مقالہ جات

خون حسین کا غم منانے والے خود بھی خون میں ڈوب گئے

article_imamدو سال قبل میں نے اس قسم کا ایک کالم ۲۸ دسمبر ۲۰۰۹ کو بھی لکھا تھا جسے ابھی آگے چل کر پورا نقل کرتا ہوں جس سے آپکو یہ اندازہ ہو گا کہ۔۔۔
شب ہوتو گئی رخصت سورج نہیں نکلا ہے
ممکن ہے کہ سورج کو تاریکی نے نگلا ہے
اُس دورِ یزیدی سے اِس عہد ِ یزیدی تک
بدلے ہیں فقط چہرے حاکم نہیں بدلا ہے
حالات روز بروز ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں، وہ بے دین اور عوام دشمن خودکش بمبار کو کبھی پہلے کہا جاتا تھا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں رہتے تھے اور وہیں سے اکر شہروں میں حملے کرتے تھے اب انہیں شہروں میں مقیم ہیں اور بلا خوف و خطر یہیں عوام کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔ ابھی اج ہی ایک بیان کور کمانڈر پشاور کا دیکھا ہے جسے پڑھ کر سوائے ہنسنے کے اور کچھ نہیں کر سکا
یہ بیان اس طرح ہے کہ کور کمانڈر پشاور آصف یسین ملک نے کہا ہے کہ سوات میں مکمل امن ہو گیا اور سوات میں چھاؤنی کی تعمیر پرجلد کام شروع ہو گا۔
میں یہ بیان پڑھنے کے بعد جیسے سوچتا رہ گیا کہ آخر نہ جانے کور کمانڈر صاحب کی لُغت میں امن کسے کہتے ہوں گے۔ ایک طرف میں یہ بیان پڑھ رہا تھا اور دوسری طرف پاکستانی ٹی وی لاہور اور کراچی میں چہلم امام حسین علیہ السلام کے جلوسوں پر ہونے والے خود کش حملوں کی لائیو فوٹیج دکھا رہے تھے لاہور میں یہ حملہ داتا دربار کے قریب ہوا جہاں داتا صاحب کے عرس کی تقاریب بھی جاری تھیں اور اسی طرح کراچی میں خود کش نے خود کو پولیس کی وین سے ٹکرا دیا تاہم عزاداروں کی بس حملے سے محفوظ رہی
اطلاعات کے مطابق لاہور میں  اردو بازار چوک میں الف شاہ حویلی سے آنے والے چہلم کے جلوس کے راستے میں انٹری پوائنٹ پر بارود سے بھرا بیگ پھینکا اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں چار پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور 80زخمی ہوگئے ہیں۔ بتایا گیا ہے خود کش کی عمر کوئی پندرہ برس کی تھی
وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ کراچی کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا گیا ہے۔ نہ جانے انکے نزدیک بڑی تباہی کیا ہے۔ یہ جو ماؤں کے لال مرے ہیں کیا یہ بڑی تباہی نہیں ہے؟
ذرا ان دھماکوں کی خبر کا یہ حصہ ملاحظہ کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ دھماکے کے بعد صوبائی دارالحکومت کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جبکہ شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی سیکورٹی سخت کر دی گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سوچیئے یہ کیسا مذاق ہے کہ ہر بار حملہ ہوجانے کے بعد ہی سیکیورٹی الرٹ کی جاتی ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ ترین افسران کے بقول انہیں ایسے حملوں کی مخبری ہوئی تھی۔ تو پھر جب مخبری تھی تو سیکیورٹی ہائی الرٹ کیوں نہیں کی گئی،حملے کے ہو جانے کا انتظار کیوں کیا گیا؟
