کربلا پر ۱۲۱۶ ہجری کا وہابی حملہ: ضریحِ مطہر جلانے کا دل دہلا دینے والا واقعہ
آیت اللہ شبیری زنجانی کا بیان — مقدس تربت اور معجزاتی نجات کی داستان

شیعیت نیوز : آیت اللہ العظمیٰ شبیری زنجانی نے کتاب "جرعہای از دریا” میں بیان کردہ ایک واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ۱۲۱۶ ہجری میں وهابی لشکر نے کربلا پر حملہ کر کے شہر کے بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام کیا۔ اس دوران انہوں نے حرم امام حسینؑ پر بھی حملہ کیا، ضریحِ مطہر کو اکھاڑ کر جلا دیا اور حیرت انگیز طور پر اسی لکڑی سے قہوہ تیار کیا، حالانکہ وہ قہوہ کو خود حرام سمجھتے تھے۔
اس حملے میں وهابی مسلح افراد نے اُس وقت کے کربلا کے سرکردہ عالم دین، مرحوم صاحبِ ریاض کے گھر پر بھی دھاوا بولا۔ گھر کے افراد جلدی میں نکل گئے، مگر صاحبِ ریاض اور ان کے ہمراہ ایک شیر خوار بچہ گھر میں رہ گئے اور ایک ٹوکری کے نیچے چھپ گئے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ تلاشی کے دوران وہ بچہ ایک لمحے کے لیے بھی نہ رویا — جسے آیت اللہ شبیری زنجانی نے معجزہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں : زیارتِ حسینؑ پیدل — ہر قدم پر ہزار نیکیاں اور ہزار درجات کا انعام
وہابیوں نے شہر میں ایک دن قتل و غارت گری کے بعد نجف کا رخ کیا، مگر وہاں کے لوگوں کی تیاری کے باعث کامیاب نہ ہو سکے۔ آیت اللہ شبیری زنجانی نے بتایا کہ زنجان کے معروف علمی خاندان "بیتِ آمیرزا ابوالقاسم” کے بانی، آمیرزا ابوالقاسم کے والد آقا سید کاظم اُس وقت نجف میں رہتے تھے اور صاحبِ ریاض کے شاگرد تھے۔ جب انہیں خبر ملی کہ استاد کے گھر پر حملہ ہوا ہے، تو وہ فوراً پہنچے اور صاحبِ ریاض کو شیر خوار بچے سمیت ٹوکری کے نیچے سے نکال کر بچایا۔ اس وقت ان کی حالت نہایت نازک تھی اور اگر کچھ دیر اور ہو جاتی تو وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
اس کے بعد آقا سید کاظم اور صاحبِ ریاض نے غسل کر کے حرمِ حسینیؑ کی زیارت کی نیت کی۔ حرم میں داخل ہونے پر دیکھا کہ ضریحِ مطہر جلا دی گئی ہے اور قبرِ مطہر کے ایک گوشے میں شگاف پڑ گیا ہے۔ آقا سید کاظم نے شگاف میں ہاتھ ڈال کر کہا: "مجھے بدنِ مبارک کا ایک حصہ محسوس ہو رہا ہے”۔ صاحبِ ریاض نے بھی تصدیق کی۔
آقا سید کاظم نے سفید کپڑے کا رومال نکالا، مقدس تربت اٹھائی، اور رومال سرخ ہو گیا۔ انہوں نے کچھ تربت خود رکھی اور کچھ استاد کو دے دی۔ بعد ازاں آقا سید کاظم کے انتقال کے بعد ان کے سادہ مزاج بھائی میر کریم نے یہ تربت مٹی کے سجدہ گاہ میں ڈھال کر لوگوں میں تقسیم کر دی۔ اُس وقت کم عمر آمیرزا ابوالقاسم نے بڑی کوشش سے ایک سجدہ گاہ حاصل کی اور یہ سجدہ گاہ ان کے خاندان میں بطور تبرک محفوظ رہی۔ آمیرزا ابوالقاسم نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ اس سجدہ گاہ کی بے مثال اہمیت کو ہمیشہ یاد رکھیں۔