آیت اللہ جوادی آملی کا انقلابی پیغام: اصل وارث پیغمبر کون ہے؟
"علمِ لدنی اور علمِ الوراثہ کی حقیقت پر مرجع تقلید کی فکرانگیز گفتگو"

شیعیت نیوز : حضرت آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے "جامعۃ الزہرا (س)” اور "مرکز مدیریت حوزہ علمیہ خواهران” کی تقریب آغاز سال تحصیلی میں بھیجے گئے اپنے تصویری پیغام میں کہا کہ وہ علمِ لدنی جو انبیاء کو عطا ہوا اگر اس کا ایک حصہ بھی کسی عالم کو مل جائے تو وہ عالم ربانی بن جاتا ہے اور صرف عالم ربانی ہی ہے جو معاشرے کی حقیقی اصلاح کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ اس سال تعلیمی سال کا آغاز میلادِ پُربرکت فخرِ انسانیت و اسلام، وجودِ مبارک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے، اس لیے مناسب ہے کہ تعلیم و تربیت کی حقیقت کو ان کے کلام اور سیرت کے تناظر میں بیان کیا جائے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآنِ کریم ہے جو تعلیم و تعلم کا محور ہے۔ قرآن علم کو زندگی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے کیونکہ وحی اور نبوت کا مقصد یہی ہے کہ انسان کو حیاتِ حقیقی عطا کی جائے۔ حیوانی اور نباتی حیات کے ساتھ ساتھ انسانی حیات صرف الٰہی معارف کے ذریعے ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں : “شعر کے پردے میں چھپی وہ حقیقت جسے آیت اللہ اعرافی نے دنیا کے سامنے رکھا”
انہوں نے مزید کہا کہ علم کی حقیقت ایک امرِ ملکوتی ہے، جو دنیوی امور کی طرح محدود نہیں۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: «کُلُّ وِعَاءٍ یَضِیقُ بِمَا جُعِلَ فِیهِ إِلَّا وِعَاءَ الْعِلْمِ فَإِنَّهُ یَتَّسِعُ بِه» یعنی ہر ظرف اپنے اندر رکھی چیز سے تنگ ہوجاتا ہے مگر علم کا ظرف ایسا ہے کہ جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی وسیع تر ہوتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ شاگردِ پیغمبر صرف وہ نہیں جو سن کر اور لکھ کر علم حاصل کرے بلکہ اصل وارثِ پیغمبر وہ ہے جو "علم الوراثہ” سے بہرہ مند ہو، نہ کہ صرف "علم الدراسہ” سے۔ علم الدراسہ محنت، سماعت اور تکرار سے حاصل ہوتا ہے لیکن علم الوراثہ ایک باطنی اور ربانی عطیہ ہے۔
آخر میں انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال ہمارے نظام اسلامی، رہبر، ذمہ داران، حوزاتِ علمیہ اور تمام علمی و ثقافتی مراکز کو حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ کی عنایاتِ خاصہ سے بہرہ مند فرمائے تاکہ یہ نظام اسلامی اس کے حقیقی و اصلی صاحب کے ظہور سے متصل ہوجائے۔