آیئے ذرا دو سال پہلے کا یہ کالم پڑھئے اور دیکھئے کہ آخر ان دوسالوں میں کیا تبدیلی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں اٹھائیس دسمبر دوہزار نو بروز پیر یوم عاشور کے موقع پر کراچی میں ایک کربلا برپا ہو گئی۔ جن لوگوں نے یہ مناظر ٹیلی ویژن پر دیکھے ہیں انکو یہ احساس ہو رہا ہو گا کہ کاش عوام کو پر امن رہنے کی اپیل کرنے والوں کو یہ ادراک ہو سکتا کہ ان جاں بحق ہونے والوں کی جگہ اللہ نہ کرے کہ ان کا کوئی بیٹا یا بھائی ہوتا اور ان سے پر امن رہنے کو کہا جا رہا ہوتا تو ان کا رد عمل کیا ہوتا۔
ایک خود کش نے پینتیس بے قصور افراد کی جانیں لے لی ہیں اور ہمارے قائدین لوگوں کو پرامن رہنے کی اپیل تک محدود ہیں۔ صف اول کے کسی قائد کو کسی وفاقی وزیر کو، وزیر اعظم کو، صدر کو یا صدر کے کسی نمائندے کو توفیق نہیں ہو سکی کہ وہ جائے حادثہ پر جاتا، ہلاک شدگان کے لواحقین سے ملتا یا پھر زخمیوں کے پاس ہسپتال جاتا۔ ہاں ایک ٹی وی پر ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور پیپلز پارٹی کی فوزیہ وہاب کو ہسپتال میں دیکھا ہے۔ اس سطح کی نمائندگی ہوئی ہے سرکار کی۔ شاید ان قائدین کی جانیں عوام سے زیادہ قیمتی ہیں؟
ابھی تو یہ بات متنازعہ بن گئی ہے کہ حکومت نے جس سر کو خود کش کا سر قرار دیا ہے شیعہ قائدین نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی شناخت ہو گئی ہے اور یہ ایک سکاؤٹ کا سر ہے۔
منگل کو شہر بھر میں یوم سوگ منایا جا رہا ہے جو دراصل سوگ نہیں بلکہ سرکار کی کوشش ہے کہ مزید رد عمل کو روکا جائے اور لوگوں کو ان کے گھروں تک محدود کیا جائے۔ کل رات کو دو افراد کی نماز جنازہ ادا کر کے تدفین کر دی گئی اور یہ دونوں نوجوان لاشیں اہلسنت کے نوجوان سکاؤٹوں کی تھیں جو بیس برس سے سکاؤٹ کے طور پر یہ ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔
ظالم کی گولی اور خود کش کا حملہ کسی مسلک یا دین یا صنف کو نہیں دیکھتا۔ مسئلہ ملک میں امن و امان کے قیام کا ہے جو بظاہر اسوقت کہیں بھی نظر نہیں آتا۔
یہ طے ہے کہ مقامی صوبائی حکومت کو خفیہ محکموں کی طرف سے ایسے حملے کی اطلاعات تھیں اور اس خود کش حملے سے دو روز قبل مسلسل دو دھماکوں سے اس بات کو تقویت مل رہی تھی کہ کوئی حملہ ہو گا۔ حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ سرکار زیادہ سے زیادہ ایسے واقعات پر افسوس کا اظہار کر سکتی ہے اور سرکاری بیان جاری کر سکتی ہے سو حکومت نے یہ کیا ہے۔
نواسۂ رسول امام حسین (ع) کی شہادت کا دن۔ عزادارن حسین خاتون جنت کو انکے لال کا پرسہ دینے کے لئے سراپا سوگ میں اور ایسے میں فرقہ یزیدیہ کے پیروکار کا خود کش حملہ۔ اس سے کسی کو قطعی طور پر کوئی انکار نہیں ہے یہ کام کسی مسلمان حتیٰ کہ انسان کا نہیں۔ یہ حیوان کے نام پر بھی دھبہ ہیں۔ خود کو کلمہ گو کہنے والے یہ لوگ اکسٹھ ہجری کے ان یزیدیوں کا تسلسل ہیں جو اسوقت بھی خود کو کلمہ گو کہتے تھے، نماز بھی پڑھتے تھے، اذان بھی دیتے تھے اور نبی کی آل کو اور سوار دوش رسول کو قتل بھی کر رہے تھے۔
کراچی میں ہونے والے اس دلخراش سانحے پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن جب دل صدمے سے دوچار ہو تو قلم بھی بے جان ہو جاتا ہے اور میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
