مومن نے کچھ رقم دی اور کچھ خود سے کوشش کرکے پیسے اکھٹے کیے اور ایک سات مرلے کا مکان لیا ہے۔ جہاں تک ذریعہ معاش کا تعلق ہے تو پہلے ایک مقامی مولانا کے تعاون سے ایک کپڑوں کی دکان بنائی تھی تاہم تجربہ نہ ہونے اور بابا کے کیسز کی پیروی کے باعث وہ کام زیادہ دیر نہ چل سکا، اس کے بعد اب میں نے ٹھوکر نیاز بیگ میں ایک انٹرنیٹ کیفے بنایا ہے جس سے کچھ انکم ہوجاتی ہے۔
نماہندہ: مولانا غلام رضا نقوی صاحب کی صحت کے بارے میں بتائیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں فالج ہوا تھا جس کے باعث انہیں کافی مسائل کا سامنا ہے؟
سید ابوتراب نقوی: مولانا غلام رضا نقوی صاحب اس وقت کیمپ جیل لاہور میں بند ہیں، مجھے ذاتی طور پر ملے ہوئے ایک ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ کافی کمزور ہوچکے ہیں، ایک سال قبل جسم کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہوا تھا، مناسب علاج معالجہ اور خوراک نہ ہونے کے باعث صحت کافی کمزور ہے، ہاتھ سے جو لکھتے ہیں وہ سمجھ نہیں آتا، زبان میں لکنت تھی تاہم اب کافی کور ہوگیا ہے تاہم اگر مناسب علاج و معالجہ کا بندو بست ہوجائے تو کافی بہتری آسکتی ہے۔
نمائندہ: مولانا غلام رضا نقوی صاحب پر کتنے کیسز ہیں اور اب اُن کی کیا صورتحال ہے؟
سید ابوتراب نقوی:مولانا صاحب پر قتل اقدام قتل، ناجائز اسلحہ وغیرہ کے کل79 جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے، جن میں سے 78 مقدمات میں ختم ہو چکے ہیں، اب صرف ایک مقدمہ باقی ہے جس میں انہیں سزائے موت کی سزاء ہوئی جو ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔
نمائندہ:اس مقدمے کی کیا تفصیلات ہیں، کیسز کی پیروی میں کیا مشکلات درپیش ہیں اور تعاون کون کررہا ہے؟
سید ابوتراب نقوی: 1994ء میں کالعدم تنظیم کے رہنماء اعظم طارق پر ضلع سرگودھا کے نواحی علاقہ وادھی شاہپور میں حملہ ہوا تھا جس میں ان کے 3 محافظین ہلاک ہوئے تھے۔ اس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی، مقدمہ کی پیروی پہلے خرم لطیف کھوسہ کررہے تھے تاہم اب چوہدری اصغر علی گل صاحب کو وکیل کیا ہے۔ رضا نقوی صاحب پر جو مقدمات درج ہوئے اُن میں اکثر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ عدالتوں میں کیس کی عدم پیروی، عدالتی نظام کے نقائص اور کچھ مومنین میں خوف و ہراس کے باعث مقدمات تاخیر سے ختم ہوئے۔ کیس کی پیروی کی جاتی تو ابتک رضا نقوی صاحب کب کے جیل سے رہائی پاچکے ہوتے، بذت خود کم عمری کے باعث عدالتی نظام کو سمجھنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا جس کے باعث کافی سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ،تاہم اللہ کا خصوصی لطف اور بعض احباب کی انتھک محنت کی بدولت 78 مقدمات ختم ہوچکے ہیں۔
جس مقدمے میں میرے بابا جیل میں ہیں اس کی ایف آئی آر 1994ء میں درج ہوئی اور دو سال تک پولیس نے عدالت میں چالان تک پیش نہیں کیا، 1997ء میں نواز شریف کے دور حکومت میں انسداد دہشت گردی کا قانون پاس ہوا مگر پولیس میں چند شیعہ دشمن افسران کی وجہ سے 1994ء کی FIR پر اے ٹی سی سیون اے لگا کر مقدمہ کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں شروع کر دی گئی، جس کے بعد مولانا غلام رضا نقوی کو کبھی ڈیرہ غازی خان جیل، کبھی کوٹ لکھپت، کبھی فیصل آباد اور کبھی کیمپ جیل لاہور میں رکھا جاتا رہا۔ مقدمہ کی ہائی کورٹ میں پیروی کے لیے ابتدائی طور پر سردار لطیف کھوسہ صاحب کو وکیل کیا گیا، جس کی فیس ایک مومن رکن قومی اسمبلی نے ادا کی۔ مختصر یہ کہ وکلاء موومنٹ کے دوران کیس کی سماعت رک گئی، پی پی برسر اقتدار آگئی، لطیف کھوسہ گورنر پنجاب بن گئے اور پھر تمام مقدمات اُن کے بیٹے خرم لطیف کھوسہ نے دیکھنا شروع کر دئیے۔ اتفاق ایسا کہ جب کبھی تاریخ ملتی تو وکیل پیروی مصروف ہوتے اور اگر وکیل فارغ ہوتے تھے تو تاریخ لمبی مل جاتی تھی۔
