مقالہ جات

عراق اور سعودی مداخلت

map-iraqعراق میں بدامنی اور عدم استحکام کی نئی لہر نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں عراق میں بدامنی اور عدم استحکام کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔
عراق میں گزشتہ ہفتہ بغداد اور دیالہ صوبے میں چند دہشت گردانہ کاروائیاں ہوئی ہیں جس میں سینکڑوں عراقی شہری جاں بحق یا زخمی ہوئے ہیں  ۔ قرائن بتارہے ہیں کہ تشدد اور دہشت گردی کی ان کاروائیوں میں بعض عرب ممالک ملوث ہیں۔
سعودی عرب ان عرب ملکوں میں سے ایک ہے جو گزشتہ سات سالوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ عراق کی سلامتی کے مسائل پر اثرانداز ہورہا ہے بعض ذرائع ابلاغ نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ سعودی عرب عراق میں دہشت گردی کی کاروائیاں انجام دینے کے لئے دہشت گردوں کو تربیت دے رہا ہے ۔
حرمین نامی ویب سائیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب نے مختلف دہشت گردوں اور شرپسندوں کو سعودی عرب کے جنوب مغربی علاقے عسیر میں اکٹھا کیا ہے اور ان کو عراق کے مختلف علاقوں میں خودکش حملے اور بم دھماکے کرنے کی باقاعدہ تربیت دی جارہی ہے اس سے پہلے بھی بعض عرب شہزاروں کی طرف سے عراق میں سرگرم عمل دہشت گردوں کی مالی حمایت کرنے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں چھپ چکی ہیں ۔
سعودی عرب کی حکومت بظاہر عراق میں امن و امان اور سیاسی استحکام کی حمایت کا اعلان کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب عراق کی موجودہ حکومت اور نظام سے ذرا برابر خوش نہیں ہے ۔
لہذا وہ ہر طریقے اور حربے سے عراقی حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ عرب حکومتوں کے بے جا مطالبات پر عمل کرے ۔
سعودی عرب کا یہ کہنا ہے کہ عراق عرب دنیا کا ایک حصّہ ہے لہذا اس کا حکومتی نظام بھی دیگر عرب حکومتوں کی مانند ہونا چاہئے ۔
سعودی عرب اور چند دوسرے عرب ممالک کافی عرصے سے یہ کوشش کررہے ہیں کہ صدام کی بعث پارٹی کے باقی ماندہ افراد کو عراقی اقتدار میں واپس لائیں عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بھی سعودی عرب نے بعث پارٹی اور اپنے ہم فکر سلفی گروہوں کو اقتدار میں لانے کےلئے بے تحاشا مالی وسائل خرچ کئے۔ عرب حکومتیں بالخصوص سعودی عرب عراق کی سیکوریٹی کی صورت حال کی وجہ سے عراق پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کرتا ہے اور عالمی سطح پر عراق کی موجودہ حکومت کو ناکام ثابت کرکے اپنے مرضی کے افراد اور نظام کو لاگو کرنے کے درپے ہے ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کی یہ کوششیں اب بارآور ثابت نہیں ہونگی کیونکہ موجودہ عراق دوہزار تین اور دوہزار چار کے عراق سے بہت مختلف ہے ۔ آج عراق کے مختلف سیاسی اور حکومتی ادارے مضبوط ہوچکے ہیں اور عراقی حکام بھی اپنے تجربات کی روشنی میں ایک نئے عراق کی بنیادیں مضبوط کررہے ہیں جو آئین کی روشنی میں قومی اور مذہبی تعصبات سے دورہوگا اور اس وقت بلاشبہ قومی وحدت و یکجہتی کا استحکام اور ہر قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف استقامت عراق کے موجودہ سیاسی نظام کی ترجیحات میں سرفہرست ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button