مقالہ جات
انقلاب بحرین پر ایک مضمون؛ "پیروانِ تمّار”
ہر طرف احتجاج و بلوہ، چیخ و پکار، آہ و بکا، نالہ و فغاں، شور و شین اور غم و غصہ کی لہر۔ کہیں کسی کا سر بے ردہ تو کسی کی گردن بے سر۔ کوئی بدن بے لباس تو کوئی نعش بے کفن۔ کوئی خاندان بے گھر تو کوئی مکان بے وارث۔ ۔ ۔ ۔ عجب عالمِ بے سروسامانی ہے۔
دوسری جانب نگاہ کریں تو جدید ترین اسلحہ سے لیس خونخوار فوج، زرہ بکتر میں سر تا پا محفوظ سپاہی، ہاتھوں میں ایک لبلبی کی جنبش سے ہزاروں گولیاں برسانے والی بندوقیں، بکتر بند ٹینک، آنسو برآمد کرنیوالی تو درکنار، جلد کو جھلسا دینے والی گیسوں سے بھرے شیل۔ مگر یہ سب دکھاوے کا نہیں، باقاعدہ استعمال کا سامان ہے۔ اور استعمال کسی یہود و نصارٰی یا اسلام دشمن قوتوں کے خلاف نہیں، اپنے ہی ملک کے نہتے، تہذیب یافتہ اور اپنے حقوق سے آشنا باشعور مسلمان شہریوں کے خلاف، جنکا نعرہ "ارحل” نہیں، صرف بنیادی انسانی حقوق کی دستیابی ہے۔یہ ہے تصویر اکیسویں صدی کے بحرین کے شہروں کے گلی کوچوں کی، جہاں برسوں سے کچلے اور مسخ شدہ باشندوں نے اپنے حقوق کے لیئے آواز اٹھائی ہے۔ آوازیں اٹھنے کا سلسلہ تو تیونس سے جل کر مصر، سعودی عرب، لیبیا اور یمن تک بھی پھیلا تھا،جسکو عوامی امنگوں کی ترجمانی اور ملتوں کی بیداری قرار دیا گیا۔ اسی بیداری کے ذیل میں دنیا بھر کے انسانی حقوق کے خود ساختہ پہلوانوں کو بھی اپنا لوہا منوانے کا موقع مل گیا اور کھل کر ان عوامی تحاریک کا خیر مقدم اور جابر حکمرانوں کو للکارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تیونس کے عوام نے اپنے حکمران کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ مصر کا فرعون بھی عوامی طوفان کے آگے نہ ٹک سکا۔ لیبیا کے قزاق نے طاقت کے بل پر ٹھہرنے کی کوشش کی مگر قدموں میں ہنوز ثبات نہیں۔ اسی طرح جہاں جہاں اپنے اپنے حقوق کی تحریک اٹھی، جلد یا بدیر، ملائمت یا مزاحمت کے ساتھ اپنی منزل کے راستے پر گامزن ہے۔
مگر عجیب اور بمشکل سمجھ میں آنیوالی صورت حال بحرین کی ہے، جہاں، عوام کا مطالبہ، دیگر ریاستوں کی مانند خلیفہ سے نجات کا نہیں، بلکہ اپنے وجود کو فقط تسلیم کروانے کا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ آس پڑوس کے ملکوں کی فوجوں کو طاقت سے اس ابھرتی ہوئی آواز کو دبانے کی آزادی دے دی گئی! ایسے مناظر فلسطین کے گلی کوچوں میں فلمائے گئے مناظر میں برسوں سے دیکھنے کو ملتے تھے، جہاں اسرائیل کی فوجوں نے ظلم و بربریت کو بچوں کے کھیل کی طرح انجام دیا۔ صد سلام فلسطین کے غیور عوام کو جنہوں نے ظالم کے سامنے جھکنے کی بجائے اپنی گردن کٹوانے کو بہتر جانا۔ جنگ کا ایسا ہی تسلط آج بحرین کے مظلوم عوام پر بھی ہے، مگر یہ کوئی یہودی فوج نہیں، اپنے اپکو مسلمان اور خادمانِ حرمین کہلوانے والوں کی فوج ہے، جسکا مدعا بحرین کے اسّّی فیصد عوام کے جائز حقوق کے مطالبے کی آواز کو گولہ باری کے ہنگام میں دبا دینا ہے۔
عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لیے راستہ نہ مانگے کوئی
بلند ہاتھ میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