نمائندہ :اس پورے عرصہ میں کسی نے کوئی تعاون بھی کیا یا نہیں؟
سید ابوتراب نقوی: دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی کے رہنماء ملک اسحاق 100 سے زائد مقدمات میں ملوث تھا اور سب کو پتہ ہے کہ مقدمات کتنے سنگین نوعیت کے تھے، تاہم اس کی بیل ہوگئی، کئی مقدمات ختم ہوگئے، اس کی رہائی کے بعد اب چند درد دل رکھنے والے مومنین کرام ہمارے کیس کی جانب متوجہ ہوئے ہیں اور مولانا غلام رضا نقوی صاحب کی رہائی کے لیے کوششیں تیز ہونا شروع ہوئیں ہیں، ابھی ہم نے باہمی مشاورت سے چوہدری اصغر علی گل صاحب کو وکیل کیا ہے۔ ان کے ساتھ 3 لاکھ روپے فیس طے ہوئی ہے، جن میں سے اڑھائی لاکھ روپے جمع ہوچکے ہیں اس میں مجلس وحدت مسلمین نے بھی پچاس ہزار روپے امداد کی ہے، پقایا پچاس ہزار روپے رہتے ہیں جو امید ہے کہ اللہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی سبب پیدا کردے گا۔ مزید یہ کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران چھوٹے موٹے اخراجات اور مناسب افراد کی سرپرستی کیلئے اب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قائدین نے حامی بھری ہے۔ امید ہے انشاء اللہ بہت جلد قوم کو میرے کی رہائی کی خوشخبری ملے گی۔
نمائندہ:سپاہ محمد کے بارے میں عمومی طور پر لوگوں کے خیالات بہت منفی ہیں کہ سپاہ محمد دہشت گرد جماعت تھی اور وارداتوں اور پلاٹوں پر قبضوں میں ملوث تھی، اس بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں؟
سید ابوتراب نقوی:سب سے پہلے تو یہ کہ میں سپاہ محمد کا رکن نہیں رہا، جس دور میں سپاہ محمد اپنے عروج پر تھی، اس وقت میری عمر سات یا آٹھ برس تھی۔ میں نے جو کچھ سپاہ محمد کے بارے میں سنا وہ لوگوں سے سنا ہے۔ والد صاحب سے جب جیل میں ملاقات ہوتی ہے تو زیادہ تفصیلات میں بات چیت نہیں ہوتی۔ البتہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سپاہ محمد کسی طور پر دہشت گرد جماعت نہ تھی اور نہ ہی دہشت گردی کی وارداتوں میں براہ راست ملوث تھی۔ اگر آپ اُس وقت کے حالات کا جائز لیں کہ سپاہ محمد کن حالات میں وجود میں آئی تو آپ بہتر موازنہ کر سکیں گے۔ روزانہ ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں شیعہ قوم کے افراد فقط اس جرم کی پاداش میں قتل کردئیے جاتے تھے کہ اُن کے ساتھ لفظ شیعہ لگتا تھا، امام بارگاہوں اور جلوس عزا پر آئے روز فائرنگ معمول بن چکی تھی، دہشت گرد لشکر جھنگوی جس کی پشت پناہی امریکہ، سعودی عرب اور افغان جہادی جماعتیں اور ملک کی خفیہ ایجنسیاں کر رہیں تھیں، وہ دہشتگرد گروہ کُھلم کھلا امام زمانہ ؑ کی شان میں گستاخانہ تقاریر کرتے تھے، اس وقت ان کو جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ شیعیت کا وجود شدید خطرات سے دوچار ہو چکا تھا۔ ان حالات میں جب مذہب کے نام پر لوگوں کو چُن چُن کر قتل کیا جارہا تھا تو اس وقت چند غیرت مند افراد نے ملکر سپاہ محمد کی بنیاد ڈالی، جس کا مقصد اہل بیت ؑ کی ناموس کی حفاظت اور تحفظ شیعُ تھا۔ اب اگر ردعمل کے طور پر اپنے دفاع اور ناموس کی حفاظت کی خاطر چند سرفروش افراد اقدام کرتے ہیں تو کیا آپ اُسے غلط کہیں گے، وہ صحیح تھے جنہوں نے دہشتگردی کی بنیاد ڈالی، ریاستی اداروں کی طرف سے ایسے گروہوں کو وجود بخشا گیا، جن افراد کو محب وطن سمجھ کر جہاد افغان کیلئے تیار کیا گیا آج وہ انہیں ریاستی اداروں کے لئے وبال جان بن چکے ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کبھی بھی تشیع نہ تو دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث رہی ہے اور نہ ہی ریاست کیخلاف اٹھی ہے، ہمیں مجبور کیا گیا کہ آپ اٹھو اور اپنا دفاع خود کرو، مجھے بتائیں کہ اگر ریاست اور حکومت ہمیں تحفظ دیتی، دہشتگردوں کا قلع قمع کرتی تو سپاہ محمد بنتی؟ بلکل بھی نہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، ہمیں حقیقت پسند ہونا پڑے گے۔