میں کراچی سے ہزاروں میل دور لندن میں بیٹھا ہوا یہ جانکاہ مناظر ٹی وی دیکھ رہا ہوں لیکن میری روح کراچی میں ہے کیونکہ میرے بھائی بہن اسی شہر میں ہیں اور وہ جو اس خود کش کا نشانہ بنے ہیں وہ بھی تو میرے ہی بھائی اور بیٹے ہیں۔ روز روز لاشیں اٹھا اٹھا کر معاشرے میں اب یہ بے حسی بھی آن بسی ہے کہ مرنے والے کراچی کے تھے یا پشاور کے تھے؟۔
کاش ہم میں یہ شعور آ جائے کہ یہ مرنے والے کسی شہر ،مسلک یا سیاسی جماعت کے نہیں تھے بلکہ پاکستانی تھے اور ہمارے اپنے تھے۔
انسانی جانوں کا تو زیاں ہوا ہی ہے جو کسی طرح پورا نہیں ہو گا لیکن ظالموں نے معیشت کے سینے میں بھی خنجر مارا ہے۔
بولٹن مارکیٹ کی دوکانیں ہوں یا پھر ایم اے جناح روڈ کی جلتی دوکانیں اور گاڑیاں۔ حد تو یہ ہے کہ اتنے بڑے شہر کے پاس درجن بھر سے بھی کم میٹل ڈٹیکٹر ہیں اور وہ بھی نہایت پرانے۔
صوبائی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں بہت مہنگی ہیں۔ واہ جی واہ۔ یہ چیزیں مہنگی ہیں اور انسانوں کی جانیں سستی!۔
اس حکمران جماعت کے رہنماؤں کے پاس اتنی دولت اسی پاکستان کی ہے کہ شاید یہ تنہا بھی ایسے آلات خرید سکتے ہیں لیکن یہ تو ان کی ترجیحات نہیں ہیں۔
بولٹن مارکیٹ کی دوکانوں سمیت کوئی ایک ہزار دوکانیں جل گئی ہیں۔ شہر کی فائر بریگیڈ بے اثر ہے۔ گاڑیوں کی نہایت کم تعداد اور پانی کی وافر مقدار بھی نہیں۔ پھر یہ کہ پلاسٹک کی دوکانوں کو لگی آگ بھلا پانی سے بجھتی ہے، ایسی آگ کے لئے خاص فوم استعمال ہوتا ہے جو سرے سے موجود ہی نہیں اور جو کیمیکل آگ بجھانے کے لیئے استعمال کیئے جا رہے ہیں وہ بھی بے اثر ہیں۔ ایسےمیں ان دوکانوں کے مالک مجبور تھے کہ اپنی دوکانوں کو بس اپنی آنکھوں سے جلتے دیکھتے رہیں۔ اس وقت جب میں یہ نوحہ تحریر کر رہا ہوں دوکانوں کی آگ ابھی تک بھڑک رہی ہے۔
کس میں یہ ہمت ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومت کو یہ پوچھے کہ کیا اس ملک کے عوام کے کوئی حقوق ہیں؟ یہ لوگ جو پہلے ہی آٹے،چینی اور بجلی پانی کی کمی کے ہاتھوں مر رہے تھے اب انکی زندگیوں کو خود کش آسان بنا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے جاں بحق ہونے والوں کی جان کی قیمتوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ویسے یہ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا کر سکتے ہیں۔ جس گھر پر بجلی گرتی ہےوہی گھر جانتا ہے۔جس گھر کے بچے بوڑھے مرے ہیں انکا دکھ وہی گھر جانتا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ برادر ملک چین نے‘‘سکینر‘‘ دیئے ہیں لیکن یہ اسلام آباد کے لئے ہیں!۔
جی انسان تو صرف اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ باقی شہروں میں عوام نہیں حشرات الارض  بستے ہیں۔ اور حشرات الارض کی زندگیاں اسلام آباد والوں کے برابر تو نہیں ہو سکتیں نا!۔
اب یہ کہنا کہ اللہ رحم کرے گا ایک مکر،فریب اور جھوٹ لگتا ہے۔
موت کیسے میرے شہر میں بے دھڑک دندناتی پھر رہی ہے۔
تحریر: صفدر ھمدانی۔لندن

متعلقہ مضامین

Back to top button