حق کی آواز اٹھنے اور اسکو دبانے کا سلسلہ آغازِآفرینش سے جاری ہے، جسے تا صبحِ جزا جاری رہنا ہے۔ انبیاء، اولیاء، اوصیاء اور حق کے متلاشی ہمیشہ سے باطل سے نبردآزما رہے ہیں اور باطل اپنے زعمِ طاقت میں ہر تحریک کو دبانے کے لئے سرگرم رہا ہے۔ یحیٰی، ابراہیم، یوسف، نوح، لوط، اسحٰق، یعقوب، موسٰی، عیسٰی یا محمد علیہم السلام جیسے پیغمبرانِ برحق ہوں یا حق کا پرچار کرنے والے علی، فاطمہ، حسن، حسین، عابد و زینب علیہم السلام جیسے پاسداران ہوں، حق کا پرچم بلند کرنے کا سلیقہ پیروان ِ حق کو سکھلا گئے۔ انہی راہبران کی راہ پر چلتے ہوئے کبھی عمّار (ر) نے اپنا گلہ کٹوایا تو کبھی تمّار (ر) سولی چڑھ گئے۔ کہیں سعیدخزری (ر) تیروں کی بارش میں سینہ سپر نظرآتے ہیں تو کہیں ابن مظاہر (ر) اپنا سر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں طفلان ِ مسلم (ع) کے لاشے پانی کی سطح پر حق کا پرچم گاڑتے نظر آتے ہیں تو کہیں خانوادہء رسالت (ع) کے یتیم بچے کربلا کے ہولناک صحراؤں میں باطل کو پاش پاش کرتے نظر آتے ہیں۔
حق گوئی کی قیمت بلا شبہ سخت گراں ہے، جسکو ادا کرنے کا حوصلہ ہر ایک کے مقدر میں نہیں، مگر جس کو اسکی قیمت کا اندازہ ہو جائے، پھر اسکو اپنے شانوں کی ناتوانی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی احساس نہیں ہو پاتا کہ ان کمزور کاندھوں میں حق پرستی کا بوجھ اٹھانے کی سکت کب آئی۔ کچھ عرصہ جسمانی، روحانی اور نفسیاتی اذیت کا، پھر جانکنی کی تکلیف اور اسکے بعد دائمی راحت۔ ہمیشہ کی زندگی اور باغات ِ جنت کے مزے۔ یہ ہے حق کا راستہ اور اسکے آخری سرے کی منزل۔ یہی نشان ِ راہ اور منزل کی نوید اہل ِ بحرین کے پیش نظر ہے، جسے وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک پانے کا عزم کیئے، خالی ہاتھ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ حق کی اس آواز کو دبانے کے لیئے یزیدیت ہمیشہ کی طرح سے طاقت کے نشے میں بدمست ہے۔ تاریخ اپنا ایک اور باب رقم کررہی ہے، جس نے نوع ِ انسانی کے لیئے ہمیشہ صرف سبق ہی چھوڑے ہیں۔ مگر تاریخ کا سب سے بڑا اور افسوسناک سبق یہی ہے کہ کسی نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔
اندھا دھند فائرنگ اور خوفناک اسلحے سے جہاں سینکڑوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، وہیں شدید مجروحین کو دوائیں تک میسر نہیں۔ ایک ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق جب ایک ہسپتال کے عملے نے دفتری کاروائی کے لیئے سردخانے کا تالا کھولا تو بیشمار شہداء کے علاوہ ان زخمی افراد کی ایک کثیر تعداد کو بھی موجود پایا، جو ہنوز زندہ تھے جبکہ انکا شمار مُردوں میں کرکے سرد خانے میں پھینک دیا گیا تھا۔ ایسے منظر کا تصور کرکے روح کانپ اٹھتی ہے۔ سلام ہوں ان حق گویوں پر جو یہ سب اپنے نفسوں پر برداشت کررہے ہیں۔ اسی منظر کی ایک جھلک 60ھ میں بھی نظر آتی ہے، جب حق گوئی کی پاداش میں میثم بن یحیٰی التمار (ر) کے جسد ِخاکی کو ایک درخت سے لٹکا کر وقفوں سے اعضائے بدن کاٹے گئے۔ تین دن تک یہ قصابانہ کھیل جاری رہا اور علی (ع) کا یہ غلام حیاتِ دائمی پاگیا۔ بحرین کے ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں پڑے یہ نیم مردہ بھی دو یا تین دن کی مزید اذیت کاٹ کر میثم تمار سے جا ملیں گے مگر یزید ِ وقت کا کیا انجام ہے، وہ اس سے بے خبر اپنے ہی نشے کی غلاظت میں غوطہ زن ہے۔
وقت ِ رخصت امام المتقین حضرت علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنے شاہزادوں کو (درحقیقت ہمیں) یہ وصیت کی تھی کہ ہمیشہ مظلوم کے حامی اور ظالم کے خلاف رہنا۔ آج ہماری نظروں کے سامنے ظلم سینہ تانے کھڑا ہے۔ اپنی بے بسی پر دل شکستہ ہے کہ ہم اپنے بحرینی بھائیوں اور بہنوں کے لئے کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ عالمی نظام ِ ظلم نے سبکو پابند سلاسل کر رکھا ہے۔ ان مجاہدین سے ہم شرمندہ ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں کہ شہادت تمہارا مقدر اور آزادی تمہاری نسلوں کی قسمت۔ ہمارے پلّے سوائے کف ِافسوس ملنے کے کچھ بھی نہیں!