اب آتے ہیں آپ کے اصل سوال کی جانب کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس وقت جب حالات انہتائی مخدوش تھے، آئے روز لاشیں گر رہی تھیں، افراتفری کا عالم تھا اس وقت سپاہ محمد کے پلیٹ فارم پر کوئی تربیتی سسٹم موجود نہ تھا جس کے باعث اس سسٹم سے مربوط افراد کی روحانی و فکری تربیت کا کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے تھے، البتہ ایک خطرناک پہلو جس کی طرف اُس وقت ذمہ دار افراد نے توجہ نہیں دی وہ یہ کہ صاف پانی میں چند گندی مچھلیوں کا آنا تھا، قبضہ مافیا اور ایجنسیوں کے افراد سپاہ محمد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور سپاہ محمد کے لبادے میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرتے رہے جس سے عام مومنین میں سپاہ محمد کا تاثر غلط پیدا ہونا شروع ہوا۔ آج آپ دیکھیں کہ سپاہ محمد کے مخلص افراد جنہوں نے قوم اور ملت کی خاطر اتنی قربانیاں دیں آج وہ در در کے دھکے کھا رہے ہیں اور گزشتہ پندرہ برسوں سے جیل کی سلاخوں میں بند ہیں، مگر جو لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سپاہ میں آئے تھے آج اُن کے پلازے ہیں، ان کا کاروبار بہترین چل رہا ہے وہ عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں اسلام ٹائمز کے پلیٹ فارم سے قوم سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا قبضہ مافیا، چوروں اور لیٹروں کا محاسبہ کریں اور مخلص اور قوم و ملت کے نام پر سب کچھ قربان کر دینے والوں سے تعاون کریں، ہم نے کوئی ذاتی جنگ نہیں لڑی۔
نمائندہ:گھریلو معاملات میں مشکلات محسوس کرتے ہیں، لوگوں کے رویوں کے بارے میں کچھ بتائیں؟
سید ابوتراب نقوی: گذشتہ پندرہ برس سے والد پابند سلاسل ہیں، گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانا بہت ہی مشکل کام ہے۔ بہنوں کی تعلیم، گھر کا چولہا چلانا، اور اتنے عرصے سے والد کی پدرانہ شفقت سے محروم رہے اور اکثر اوقات اُن کی کمی کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں، والد صاحب کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث اپنی تعلیم آگے نہ بڑھا سکا۔ جہاں تک لوگوں کے رویوں کا تعلق ہے تو یہ فطری عمل ہے، اکثر لوگ مقدمات کے خوف اور مشکلات کے باعث ہم سے دور ہٹ گئے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ سپاہ محمد والوں کے پاس بہت پیسے ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ زرداری اس تنظیم کی سرپرستی کر رہے ہیں، تو کبھی یہ کہا گیا کہ ایران سرپرستی کر رہا ہے۔ اگر زرداری صاحب کی بات میں حقیقت ہوتی تو زرداری اب ملک کے صدر ہیں اور سب سے بااختیار فرد ہیں وہ سپاہ محمد کو بحال کرواتے اور اسیران کو جیلوں سے رہا کرواتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا لہٰذا یہ تاثر خود بخود غلط ثابت ہوا، دوسری بات ایران کی جاتی ہے تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج تک میں یا میری فیملی کا کوئی فرد ایران نہیں گیا اور نہ ہی ایران سے ہمیں کوئی امداد ملی ہے۔
بعض مخلص مومنین کے رویوں میں بڑی مثبت تبدیلی آئی اور انہوں نے ہمیں ہر مشکل موقع پر سہارا دیا۔ میں ان تمام احباب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ باقی والد صاحب کی کمی اس وجہ سے زیادہ محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اسیری ہمارے آئمہ کی سنت ہے، دین کے نام پر تکالیف کو برداشت کرنا شیعیت کی تاریخ ہے، میرے والد کا جرم اسیری صرف محبت اہل بیت ؑ ہے۔ اگر آج ہم اپنا مذہب چھوڑ دیں تو دشمن ہمیں آنکھوں پر بٹھا لے گا، ہم باغیرت قوم کے فرد ہیں۔ ہم تکالیف اور اذیتیں تو برداشت کر سکتے ہیں مگر ایک لمحہ کے لیے اہل بیت ؑ کی محبت سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، راہ حق میں موت ہمارے لیے سعادت ہے۔
نمائندہ: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مولانا غلام رضا نقوی کی رہائی کے لیے کیا اقدامات ہوں تو وہ رہا ہوسکتے ہیں؟
سید ابوتراب نقوی: سب سے پہلے ان کی صحت کے حوالے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے، ایک شیعہ اکابرین کا وفد آئے، جیل خانہ جات سے ملاقات کرے اور فالج کے علاج کے لیے ڈاکٹر کی سہولت سمیت جیل کے اندر اچھی خوراک کا بندوبست کروایا جائے اور اندر سے مناسب رابطہ کے لیے اقدامات کروائے جائیں۔ اخبارات کے مطالعہ اور ٹی وی دیکھنے کی سہولت دلوائی جائے تاکہ وہ جیل سے باہر کی دنیا سے مربوط ہوسکیں، شیعہ قوم کے اندر خوف کی فضاء کو ختم کرنے کے لیے ذاکرین عظام اور علمائے کرام مجالس میں اور نماز جمعہ کے اجتماعات میں غلام رضا نقوی اور دیگر اسیران کی رہائی کے لیے آواز بلند کریں۔ پورے ملک میں پمفلٹس تقسیم کروائے جائیں۔ البتہ گزشتہ دنوں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پلیٹ فارم سے منعقدہ مک گیر اجتماع میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ وہاں پر حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ حسن ظفر نقوی صاحب نے غلام رضا نقوی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ اقدام خوش آئند ہے۔ اسی طرح دیگر اکابرین کو بھی بولنا چاہیے۔ نوجوانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ اس انٹرویو کو دیگر شیعہ ویب سائٹس پر بھی چلائیں۔ فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے سے ایک عام شیعہ فرد تک درست معلومات پہنچائی جائیں تاکہ قوم اپنے محسنوں کی مشکلات سے آگاہ ہو سکے اور اصل حقیقت اُن تک پہنچے۔
نمائندہ :کوئی پیغام دینا چاہیں؟
سید ابوتراب نقوی: میں ذاتی طور پر اور اپنے اہلخانہ کی طرف سے اسلام ٹائمز کے احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مؤقف کو سُنا اور ہماری مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے ہماری آواز کو پوری قوم تک پہنچانے میں ہماری مدد کی۔ میں ان تمام احباب کا بہت زیادہ شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اکثر اوقات ہمارا خیال رکھا، ہماری مدد کی۔ خداوند متعال بحق چہاردہ معصومین علیہ اسلام بالخصوص امام صاحب العصر والزمان ؑ ان سب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ باقی پیغام کی بات ہے تو میں خود ہدایت کا طلب گار ہوں، پیغامات قوم کے قائدین اور اکابرین دیتے ہیں۔ البتہ چند گزارشات ضرور کرنا چاہوں گا کہ زندہ قوم بننے کے لیے اپنے شہداء کو یاد رکھیں اور اپنے اسیروں کی خبرگیری رکھیں تاکہ ہم غیرت مند قوم کے غیرت مند فرد بن سکیں، دشمن جو ہمارے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کے اندر وحدت کی اشد ضروری ہے، امیر مختار کی سیرت کو یاد رکھیں۔ حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تمام اختلافات کو بھلا کر مشترکات پر اکٹھا ہو جانا چاہیے اور جیسے شہداء کی کفایت کے لیے شہید فاؤنڈیشن کام کر رہی ہے ویسے ہی اسیران کے اہل خانہ کی کفالت اور اسیران کے مقدمات کی پیروی کے لیے ملک گیر سطح پر اسیر فاؤنڈیشن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔ ایک اسیر کی مدد خوشنودی خدا ہے۔ ایک اسیر کی مدد خوشنودی محمد و آل محمد ؐ ہے۔ ایک اسیر کی مدد خوشنودی امام زمانہ ؑ ہے۔ ایک اسیر کی مدد ملت کی سربلندی اور قوم کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔ ایک اسیر کی مدد مضبوط تشیع ہے اور مضبوط تشیع استحکام پاکستان کی ضمانت ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button